وحشت زدہ حقیقت

جمعہ 31 جنوری 2020

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

20 ستمبر 2017ء کے دنیا بھر کے اخبارات ، ایران کے شہر پارساباد کے شمال میں ایک قصبے میں ہونے والی پھانسی کے بارے میں تفصیلات سے بھرے پڑے تھے۔ایران کے شہر میں اتینا اسلانی نامی سات سالہ معصوم بچی زیادتی کے بعد قتل کردی گئی۔بچی کا والد کپڑے کا تاجر تھا، بچی والد کی دکان سے باہر نکلی اور پھر غائب ہوگئی۔ بچی کی گمشدگی کو اس کا باپ اغوا سمجھتا رہا، سی سی ٹی وی فٹیج نکالی گئی تو بچی ،اسماعیل جعفرزادہ نامی شخص کی دکان میں داخل ہوتی نظر آئی۔

پولیس آئی اور تفتیش کے بعد بچی کی لاش ، دکان کی پارکنگ سے مل گئی۔پورے ملک میں احتجاج شروع ہوگیا اور یوں اسماعیل کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔یہ واقعہ 19 جون 2017ء کو پیش آیا، 20 جون 2017ء کو مجرم گرفتار ہوگیا،11 ستمبر 2017ء کو اسے سزا سنائی گئی اور ہزاروں لوگوں کے خوشی سے چیختے مجمع کے سامنے اسماعیل کو ایک کرین سے لٹکا کر پھانسی دے دی گئی۔

(جاری ہے)

سزا کا یہ سارا عمل تین ماہ میں مکمل ہوگیا اور یوں انصاف کا بول بالا ہوگیا۔ پاکستان میں بچیوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہیں،مگر یہ سب کسی چھوٹے اخبار کی چھوٹی سی خبر تک محیط تھا اور اس پر کسی کی توجہ نہیں گئی تھی ۔قانون انصاف معاشرے میں پہلے ناپید ہے،اور ایسے واقعات کا شکار عمومی طور پر غرباء کے بچے تھے،لحاظہ ایسا کوئی کیس منظر عام پر نہیں آیا۔

پھر زینب کیس سوشل میڈیا پر راتوں رات وائرل ہوا۔لوگ زینب کے لیے انصاف مانگنے لگے اور ارباب ِ اختیار کو واقعے کی اصل سنگینی کا اندازہ ہوا۔ پاکستان کے شہر قصور میں 4 جنوری 2018ء کو چھ سالہ زینب کو خالہ کے گھر کے قریب سے مدرسے جاتے اغوا کرلیا جاتا ہے۔ پانچ جنوری کو سی سی ٹی وی فوٹیج پولیس کے حوالے کردی گئی اور اس کے قاتلوں کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔

دس جنوری کو اس بچی کی لاش ،اس کے اغوا ہونے والی جگہ سے دو گلیوں دور ملتی ہے۔اس بچی کو انہی تین گلیوں میں کہیں رکھ کر ،کئی بار زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس سارے عمل میں بچی کے والدین عمرے کے لیے اللہ کے گھر تھے اور ان کے پیچھے قیامت ٹوٹ رہی تھی۔یہ قصور میں اپنی طرز کا 12 واں واقعہ تھا اور بچیوں کے سیریل ریپ اور پھر انہیں قتل کرنے والا قاتل ،پولیس کی آنکھوں سے اوجھل تھا۔

شدید عوامی غصے اور سوشل میڈیا پر رد ِ عمل کے بعد عمران علی نامی شخص ان سیریل ریپ ٹارچر میں ملوث پایا گیا۔ جسے 17 اکتوبر، 2018 کو تختہ دار سے لٹکا دیا گیا۔ زینب کے والد امین انصاری کا مطالبہ آخری وقت تک یہی تھا کہ اسماعیل جعفر زادہ کی طرز پر یہ پھانسی سرعام دی جائے، مگر ایسا کوٹ لکھپت جیل کی چار دیواری میں ہوا اور بہت سے لوگ عمران علی کا آخری انجام دیکھنے سے محروم رہے۔

آنے والا وقت عمران علی سے عبرت سیکھنے کی بجائے اور زیادہ ظالم تھا۔ آئے دن ایسے واقعات رپورٹ ہونے لگے، کوئی سوشل میڈیا کی زینت بنتا،تھوڑا شور مچایا جاتا اور پھر وہی دائمی خاموشی، ایسے واقعات کی نہ تو روک تھا کے لیے کچھ کیا گیا اور نہ ہی ان کی اصل محرکات جاننے کی کوشش کی گئی۔ ملک میں ایک خاص طبقہ ایسے واقعات کو بین الاقوامی پیڈوفائل گروہ سے جوڑنے لگا،جس میں بچوں پر ظلم کرکے ان کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے،اس کو فلمایا جاتا ہے اور انہیں بہت مہنگے داموں ایسے ملکوں میں بیچا جاتا ہے جہاں سے ایسی کالی پیڈوفائل ویب سائٹس آپریٹ ہوتی ہیں،جنہیں ڈارک ویب کہا جاتا ہے ،ان ملکوں میں اٹلی اور جرمنی سر فہرست ہیں۔

ایسے کئی شواہد سامنے لائے گئے،مگر ان پر بھی کوئی خاص کاروائی نہ کی گئی۔رمضان کے مہینے میں اربابِ اختیار کے گھر سے دس کلومیٹر دور اسلام آباد شہر کے علاقے چک شہزاد میں 15 مئی 2019ء کی شام فرشتہ مہمند نامی دس سالہ بچی گم ہوجاتی ہے۔ باپ تھانے جاتا ہے تو ایس ایچ او یہ کہہ کر بھگا دیتا ہے کہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔ چار دن بعد اس معصوم فرشتہ کی تعفن زدہ نوچی ہوئی، لاش چک شہزاد سے ملتی ہے،جسے انسانی حیوانوں کے بعد جانوروں نے بھی نوچ رکھا تھا۔

Justice for Farishta پھر ٹرینڈنگ میں آجاتا ہے، حکامِ بالا کو ہوش آتا ہے اور پھر ایس ایچ او معطل اور مجرم کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔ اب کی بار مجرم فرشتہ کا قریبی رشتہ دار نکلتا ہے اور وہ کیس عدالتوں کی نظر ہوجاتا ہے۔ اس عرصے میں اسلام آباد کے علاقے سے ہی ایک ایسے شخص کو بچے کے ساتھ زیادتی کے بعد گرفتار کیا جاتا ہے جو باقائدہ پیڈوفائل کے بین الاقوامی گروہوں سے اپنے تعلقات کا اعتراف کرتا ہے ،یہ وڈیو پورے سوشل میڈیا پر وائرل ہوجاتی ہے،مگر اس کے بعد کی کاروائی کسی کے علم میں نہیں آتی۔

گزشتہ ہفتے مانسہرا میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آتا ہے ،جب حوض نور نامی سات سالہ بچی،مدرسے جاتی گم ہوجاتی ہے اور بعد میں اس کے لاش علاقے میں ہی درختوں کے جھنڈ میں ایک پانی کے ٹینک سے ملتی ہے،ایسا ہی ایک لاش ملنے کا واقعہ دو ماہ پہلے بھی پیش آتا ،جب کنویں میں پھینکی ایک بچی کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہیں ۔ حوض نور کے کیس میں علاقہ مکینوں کی مدد سے فوری طور پر دو افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے جو اپنے جرم کا اعتراف کرلیتے ہیں،یہ بچی کو اغوا کرکے ،کئی بار زیادتی کے بعد،اس کا گلا گھونٹ کر اس کو پانی کے ٹینک میں لٹکا دیتے ہیں ۔

پہلے علاقے کی پنچایت ان کو خود مار نے کا فیصلہ کرتی ہے ،بعد میں پولیس کے حوالے کردیا جاتا ہے اور اس کیس میں بھی پولیس کی تمام تیزی کے پیچھے Justice for Hooz Noor کا ٹرینڈ ہوتا ہے اور یوں مجرم پکڑے جاتے ہیں۔ یہ سلسلے کالی تاریک راتوں کے قصے ہیں اور یہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔ کئی بار ایسے کئی کیسز کو ڈارک ویب کا نام دے کر دبانے کی کوشش کی گئی، مگر ایسے کیسز میں اکثریت کے شواہد کسی ڈارک ویب یا اس کے نیٹ ورک سے نہیں ملتے،ایسا ظلم ڈھانے والوں میں اکثریت ایسے بچوں کے انتہائی قریبی رشتہ داروں یا جاننے والوں کی ہے، اور نشانہ بننے والی بھی عمومی طور پر معصوم بچیاں ہیں،گو ان میں چھوٹے بچے بھی کثیر تعداد میں شامل ہیں۔

تاریک رات کے سرد اندھیرے میں ایسے کیسز کی اصل کالک ڈھونڈنے کی جہد کی تو محرکات اسی سوشل میڈیا میں ملنے لگیں جو ٹرینڈنگ میں ان بچیوں کے لیے انصاف مانگتا ہے۔ کبھی آپ نے اپنے اردگرد کسی مذدور،کسی ڈرائیور کی مالی حیثیت کے مقابلے میں،اس کے ہاتھ میں فون دیکھا ہے،تو آپ کو ایسے واقعات کی وجوہات نظر آنے لگیں گی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے مگر سچ ہے کہ ہمارے ہاں مذدور کے گھر فاقے بھی ہوں،تب بھی وہ اسی کوشش میں ہوتا ہے کہ ٹچ سکرین والا فون لے لے اور اس سکرین سے ایسے واقعات کی بڑھتی ہوئی شدت کی کہانی شروع ہوتی ہے،جس کے سلسلے معاشرے میں شدید غربت،وحشت زدہ جہالت ، بے راہ روی اور بے حسی تک آنکلتے ہیں اور ان کی مرکزی وجہ آج کے وہ نکاح اور رشتہ سٹینڈرڈز ہیں جنہوں نے جائز رشتوں کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔

ایک طرف ویب سیریز کا دور ہے کہ جہاں ٹچ سکرین پر بولڈ مواد عام ہورہا ہے اور ویب سیریز کی آڑ میں لیگل ہورہا ہے،ان کے ساتھ ہمارے ہی معاشرے سے دنیا بھر میں بہترین ٹک ٹاک سٹارز ،پرینکسٹرز اور یوٹیوبرز ہیں، جو اپنا سب دکھا کر، بہت پیسہ بنا رہے ہیں اور ان کو دیکھنے والی آنکھیں ،وہی ہیں،جن کے گھر فاقوں ہیں۔ ایسے میں سب دکھایا تو جارہا ہے،مگر شرعی طور پر بھی گھر بیٹھے کئی نوجوان لڑکیاں اپنے بال چاندی کررہی ہیں اوردوسری طرف فرشتہ،زینب اور نور وحشت زدہ موت کی نظر ہورہی ہیں۔

مطلب یہ ایک عجیب سا کینسر زدہ معا شرہ ہے۔مجھ سے لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ پاکستان میں کونسا پیڈوفائل نیٹ ورک ہے جو بچوں کے ساتھ زیادتی کے گھناؤنے واقعات میں ملوث ہے۔ جواب سب کو معلوم ہے پر کوئی دینا نہیں چاہتا۔وہ نیٹ ورک یہی معاشرہ ہے جہاں نکاح کی اوسطا عمر پینتیس سے چالیس سال ہے اور بلوغت کی نو سے دس سال،جہاں آپ کا غیر محرم سے بات کرنا حرام ہے مگر دنیا بھر کے غیر محرموں کے لیے آپ کے یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز رینکنگ میں نمبر ون پر ہیں، اور ان سمیت بہت کچھ پراکسیز پر دیکھنے میں بھی آپ ہی کا پہلا نمبر ہے۔

یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں کا مزدور رات بھوکا سولیتا ہے, مگر اپنے شوق ٹچ سکرین رکھ کر پورے کرتا ہے۔ آپ جنسی ہیجان سے بھرے معاشروں میں آگ لگا کر، اس پر تیل چھڑک رہے ہیں اور پھر سمجھتے ہیں کہ ایسے میں یہ سب خود ٹھنڈا ہوجائے گا۔ جو آگ بے حسی،شدید جہالت اور وحشت زدہ محرومیوں کے ڈھیر پرلگائی جائے ،وہ ٹھنڈی نہیں ہوا کرتی ، سب جلا کر راکھ ہوجاتی ہے۔ پیڈوفائل کے نیٹ ورک کی اصل حقیقت بھی بس یہی ہے۔وحشت زدہ حقیقت۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :