
پہلے حجاب پھرکتاب
منگل 15 فروری 2022

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی
(جاری ہے)
بھارت میں سکولوں اورکالجوں میں مسلمان طالبات پر حجاب کی پابندی پر پورے بھارت میں تنقید کی جارہی ہے اور اس پابندی کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہورہاہے۔خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ریاست کرناٹکا میں پیش آنے والے واقعات نے اقلیتی برادری میں خوف پیدا کردیا ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کے تحت ظلم میں اضافہ ہوا ہے۔کرنا نک حجاب کیس کے اثرات مہاراشٹر میں بھی سامنے آئے ہیں۔ مہاراشٹر میں بیڑ ، لاتور، نانڈیر، سولا پور اور دیگر مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہوئے اور احتجاج کیا گیا وہیں خواتین محاذ کی لیڈران نے اکٹھے ہو کر اس کے خلاف نعرے بازی کی کمیٹی کے ممبرا اور مدن پورہ علاقوں میں خواتین نے حجاب کی حمایت میں احتجاج بھی کیا۔ اور حجاب احتجاج اور ضلع نیلنگا میں خواتین نے کرنا ٹک میں اس واقعے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ حجاب پہنناہمارا آئینی حق ہے۔خواتین نے مطالبہ کیا کہ انہیں برقع پہن کر اسکول کالج آنے کی اجازت دی جائے۔ بیڑکے بشیرگنج چوک پر حجاب کی حمایت میں بینر لگائے گئے جن پر لکھاتھاکہ" پہلے حجاب، پھر کتاب"تاہم پولیس نے آدھی رات کے قریب بینرز کو ہٹا دیا تھا۔ سولا پور ضلع کلکٹر کے دفتر کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس تحریک میں بڑی تعداد میں مسلم خواتین بھی شامل ہوئیں،کرنا ٹک حکومت کے خلاف زبردست احتجاج کیا گیا۔ متاثرہ طالبات کے مطابق کالج انتظامیہ کی جانب سے حجاب کو لے کر پہلے کسی قسم کی پابندی نہیں تھی لیکن اچانک لڑکیوں کواپنے سرسے حجاب ہٹانے کے لئے زبردستی کی گئی، طالبات کے مطابق کالج کے کئی ہندو لڑکے مسلم لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے کہتے ہیں برقع نکالو ہمیں تمہارا فیگر دیکھنا ہے ، اس معاملہ کو لے کر لڑکیوں نے کئی بار لیکچررزسے شکایت کی لیکن لڑکوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔مسلم خواتین کے احتجاج کے دوران ہی کئی کالجزمیں بھگوادھاری غنڈوں نے گلے میں زعفرانی شال ڈال کر ہنگامے شروع کردئے اور جئے شری رام کے نعرے لگاتے رہے تو دوسری جانب مسلم طالبات اپنے حجاب کے حق پہ ڈٹی ہوئی تھیں۔اس دوران پولیس کی موجودگی میں کالج میں لگے بھارتی ترنگے کو ہٹاکر اس کی جگہ بھگوا جھنڈا لہرایا اور پتھراؤ شروع کردیا۔دیکھتے ہی دیکھتے ہرطرف تشدد کی آگ بھڑکادی گئی۔ پولیس نے بے قصور مسلم نوجوانوں پہ ہی لاٹھی چارج کیا اورانہیں گرفتارکرکے ناجائزمقدمات بناکرقیدی بنادیاگیاجبکہ ہندودہشت گردوں کومکمل سیکیورٹی دی گئی ،دن بھر کرناٹک میں زعفرانی مفلرپہنے بھگوا غنڈوں کی دہشت گردی جاری رہی ، جگہ جگہ مسلم طلبا کے ساتھ مار پیٹ کی گئی ، حجاب پہنی مسلم طالبات کا پیچھا کرکے جئے شری رام کے نعرے لگاتے رہے،ساگر میں بی جے پی ایم ایل اے ہرٹال ہالپہ اور اس کے ساتھ موجود زعفرانی غنڈوں نے پولیس کے سامنے مسلم طلبا کی بے رحمی سے پٹائی کی اور پولیس تماشادیکھتی رہی۔
ان حالات وواقعات کے رونماہونے سے قبل ذراماضی میں جھانک کردیکھتے ہیں کہ اس کی کڑیاں کہاں سے ملتی ہیں مئی 2019 کو بھارتی اخبارہندوستان ٹائمزنے ایک خبرشائع کی اس نیوزسٹوری کے مطابق انتہاپسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھارت بھر میں برقع اورحجاب اوڑھنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کردیا جبکہ بھارت میں 20کروڑ سے زائد مسلمان بستے ہیں، اخبارکے مطابق شیو سینا نے اپنے مراٹھی اخبار سامنا کے اداریہ میں حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا کہ انہیں رام کی سرزمین پر برقع اور حجاب پرپابندی لگا دینی چاہئے۔شیو سینا نے حال ہی میں سری لنکا میں ایسٹر پر 8 بم دھماکوں کے بعد حجاب اور برقع پر لگائی گئی پابندی کی مثال دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ بھارت میں بھی قومی مفاد میں ایسا قدم اٹھایا جائے ۔ جب رام کی لنکا یعنی سری لنکا میں حجاب اور برقع پر پابندی لگائی جاسکتی ہے تو رام کی سرزمین یعنی بھارت میں کیوں نہیں؟ساتھ ہی ایڈیٹوریل میں برقع اور حجاب پر پابندی لگانے والے مغربی و یورپی ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کو تجویز دی گئی کہ بھارت بھر میں جلد سے جلد برقع اور حجاب پر پابندی لگائی جائے ۔ برقع اور حجاب کی وجہ سے ہی بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں دہشتگردی کے واقعات ہوتے ہیں۔ایڈیٹوریل میں مسلمانوں اور انکے لباس کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور الزام عائد کیا گیا کہ بیشتر مسلمان اپنے مذہب کو ہی نہیں سمجھتے ۔ایڈیٹوریل میں شیوسینا کے سربراہ اور بال ٹھاکرے کے بیٹے ادھاو ٹھاکرے نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی مسلمانوں کیخلاف کوئی کارروائی کی جاتی ہے تو رونا شروع کردیتے ہیں کہتے ہیں کہ اسلام خطرے میں ہے ۔
اس وقت بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمان پولیس فورس کی زیادتیوں کا شکارہیں،ملیانہ،ہاشم پورہ،بھاگلپور اور مرآداباد اس کی مثالیں ہیں،اتر پردیش میں بدنام زمانہ پی اے ایسی ہوا کرتی تھی جس کو مسلمانوں کے قتل کا سرٹیفکیٹ حاصل تھا۔اس کے بعد ٹاڈا ،پوٹا اور اب یو اے پی اے ہے جس کے تحت مسلم نوجوانوں کی زندگیاں برباد کی جا رہی ہیں۔یہ سب ریاستی دہشت گردی ہے،مگراس وقت بھارت میں زعفرانی دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔اس لیے کہ اس کے ذریعے کی جانے والی تمام دہشت گردانہ کارروائیوں کو سرکار کی حمایت حاصل ہے۔دہشت گردی کی نئی لہر میں مسلمانوں کے قاتلوں کو باعزت رہا کیا گیا،ہندتووادیوں نے انھیں اپنا ہیرو تسلیم کرتے ہوئے ان کی عزت افزائی کی۔اسلامی شعائر کی بے حرمتی پر حکومتیں خاموش رہیں۔ہجومی تشدد کے ذریعے مسلم نوجوانوں کو مارا گیا۔گائے کے نام پر تو پہلے بھی مسلمانوں کو زدو کوب کیا جاتا تھا مگر اب کچن جھانک کر دیکھنے کا نیاسلسلہ شروع ہوا۔گائے کے نام پر بنی گئو شالاؤں میں روزانہ درجنوں گائیں مررہی ہیں ان کو دیکھنے والا کوئی نہیں مگر کسی مسلمان کی زبان پر گائے کا نام بھی آجائے تو زبان کاٹ لینے کی دھمکی دی جارہی ہے۔دہشت گردی کی نئی لہر میں دھرم سنسد منعقد کرکے مسلمانوں کے قتل عام کا اعلان کیا جارہا ہے ،دارالعلوم دیوبند اور بریلی کو بند کرنے کی منصوبہ بندی ہے،تین طلاق بل لاکر مسلم خواتین کو آزادی دلانے کا ڈھونگ کرنے والے ہی حجاب کا مسئلہ اٹھا کر مسلم بچیوں کو تعلیم سے روک رہے ہیں۔یوپی ایس سی میں جامعہ ملیہ کے طلبہ کی نمایاں کامیابی کو یو پی ایس سی جہاد کانام دے کر مسلمانوں کے لیے اعلی مناصب کے دروازے بند کیے جارہے ہیں ۔یہ تمام حربے ہیں جوزعفرانی فکر رکھنے والے ہندو راشٹرکے قیام کے لیے اپنارہے ہیں۔یہ مناظر دیکھ کر دل بوجھل ساہوگیاہے، اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ ستر سال کے بعد بھی بھارت کے مسلمان کی کوئی منزل نہیں ہے وہ کہاں کھڑا ہے؟کبھی ہندوتواکی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتاہے اور اب حجاب پر پابندیوں کے دور سے شروع ہونے والے نئے بھارت میں مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ اب اڈوپی اور کندا پورا میں مسلم بچیوں کے حجاب کو غیرقانونی قرار دیکر انہیں حجاب اتارنے پر مجبور کرنا یہ سب اچانک نہیں ہوایہ سب آرایس ایس اورہندوتواکے پجاریوں نے پوری منصوبہ بندی سے کیابلکہ یہ ہندوتوا غنڈہ گردی کی بدترین مثال ہے اوریہ غنڈہ گردی برہمنی ہندوؤں کی بدنما تاریخ بننے جارہی ہے۔ریاستِ کرناٹک کو آر ایس ایس کے منظم منصوبے کے تحت ہندوتوا کی لیباریٹری بنانے کا کام ہورہاہے، افسوس کے ساتھ کہناپڑرہاہے کہ بھارت کے مسلمانوں کوحقائق کاادراک نہیں ہورہا،ایسے میں اب بہت ضروری ہے کہ مسلمانوں کے ذمہ داران حجاب کے خلاف ہندوتوا تعصب کے معاملے پرمئوثر طورپرآواز بلند کریں، ریاستی سطح پر اس ہندوتوا تشدد کے گھناؤنے چہرے کو انٹرنیشنل میڈیا پرسامنے لانے کی کوشش کریں، اس سے پہلے کہ حجاب کے خلاف زہر ہر تعلیمی ادارے اور انسٹیٹیوٹ کی اندرونی پالیسی کا حصہ بن جائے اور مسلم بچیاں بغیر مزاحمت کے اسے اندرونی طورپر خاموشی سے قبول کرنے لگیں،بھارت میں بسنے والے مسلم لیڈرشپ کو حرکت میں آنا ہوگا، خواہ آج کرناٹک کے یہ ادارے حجاب پر پابندی کو واپس لے لیں پھر بھی ان کی اس حرکت سے پھیلے ہوئے زہر کیخلاف سخت احتجاج کیا جانا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی بھی ادارہ ہندوتوا غرور میں ایسے زہر کو اپنی پالیسی کا حصہ بنانے کی ہمت نہ کرسکے ۔اب پہلے حجاب، پھر کتاب کے لگائے گئے بینرزکوعملی جامہ پہنانا ہوگاورنہ بھارت میں مودی سرکارکے آرایس ایس کے دہشت گردہندوتواکے پیروکارزعفرانی مفلرپہنے درندوں سے مسلم بچیوں کوبچاناناممکن ہوجائے گا۔بھارت کے مسلمان اپنے حقوق کیلئے اب بھی نہ اٹھے توپھرکب کھڑے ہوں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی کے کالمز
-
پہلے حجاب پھرکتاب
منگل 15 فروری 2022
-
ایمانداروزیراعظم
پیر 31 جنوری 2022
-
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے
بدھ 26 جنوری 2022
-
جنوبی پنجاب صوبہ اورپی ٹی آئی کاڈرامہ
پیر 24 جنوری 2022
-
پاکستان کے دشمن کون۔؟
جمعرات 20 جنوری 2022
-
پاکستان کے بادشاہ سلامت
پیر 10 جنوری 2022
-
بھارت میں خانہ جنگی
منگل 4 جنوری 2022
-
مالدیپ میں انڈیاآؤٹ تحریک
بدھ 29 دسمبر 2021
ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.