پہلے حجاب پھرکتاب

منگل 15 فروری 2022

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔اس کے باوجود ہر دہشت گرد کا کوئی نہ کوئی مذہب ضرور ہوتا ہے۔ عرصہ دراز سے دہشت گردی کا الزام اسلام اور مسلمانوں پر لگاہواہے۔دہشت گردی کا کہیں بھی کوئی واقعہ رونما ہوا ،اس کاالزام مسلمانوں پر لگادیا گیا ۔حالانکہ اس کی کوئی تحقیق بھی نہیں ہوئی ۔یہ معاملہ ساری دنیا میں رہا ۔

مگربھارت ایک ایساملک ہے جہاں پر ہندوتوا کی پیروکارمودی جی کی بھارتیہ جنتاپارٹی کے دورحکومت میں مسلمانوں کی نسل کشی کے کھلے عام اعلانات کئے جارہے ہیں ،مسلمانوں پرزمین تنگ کردی گئی ہے ،کبھی مسلمانوں پر لوجہاد(LOVE JEHAD )کاالزام لگاکران پرعرصہ حیات تنگ کردیاگیاتوکبھی بیٹی رکشاء کے نام ظلم کے پہاڑے توڑے گئے توکبھی لینڈجہاد کاسلوگن اسلام اورمسلمانوں کیخلاف استعمال کیاگیالیکن اس کے باوجود نام نہاد دنیاکی بڑی جمہوریت کے چیمپیئن ملک بھارت کیخلاف مہذب کہلائی جانے والی اوراپنے آپ کوانسانیت کادوست کہلانے والی دنیاکی بڑی طاقتوں کی زبان گنگ ہے ،بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم انسانی حقوق کاراگ الاپنے والی این جی اوزکی آنکھیں بند ہیں اورانہیں ہندوؤں کی دہشت گردی نظرنہیں آتی کیونکہ ظلم کاشکارمسلمان ہیں اورمسلمانوں کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارت میں مسلمانوں پرظلم ہورہاہے،بھارت میں مسلمان بیٹے اوربیٹیاں اپنے وجود کوبرقراررکھنے کے لیے باطل طاقتوں سے مقابلہ کر رہے ہیں، اس سے قبل بھارت میں جامعہ ملیہ اسلامیہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،شاہین باغ کی مثالیں ہیں اور اب کرناٹک کے ضلع اڈوپی میں گزشتہ ہفتے لڑکیوں کے حجاب پہن کر کالج جانے کو لے کر ایک تنازعہ کھڑا کیاگیاہے۔

بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کے بعض کالجز میں گزشتہ تقریبا ایک ماہ سے اسکارف پہننے والی مسلم طالبات کو اسکول اور کالجز کے اندر داخلے کی اجازت نہیں ملی ہے۔ پہلے اسکول کی انتظامیہ اسکارف کی مخالف تھی اور بعد میں سخت گیر ہندو تنظیمیں بھی اس مخالفت کے لیے سڑکوں پرنکل آئیں۔ گذشتہ ہفتے سے ہندو تنظیموں کی جانب سے مسلم طالبات کے اسکارف پہننے کی مخالفت میں زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی اور بعض پر تشدد واقعات کے بعد ریاستی حکومت نے منگل کے روز سے تین دن کے لیے ریاست کے تمام کالجز کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔

ہندوتواکے دہشتگرد ہندو گروپ اب حجاب کی مخالفت میں زعفرانی رنگ(ہندوں کا مذہبی رنگ) کے اسکارف میں جلوس کی شکل میں مسلم طالبات کے حجاب کی مخالفت میں نعرے بازی کرتے ہیں۔ گزشتہ روز ایسے ہی ایک واقعے میں کالج کے احاطے کے اندر ہندو دہشت گردوں نے ایک تنہا مسلم طالبہ مسکان کو گھیر لیا اور زبردست نعرے بازی۔ اسکارف میں ملبوس مسلم طالبہ کو گھیر کر جب ہندوؤں نے جے شری رام کے نعرے لگانے شروع کیے، تو اس نے بھی مشتعل بھیڑ سے بے خوف ہر کر اللہ اکبر کے نعرے بلند کیے۔

یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے، جس پر بہت سے افراد نے اپنے رد عمل میں لڑکی کی جرات کی تعریف کی ہے۔اسی طرح کے ایک جلوس میں پر تشدد واقعات کے بعد حکام نے باگل کوٹ علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دیا ہے۔ حجاب کی مخالفت کی ابتدا ضلع اڈوپی کے ایک کالج سے ہوئی تھی، جہاں گزشتہ روز دو گروپوں کے درمیان پتھرا ؤبھی ہوا اور مشتعل ہندؤوں نے ایک اسکول پر اپنا مذہبی پرچم بھی نصب کر دیا۔

ریاست کی بے جے پی حکومت زعفرانی دہشت گردوں کومکمل سپورٹ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
بھارت میں سکولوں اورکالجوں میں مسلمان طالبات پر حجاب کی پابندی پر پورے بھارت میں تنقید کی جارہی ہے اور اس پابندی کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہورہاہے۔خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ریاست کرناٹکا میں پیش آنے والے واقعات نے اقلیتی برادری میں خوف پیدا کردیا ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کے تحت ظلم میں اضافہ ہوا ہے۔

کرنا نک حجاب کیس کے اثرات مہاراشٹر میں بھی سامنے آئے ہیں۔ مہاراشٹر میں بیڑ ، لاتور، نانڈیر، سولا پور اور دیگر مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہوئے اور احتجاج کیا گیا وہیں خواتین محاذ کی لیڈران نے اکٹھے ہو کر اس کے خلاف نعرے بازی کی کمیٹی کے ممبرا اور مدن پورہ علاقوں میں خواتین نے حجاب کی حمایت میں احتجاج بھی کیا۔ اور حجاب احتجاج اور ضلع نیلنگا میں خواتین نے کرنا ٹک میں اس واقعے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ حجاب پہنناہمارا آئینی حق ہے۔

خواتین نے مطالبہ کیا کہ انہیں برقع پہن کر اسکول کالج آنے کی اجازت دی جائے۔ بیڑکے بشیرگنج چوک پر حجاب کی حمایت میں بینر لگائے گئے جن پر لکھاتھاکہ" پہلے حجاب، پھر کتاب"تاہم پولیس نے آدھی رات کے قریب بینرز کو ہٹا دیا تھا۔ سولا پور ضلع کلکٹر کے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس تحریک میں بڑی تعداد میں مسلم خواتین بھی شامل ہوئیں،کرنا ٹک حکومت کے خلاف زبردست احتجاج کیا گیا۔

متاثرہ طالبات کے مطابق کالج انتظامیہ کی جانب سے حجاب کو لے کر پہلے کسی قسم کی پابندی نہیں تھی لیکن اچانک لڑکیوں کواپنے سرسے حجاب ہٹانے کے لئے زبردستی کی گئی، طالبات کے مطابق کالج کے کئی ہندو لڑکے مسلم لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے کہتے ہیں برقع نکالو ہمیں تمہارا فیگر دیکھنا ہے ، اس معاملہ کو لے کر لڑکیوں نے کئی بار لیکچررزسے شکایت کی لیکن لڑکوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

مسلم خواتین کے احتجاج کے دوران ہی کئی کالجزمیں بھگوادھاری غنڈوں نے گلے میں زعفرانی شال ڈال کر ہنگامے شروع کردئے اور جئے شری رام کے نعرے لگاتے رہے تو دوسری جانب مسلم طالبات اپنے حجاب کے حق پہ ڈٹی ہوئی تھیں۔اس دوران پولیس کی موجودگی میں کالج میں لگے بھارتی ترنگے کو ہٹاکر اس کی جگہ بھگوا جھنڈا لہرایا اور پتھراؤ شروع کردیا۔دیکھتے ہی دیکھتے ہرطرف تشدد کی آگ بھڑکادی گئی۔

پولیس نے بے قصور مسلم نوجوانوں پہ ہی لاٹھی چارج کیا اورانہیں گرفتارکرکے ناجائزمقدمات بناکرقیدی بنادیاگیاجبکہ ہندودہشت گردوں کومکمل سیکیورٹی دی گئی ،دن بھر کرناٹک میں زعفرانی مفلرپہنے بھگوا غنڈوں کی دہشت گردی جاری رہی ، جگہ جگہ مسلم طلبا کے ساتھ مار پیٹ کی گئی ، حجاب پہنی مسلم طالبات کا پیچھا کرکے جئے شری رام کے نعرے لگاتے رہے،ساگر میں بی جے پی ایم ایل اے ہرٹال ہالپہ اور اس کے ساتھ موجود زعفرانی غنڈوں نے پولیس کے سامنے مسلم طلبا کی بے رحمی سے پٹائی کی اور پولیس تماشادیکھتی رہی۔


 ان حالات وواقعات کے رونماہونے سے قبل ذراماضی میں جھانک کردیکھتے ہیں کہ اس کی کڑیاں کہاں سے ملتی ہیں مئی 2019 کو بھارتی اخبارہندوستان ٹائمزنے ایک خبرشائع کی اس نیوزسٹوری کے مطابق انتہاپسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھارت بھر میں برقع اورحجاب اوڑھنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کردیا جبکہ بھارت میں 20کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں، اخبارکے مطابق شیو سینا نے اپنے مراٹھی اخبار سامنا کے اداریہ میں حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا کہ انہیں رام کی سرزمین پر برقع اور حجاب پرپابندی لگا دینی چاہئے۔

شیو سینا نے حال ہی میں سری لنکا میں ایسٹر پر 8 بم دھماکوں کے بعد حجاب اور برقع پر لگائی گئی پابندی کی مثال دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بھارت میں بھی قومی مفاد میں ایسا قدم اٹھایا جائے ۔ جب رام کی لنکا یعنی سری لنکا میں حجاب اور برقع پر پابندی لگائی جاسکتی ہے تو رام کی سرزمین یعنی بھارت میں کیوں نہیں؟ساتھ ہی ایڈیٹوریل میں برقع اور حجاب پر پابندی لگانے والے مغربی و یورپی ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کو تجویز دی گئی کہ بھارت بھر میں جلد سے جلد برقع اور حجاب پر پابندی لگائی جائے ۔

برقع اور حجاب کی وجہ سے ہی بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں دہشتگردی کے واقعات ہوتے ہیں۔ایڈیٹوریل میں مسلمانوں اور انکے لباس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور الزام عائد کیا گیا کہ بیشتر مسلمان اپنے مذہب کو ہی نہیں سمجھتے ۔ایڈیٹوریل میں شیوسینا کے سربراہ اور بال ٹھاکرے کے بیٹے ادھاو ٹھاکرے نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی مسلمانوں کیخلاف کوئی کارروائی کی جاتی ہے تو رونا شروع کردیتے ہیں کہتے ہیں کہ اسلام خطرے میں ہے ۔


اس وقت بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمان پولیس فورس کی زیادتیوں کا شکارہیں،ملیانہ،ہاشم پورہ،بھاگلپور اور مرآداباد اس کی مثالیں ہیں،اتر پردیش میں بدنام زمانہ پی اے ایسی ہوا کرتی تھی جس کو مسلمانوں کے قتل کا سرٹیفکیٹ حاصل تھا۔اس کے بعد ٹاڈا ،پوٹا اور اب یو اے پی اے ہے جس کے تحت مسلم نوجوانوں کی زندگیاں برباد کی جا رہی ہیں۔

یہ سب ریاستی دہشت گردی ہے،مگراس وقت بھارت میں زعفرانی دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔اس لیے کہ اس کے ذریعے کی جانے والی تمام دہشت گردانہ کارروائیوں کو سرکار کی حمایت حاصل ہے۔دہشت گردی کی نئی لہر میں مسلمانوں کے قاتلوں کو باعزت رہا کیا گیا،ہندتووادیوں نے انھیں اپنا ہیرو تسلیم کرتے ہوئے ان کی عزت افزائی کی۔اسلامی شعائر کی بے حرمتی پر حکومتیں خاموش رہیں۔

ہجومی تشدد کے ذریعے مسلم نوجوانوں کو مارا گیا۔گائے کے نام پر تو پہلے بھی مسلمانوں کو زدو کوب کیا جاتا تھا مگر اب کچن جھانک کر دیکھنے کا نیاسلسلہ شروع ہوا۔گائے کے نام پر بنی گئو شالاؤں میں روزانہ درجنوں گائیں مررہی ہیں ان کو دیکھنے والا کوئی نہیں مگر کسی مسلمان کی زبان پر گائے کا نام بھی آجائے تو زبان کاٹ لینے کی دھمکی دی جارہی ہے۔

دہشت گردی کی نئی لہر میں دھرم سنسد منعقد کرکے مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان کیا جارہا ہے ،دارالعلوم دیوبند اور بریلی کو بند کرنے کی منصوبہ بندی ہے،تین طلاق بل لاکر مسلم خواتین کو آزادی دلانے کا ڈھونگ کرنے والے ہی حجاب کا مسئلہ اٹھا کر مسلم بچیوں کو تعلیم سے روک رہے ہیں۔یوپی ایس سی میں جامعہ ملیہ کے طلبہ کی نمایاں کامیابی کو یو پی ایس سی جہاد کانام دے کر مسلمانوں کے لیے اعلی مناصب کے دروازے بند کیے جارہے ہیں ۔

یہ تمام حربے ہیں جوزعفرانی فکر رکھنے والے ہندو راشٹرکے قیام کے لیے اپنارہے ہیں۔یہ مناظر دیکھ کر دل بوجھل ساہوگیاہے، اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ ستر سال کے بعد بھی بھارت کے مسلمان کی کوئی منزل نہیں ہے وہ کہاں کھڑا ہے؟کبھی ہندوتواکی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتاہے اور اب حجاب پر پابندیوں کے دور سے شروع ہونے والے نئے بھارت میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ اب اڈوپی اور کندا پورا میں مسلم بچیوں کے حجاب کو غیرقانونی قرار دیکر انہیں حجاب اتارنے پر مجبور کرنا یہ سب اچانک نہیں ہوایہ سب آرایس ایس اورہندوتواکے پجاریوں نے پوری منصوبہ بندی سے کیابلکہ یہ ہندوتوا غنڈہ گردی کی بدترین مثال ہے اوریہ غنڈہ گردی برہمنی ہندوؤں کی بدنما تاریخ بننے جارہی ہے۔

ریاستِ کرناٹک کو آر ایس ایس کے منظم منصوبے کے تحت ہندوتوا کی لیباریٹری بنانے کا کام ہورہاہے، افسوس کے ساتھ کہناپڑرہاہے کہ بھارت کے مسلمانوں کوحقائق کاادراک نہیں ہورہا،ایسے میں اب بہت ضروری ہے کہ مسلمانوں کے ذمہ داران حجاب کے خلاف ہندوتوا تعصب کے معاملے پرمئوثر طورپرآواز بلند کریں، ریاستی سطح پر اس ہندوتوا تشدد کے گھناؤنے چہرے کو انٹرنیشنل میڈیا پرسامنے لانے کی کوشش کریں، اس سے پہلے کہ حجاب کے خلاف زہر ہر تعلیمی ادارے اور انسٹیٹیوٹ کی اندرونی پالیسی کا حصہ بن جائے اور مسلم بچیاں بغیر مزاحمت کے اسے اندرونی طورپر خاموشی سے قبول کرنے لگیں،بھارت میں بسنے والے مسلم لیڈرشپ کو حرکت میں آنا ہوگا، خواہ آج کرناٹک کے یہ ادارے حجاب پر پابندی کو واپس لے لیں پھر بھی ان کی اس حرکت سے پھیلے ہوئے زہر کیخلاف سخت احتجاج کیا جانا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی بھی ادارہ ہندوتوا غرور میں ایسے زہر کو اپنی پالیسی کا حصہ بنانے کی ہمت نہ کرسکے ۔

اب پہلے حجاب، پھر کتاب کے لگائے گئے بینرزکوعملی جامہ پہنانا ہوگاورنہ بھارت میں مودی سرکارکے آرایس ایس کے دہشت گردہندوتواکے پیروکارزعفرانی مفلرپہنے درندوں سے مسلم بچیوں کوبچاناناممکن ہوجائے گا۔بھارت کے مسلمان اپنے حقوق کیلئے اب بھی نہ اٹھے توپھرکب کھڑے ہوں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :