سپرپاورکی بدترین شکست

ہفتہ 21 اگست 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

امریکی سامراج اور دیگر اتحادی افواج کوافغانستان چھوڑنے پر مجبور کرنے والے صرف اور صرف افغان طالبان ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ پچھلی دو دہائیوں پر مشتمل امریکی مداخلت اور افغانستان پر قبضے کو مقامی آبادی کی جانب سے بھی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سامراجی جنگ کے خلاف افغان عوام میں شدید نفرت پائی گئی، جس جنگ میں ہزاروں معصوم جانیں لقمہ اجل بن گئیں اور پورا ملک تباہی، عدم استحکام اور بربریت کاشکارہوا،یہ بات غلط نہیں ہے کہ خصوصاََ دیہی پشتون علاقوں میں مغربی سامراج سے نفرت کے اظہار میں مقامی آبادی نے چپ چاپ طالبان کو قبول کر لیا اور انہیں قابض غیرملکی افواج پرحملے کرنے میں بھی مدد کی۔

20سال پر محیط جنگ اور 2 ٹریلین امریکی ڈالر سے زائد کی خطیر رقم خرچ کرنے کے بعدامریکی حکمران طبقہ ان مقاصد کو حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے جو انہوں نے جنگ کی شروعات میں دنیا کے سامنے رکھا تھا۔

(جاری ہے)

ان گنت شہریوں کے قتل عام، کئی علاقوں پر کارپٹ بمباری اور لاکھوں زندگیاں برباد کرنے کے بعد امریکہ طالبان کے ہاتھوں افغانستان میں ذلت آمیز شکست کھاکررات کی تاریکی میں بھاگ گیا۔

امریکہ اور اتحادی افواج کی کٹھ پتلی کمزور اور کرپٹ کابل حکومت جس کی باگ ڈور صدر اشرف غنی کے ہاتھوں میں تھی، امریکی افواج کے انخلاء کے ساتھ ہی تیزی سے ٹوٹ کر بکھر گئی کیونکہ عوام کی ایک بھاری اکثریت اشرف غنی سے نفرت کرتی تھی، امریکی انٹیلی جنس کی اطلاعات کے مطابق غنی حکومت انخلاء کے بعد بمشکل چھے مہینے برقرار رہ پائے گی لیکن سب کچھ اس کے برعکس ہواابھی تک امریکی افواج کاانخلاء بھی مکمل نہیں ہواطالبان نے بازورطاقت دارالحکومت کابل سمیت پورے افغانستان پرکنٹرول حاصل کرلیااورکٹھ پتلی سابق صدراشرف غنی اوراس کی کابینہ کے ارکان افغانستان سے بھاگ گئے اورمتحدہ عرب امارات میں سیاسی پناہ حاصل کرلی۔


امریکہ کی 20سال قبل شروع کی گئی جنگ میں شکست نوشتہء دیوارتھی لیکن امریکی اوراس کے اتحادیوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھاکہ انہیں ویت نام کے بعد افغانستان میں اتنی بھیانک اورذلت آمیزشکست کاسامناکرناپڑے گا۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے 2001ء میں کابل میں افغان طالبان کی حکومت کاخاتمہ کیاتھااوردوسال بعدامریکی سیکرٹری دفاع رمز فیلڈنے یکم مئی2003ء کو کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں اپنی فتح کااعلان کیااورساتھ ہی افغانستان میں جنگی سرگرمیاں ختم کرنے بھی اعلان کیاتھا،لیکن زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس تھے افغان طالبان نے ہارنہیں مانی تھی وہ پہاڑوں میں چھپ گئے تھے اوردوبارہ منظم ہوکر انہوں نے امریکہ اوراس کے اتحادیوں کیخلاف گوریلاجنگ شروع کردی تھی، امریکی سیکرٹری دفاع رمز فیلڈنے امریکی عوام اوردنیاسے دروغ گوئی کی اور سراسرجھوٹ بولاکہ ہم نے افغانستان فتح کرلیاہے ۔

امریکی اعلان کے باوجود یہ جنگ ختم نہ ہوسکی اوردودہائیوں تک جاپہنچی،امریکی انتظامیہ نے اپنی عوام سے دھوکہ کیاانہیں افغانستان میں سب اچھاہے کہہ کرمطمئن کرتے رہے جس طرح انہوں نے پہلے ویت نام کی جنگ کے دوران کیا تھا۔گذشتہ اتوارکوکابل سے امریکی فوجیوں کابھاگنے کامنظر1975ء جیساتھاجس طرح امریکی فوجی ویت نام کے دارالحکومت سیگون میں سفارت خانے کی عمارت کی چھت پرچڑھ کر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بھاگے تھے۔

اسی طرح کابل میں حامدکرزئی انٹرنیشنل ائرپورٹ پربھاگ کر افغانستان سے نکلنے کیلئے جہازپرسوارہوئے۔افغانستان میں امریکہ اوراس کے اتحادیوں کی شرمناک شکست اورافراتفری میں انخلاء کے مناظرنے واشنگٹن اور دیگر مغربی دارالحکومتوں میں بہت سے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیاہے،اورتاریخ نے ایک بارپھرثابت کردیاکہ افغانستان وقت کی سپرپاورسلطنتوں کا قبرستان ہے ۔

19ویں صدی میں افغانوں نے افغانستان میں انگریزوں کاقبرستان بنایاپھرجب 20ویں صدی میں سوویت یونین نے افغانستان پرقبضہ کی کوشش کی توافغانوں نے پھراپنی تاریخ دہرادی ،شکست سوویت یونین کامقدرٹھہری اورافغانوں سے شکست کے باعث سوویت یونین کاشیرازہ بکھرگیاجس سے دنیاکانقشہ تبدیل ہوگیااورکئی نئے ممالک وجود میں آگئے۔جب امریکہ نے افغانستان پرحملہ کیاتھاتوایک روسی جرنیل نے کہاتھاکہ افغانستان میں داخل ہونے کے سوراستے ہیں لیکن واپسی کاصرف ایک ہی راستہ وہ بھی تابوت کی صورت میں ،روسی جرنیل کی بات بھی امریکیوں کی سمجھ میں نہ آئی کیونکہ وہ سپرپاورکے نشے میں بدمست تھے اورامریکیوں نے تاریخ سے سبق نہ سیکھاکیونکہ یونانیوں کے قدیم شہنشاہ سکندر اعظم نے کہاتھا کہ افغانستان میں جانا آسان ہے لیکن باہر نکلنا مشکل ہے۔

اس سب کے باوجود امریکہ اورمغربی دنیانے 9/11کابہانہ بناکرافغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی اورامریکی صدرجارج واکربش نے اس جنگ کو کروسیڈ واریعنی صلیبی جنگ قراردیاتھالیکن جلدہی اپنے بیان سے منحرف ہوگیا۔ بش کی مسلط کردہ جنگ نے افغانستان کو شدید مشکلات سے دوچار کر دیا اور امریکہ بھی اپنے مقاصدحاصل کرنے میں ناکام رہااوراوبامہ انتظامیہ نے اپنی ناکامی پرپردہ ڈالنے کیلئے پاکستان پرالزام لگاکرجنگ بندی کااشارہ دیاتھا۔

اس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان سے مذاکرات کرنے کیلئے سفارتی طریقے سے پاکستان سے مددکی اپیل کی جس کے بعد دوحہ میں طالبان کاسیاسی دفترقائم ہوااورٹرمپ انتظامیہ نے طالبان سے مذاکرات کے بعدانخلاء کیلئے ایک روڈمیپ جاری کیالیکن بائیڈن انتظامیہ نے سفارتی ، فوجی یا اسٹریٹجک نتائج سے قطع نظر امریکی انخلا ء میں تیزی لانے کے فیصلے نے افغانستان کی غنی حکومت کوخوف میں مبتلا کردیا اس کے بعد بائیڈن کے اچانک فیصلے اوررات کی تاریکی میں امریکی فوج کے اچانک انخلاء جس کے بارے میں افغان سرکاری فوج کوبھی پتہ نہ چلا اس اچانک امریکی فوج کے غائب ہونے سے افغان نیشنل آرمی کامورال زمین بوس ہوگیااو رجوطالبان کے مقابلے میں ریت کی دیوارثابت ہوئی جس کی وجہ سے طالبان نے بغیرگولی چلائے بیشترصوبوں کوفتح کرلیااوربغیرکسی مزاحمت کے کابل کامحاصرہ کرلیااس دوران امریکی کٹھ پتلی صدراشرف غنی دارالحکومت کابل سے فرارہوگیاجس کے بعد طالبان شہرمیں داخل ہوئے اورصدارتی محل کاکنٹرول سنبھال لیا۔


درحقیقت دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکہ کسی بھی بڑی جنگ کو جیتنے میں ناکام رہا ہے ، چاہے وہ کوریا کی جنگ ہو، ویت نام کی جنگ ہو یا عراق میں لڑی گئی جنگ ہو،مزید برآں افغانستان کاجغرافیہ ایساہے جس کااپناکوئی سمندرنہیں ہے اورلینڈلاکڈملک ہے جوکہ جارح قوتوں کے قدم طویل عرصے سے جمنے نہیں دیتااس کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک کے زیادہ پیچیدہ معاملات سے سامراجی افواج مفلوج ہوجاتی ہیں۔

20ویں صدی کی نوآبادیاتی طاقتوں خاص طورپربرطانیہ اورسوویت یونین( جوکہ اب شیرازہ بکھرنے کے بعد سوویت روس ہے) نے سب سے مشکل یہ سبق سیکھاکہ واقعی افغانستان سپرطاقتوں کاقبرستان ہے۔افغان طالبان کومعلوم تھاکہ جارح قوتوں امریکہ اوراس کے اتحادیوں کے پاس محدودوقت ہے انہوں ایک متعینہ مدت تک یہاں رہناہے اسی فریم ورک میں رہتے ہوئے اپنے معاملات کوپایہ تکمیل تک پہچانے کی کوشش کریں گے ،لیکن اس برعکس افغان طالبان کے پاس اورکچھ نہیں تھالیکن ان کے پاس وقت بہت تھااورانہوں اپنی مرضی کے مطابق حکمت عملی ترتیب دی۔

امریکہ نے کابل میں کچھ افغانیوں کے دل اوردناغ جیتے کیلئے بے شمار رقم خرچ کی ،لیکن افغان یہ جانتے تھے کہ امریکی جلدیابدیریہاں سے نکل جائیں گے توپھران کاطالبان سے پالاپڑے گا، امریکی سائے میں چلتی کرپٹ افغان حکومتیں افغان عوام کااعتمادحاصل کرنے میں قطعی طورپرناکام رہیں،ان حکومتوں میں خاص طورپرغنی حکومت کاانحصار امریکی فوج اور ان کی مالی امدادپرتھاجواس بات کو یقینی بناتا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے طور پر کھڑے نہیں ہوسکتے تھے۔

یہاں امریکہ اوراس کے اتحادیوں کی بے شمار غلطیاں ہوں گی جس طرح اشرف غنی کی وجہ سے امریکہ کواتناذلیل ہوناپڑا،یہ بہت ہی غورطلب معاملہ ہے،مغربی ذرائع ابلاغ اور حکومتی عہدیداروں نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کو امریکہ کی ذلت آمیز شکست قرار دیا ہے اور افغانستان سے امریکی فوجی انخلا ء کو فرار کا نام دیتے ہوئے اسے مغربی ایشیا ء میں امریکی اتحادیوں کیلئے شدید مایوس کن قرار دیا ہے اوردوسری طرف دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ہے کہ جس طرح ایک سپرپاور امریکہ کونہتے افغان طالبان کے ہاتھوں بدترین اورعبرتناک شکست کاسامناکرناپڑا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :