پاکستان کے بادشاہ سلامت

پیر 10 جنوری 2022

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

 با ادب با ملاحظہ ہو شیار! فخرشاہان ہند، تاجدارتخت دہلی، شان فرماروایان مغلیہ، جلال الدین محمد اکبر تشریف لا رہے ہیں۔یہ الفاظ ہمیں 1960ء میں بننے والی بھارتی فلم مغل اعظم میں سننے کوملے تھے اور بادشاہت کے صحیح معنوں سے بھی اسی فلم کی وجہ سے آشنا ہوئے،ویسے توبادشاہت زمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے جو اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں کل و قتی بادشاہت ہے تو کہیں علامتی بادشاہت لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کی عوام بھی بادشاہ ہے اور بادشاہتوں کو پسندبھی کر تی ہے۔

پاکستان بننے کے فوراً بعد کچھ عرصہ سکون سے گزرا بس ایک نواب زادے کی نوابی بگتنا پڑی جس میں کئی غلط فیصلے بھی کئے گئے جن میں سے ایک فیصلہ پاکستان کو مغربی بلاک میں شامل کر نے کاتھا ،جس کی سزا آج تک پاکستانی قوم بھگت رہی ہے ۔

(جاری ہے)

اشرافیہ کو پتہ تھا کہ یہ قوم مطلق العنانی کو آسانی سے بھلا نہ پائے گی ۔ جس سے مقتدر حلقوں نے ایسے حالات پیدا کرلئے ایک کے بعد ایک ڈکٹیٹر بادشاہ کی صورت میں مسلط ہو تا رہا ۔

وہ یہ کہ وہ بادشاہ مسلح افواج سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی بادشاہت کے سامنے سر تسلیم کر نے کی عادت ان کا حصہ ہے، غلام محمد سپاہی نہیں تھے لیکن صلاحیتو ں میں بھی کسی عظیم فاتح سے کم نہ تھے ، کیا کہ کم ہے کہ معذوری کے عالم میں بھی پورا ملک چلاتے رہے اور عوام چپ چاپ بادشاہ سلامت کو دیکھتی رہی ، سکندر مرزا نے کچھ عرصہ بادشاہت کے مزے لئے لیکن آخر میں بر تن دھوتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے ،اس کے بعد ایوب خان بادشاہ سلامت بن کر آ گئے ،بعض جماعتوں نے ایسے ایسے القابات دے ڈالے لیکن فیلڈ مارشل کو در باریوں نے جو کہا وہ سچ سمجھتے رہے بات ایک موذی جانور سے تشبیہہ پانے تک جا پہنچی ، انہو ں نے یہ بھی نہ سوچا بیچارے بنگا لی کہتے رہے کہ انہیں اسلام آباد کی سڑکو ں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے لیکن بادشاہوں تک ان کی پسند کی خو شبو ہی جا سکتی تھی ، یحیٰ خان کی بادشاہت میں رانیوں کو جنرل بنانے سے لے کر اعزازی جنرل بنانا کسی جمہوری حکمران کے بس کی بات نہیں تھی ، جو صرف ایک بے مثال بادشاہ ہی کر سکتا ہے ،بادشاہ سلامت سارے فیصلے مدہوشی کے عالم میں کر تے رہے پھر نتیجہ یہ نکلا ان کا دانہ پانی بند کر کے اور آدھا ملک گنوانے کے بعد ایک جمہوری حکمران آ گئے ، جناب ذوالفقار علی بھٹو صاحب بھی آمرانہ رویوں میں اتنے با کمال تھے ، سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن بیٹھے اور عوام اس بادشاہ کو سنگھا سن پر بٹھا کر اسے پو جتی رہی کہ اپنے مخالفین کی ٹا نگیں توڑنے کے اعلانا ت سے لے کر پو لینڈ تجاویز کی دستا ویز پھا ڑنے تک اور کوئی شر مندگی محسوس کئے بغیر مزید حکمرانی اپنا حق سمجھنا شروع کر دیا ، اسے یہ معلو م نہ ہو سکا کہ یہ قوم بادشاہ تو پسند کر تی ہے لیکن جلدہی اس بادشاہ سے مایوس ہو کر نیا بادشاہ تلاش کر نا شروع کر دیتی ہے لیکن جناب نے خود اپنا جانشین منتخب کر کے قوم کو دے دیا اور حضرت مولانا ہنری کسنجر فتویٰ لیکر آگئے کہ اب بادشاہ کی بجائے امیر المو منین کی ضرورت ہے ، اور کچھ جماعتوں نے امیر المو منین کو ضیا ء الحق سے منسوب کیا اور مرد مومن مر دحق ، ضیا ء الحق ضیاء الحق کے خوب نعرے لگائے اور امیر المو منین نے اپنے اس القاب کو خوب نبھا یا اور ہر طرف اسلام کا بول بالا ہو گیا، لیکن جب بادشاہ سلامت کچھ زیادہ پرانے ہو گئے تو عوام کو فکر لاحق ہوئی اور عوام یہ سمجھنے لگی کہ بادشاہ سلامت اب باسی ہو گئے ہیں تو اس باسی پن کو ختم کرنے کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ تشریف لائیں اور اسی رجحان کا شکا ر ہو گئیں ، کیو نکہ عوام کو بادشاہی کم نظر آ رہی تھی اس کے بعد جناب نواز شریف کو بادشاہ سلامت کے لئے چن کر لا یا گیا چلو یہ مرد ہے اور مسلما نوں کے بادشاہ مر د ہی ہوتے ہیں اور ملکہ تو صرف انگریزو ں کی ہو تی ہے ، لیکن جلد ہی میاں صاحب کا راستہ تمام ہو گیا کیوں کہ بادشاہ سلامت تلواروں اور نیزوں کے بغیر جچ نہیں رہے تھے تو پھر ملکہ پر اکتفا کر نے کا سوچا گیا اگر ملکہ عالیہ نے ان کی مطلق العنانی میں کوئی کمی رہ گئی تو ان کے شوہر نا مدار نے پوری کر دی ، اس کے بعد پھر کیا ہوا طو طا فال نکلوانے والے سے میاں صاحب نے اپنا نام نکلوا لیا اور فال والے کو یقین دلا یا کہ جناب ایک دفعہ آپ میرے نام کی فال نکال دیں، میں کسی بھی طرح دوسروں سے کم نہیں ہو ں اور جو وعدہ کیا میاں صاحب نے وہ پورا کر دکھا یا اور مکمل بادشاہ بن کر بیٹھ گئے اور سب کو خوش کر دیا اور اس طرح حکمرانی کی کہ اس حکمرانی پر عوام امان کے لئے پکار نے لگے ، جس طرح بھٹو نے سالار کو چنا تھا اسی طرح جناب میاں صاحب کے چنے ہوئے سالار کو حکومت سونپ دی گئی ،عوام نے نئے بادشاہ کی آمد پر خوشی کے شادیا نے بجائے، دیگیں اور مٹھا یا ں بانٹیں ، لیکن بے وقوفوں نے یہ نہ سمجھا کہ منتخب بادشاہ حلیفوں اور حریفوں کی رائے کا کچھ نہ کچھ احترام ضرور کر تے ہیں۔

جب کچھ بڑا کر نا ہو تو مفتی اعظم امریکہ اور ان کی خلافت ایسے بادشاہ کو ترجیح دیتی ہے جسے پو چھنے کی زحمت گوارہ نہ کرنا پڑے، جناب مشرف نے اپنے امارت کا خطاب ٹھکرا دیا اور ملک کو ایسے چلا یا کہ ملک میں ہر طرف خون کی ندیا ں بہا دی گئیں اور پاکستان کو بند گلی میں دھکیل دیا جہاں ہر طرف خود کش بم دھماکے ہو نے لگے اور ہر طرف افر اتفری مچ گئی ، جناب کی رخصت بھی بڑی خفت آمیز رہی ، اس امید کے ساتھ کہ میں دوبارہ بادشاہ سلامت منتخب کر لیا جاؤں گا ، شاید حکومت کرنے کا موقع باقی ہے (جو ابھی تک ان کے دوبارہ بادشاہ سلامت بننے کی خواہش دوبارہ پوری نہیں ہوسکی)۔

ان کے ہوتے ہوئے عالمی فتا ویٰ آگیا کہ اب منتخب بادشاہ کی باری ہے، منتخب بادشاہ زرداری اوربادشاہ کے وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی نے کمال کر دکھا یا اور ہر چیز بیچ ڈالی اور پورا ملک مال غنیمت ہے کا اعلان کر ڈالا اورجو مال غنیمت سے محروم رہے اس کی اپنی غلطی ہے۔ اور پھر دوبارہ جماعتوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور سالار اعلیٰ سے گڑ گڑا نے لگے کہ یہ منتخب بادشاہ ہمیں راس نہیں آتے ، آپ ہی اپنی وراثت سنبھا لئے ،لیکن سپہ سالار ٹس سے مس نہ ہوئے جبکہ وہ خوش تھے کہ ہمیں بغیر بد نام ہوئے سب کچھ مل رہا پھر کیوں کو ئلوں کی دلالی کریں اور وراثت کے قانون کو باغی قرار د ے دیا ، منتخب بادشاہ نے ایک کام اچھا کیا اور بات انتخابات تک لے گئے اور نئے بادشاہ کو منتخب کرا دیا اور کسی بوٹ والے بادشاہ کو دعوت نہ دی اور جناب نواز شریف صاحب پھر بادشاہ سلامت بن کر آگئے کچھ عرصہ لگا کہ سب کچھ ٹھیک ہے ،کچھ دیر حکومت صحیح کی اور کہیں بھی کوئی شور شرا با نہ ہوا اور نہ ہی کوئی آہ وبکا ،پھر بڑے بادشاہ سلامت نے اپنے کمالات دیکھا ناشروع کر دئے ،ادھر جناب عمران خان بھی کچھ زیادہ ہی محبوب ہو گئے تھے ، اور انہوں نے بڑے بادشاہ کو مایوسی کا موقع نہ دیا ، شور شرابا اور خوب دھما چوکڑی مچائی ، پر بُرا ہو ان شاہی قو توں کا کہ جنہوں نے بڑی خوشی سے خان صاحب کو محروم کر دیا اور بادشاہ بننے کا موقع ضائع ہو گیا اور میاں نواز شریف بادشاہ کے روپ میں موجودرہے اور یہ سارا کریڈٹ جناب راحیل شریف کو جاتا ہے جنہوں نے اچھے طریقے سے حکومت کو تبدیل کئے بغیر حالات سدھارنے کی طر ف عملی قدم اٹھا یا اور ملک سے بد امنی اور دہشت گر دی کی لعنت سے قوم کو کافی حد تک چھٹکارا دلا دیا اور اس وقت چند مخصوص لوگو ں کے من میں چنگا ری موجود رہی کہ جنرل راحیل شریف عنان اقتدار سنبھال لیں اور میاں نواز شریف کو چلتا کریں لیکن سپہ سالار اعلیٰ جنرل راحیل شریف نے بادشاہ سلامت بننے سے گریز کیا۔

پھرعدلیہ نے ہمارے ظل سبحانی کونااہل قراردے دیاجس سیبادشاہ سلامت نوازشریف سے باشاہت کاتاج چھن کرشاہدخاقان عباسی کے سرپرجاسجا،سابق بادشاہ سلامت نوازشریف نے گلی محلوں ،بازاروں میں زورشورسے بین ڈالے کہ مجھے کیوں نکالا،اس دوران جمہوری بادشاہت کے پانچ سال پورے ہونے پرانتخابات ہوئے اوربڑے بادشاہ کونئے پاکستان کی ضرورت تھی اس لئے ہمارے ملک کے نامورسابق کھلاڑی عمران خان میں نئے پاکستان کے بادشاہ سلامت کی تمام خوبیاں نظرآگئیں توبادشاہت کاتاج انہیں کے سرسجا دیاگیاجنہوں نے آتے ہی اپنی سلطنت کوریاست مدینہ قراردے دیااور100دن میں پاکستان کی کایاپلٹنے کی نویددی۔

نئے باشاہ سلامت نے ایسے وزیروں مشیروں کاانتخاب کیاجنہوں نے آتے ہی سب سے پہلے ڈالرکوبے لگام کیاجس سے روپے کی بے قدری ہوئی ،مہنگائی کاایسا طوفان اٹھاکہ عوام سے دووقت کی روکھی روٹی بھی چھن گئی۔بادشاہ سلامت کے وزیروں مشیروں کی کرپشن کے قصے عام ہونے لگے،اسی بادشاہ سلامت کے دورمیں گندم ،آٹا،چینی ،ادویات،راولپنڈی رنگ روڈ،ہیلی کاپٹرسیکنڈل،پشاورکے بی آرٹی منصوبے میں کرپشن سیکنڈل سامنے آئے ،مہنگائی کانہ ختم ہونے والاطوفان اسی بادشاہ سلامت کی بادشاہت کی مرہون منت ہے۔

اس وقت پورے ملک خاص طورپر جنوبی پنجاب میں کھادکابحران شدت اختیارکرچکاہے ،اس کھادبحران میں بھی بادشاہ سلامت کے کئی وزیروں مشیروں کے نام گردش کررہے ہیں کہ انہوں نے ناجائزمنافع خوری کرنے کیلئے کھاداپنے خفیہ گوداموں چھپاکررکھی ہوئی ہے،تاریخ گواہ ہے بادشاہ سلامت نے جس چیزکانوٹس لیااگلے دن وہ چیزبازارسے ایسی گم ہوتی ہے جیسے گدھے کے سرسے سینگ۔اب پاکستانی رعایابادشاہ سلامت سے صرف ایک ہی مطالبہ کررہی ہے کہ خدارا !اب اپنی حکومت کیخلاف بھی فوراََنوٹس لیں ۔اب ہم میں مزید بادشاہ سلامت کوبرداشت کرنے کی طاقت نہیں رہی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :