جنوبی پنجاب صوبہ اورپی ٹی آئی کاڈرامہ

پیر 24 جنوری 2022

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کے وائس چیئرمین اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لیے بلاول بھٹو اور شہبازشریف کو آئینی ترمیم کے لیے خط لکھ دیا ہے، اب دیکھیں ان کی جانب سے کب جواب آتا ہے۔ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اگر جنوبی پنجاب صوبہ بنانے میں کامیاب ہوگئے تو اس کا کریڈٹ بھی دونوں جماعتوں کو دینے کے لیے تیار ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج بہاولپور اور ملتان میں سیکرٹریٹ تعمیر ہوچکے ہیں، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جنوبی پنجاب کا پیسہ صرف جنوبی پنجاب پر ہی خرچ ہوگا، یوسف رضا گیلانی نے کہا ہمیں سیکرٹریٹ نہیں صوبہ چاہیے، وزیراعظم عمران خان کی اجازت سے پیپلزپارٹی کی قیادت کو خط لکھا ہے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کو خط لکھا کہ جنوبی پنجاب کے لیے ہم آگے بڑھنے کو تیار ہیں،کیا آئینی ترمیم کے لیے پیپلزپارٹی ساتھ دیگی؟ شہبازشریف کو بھی خط لکھا کہ ہم آگے بڑھنے کو تیار ہیں، لیکن کیا آئینی ترمیم کے لیے ن لیگ ساتھ دیگی؟ اگر آپ یہ آئینی ترمیم کرتے ہیں توہم یہ سہرا آپ کے سر باندھنے کو تیار ہیں،ہم آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں، صرف گفتگو سے یہ ممکن نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے عاجزانہ طورپر درخواست کی ہے کہ آئیں ، مل کر آگے بڑھتے ہیں، جو بھی جواب دینا چاہتے ہیں، میں ان کے جواب کا منتظر ہوں، جنوبی پنجاب کے دیگر ایم این ایز سے درخواست ہے کہ ن لیگ اور پی پی قیادت سے بات کریں، درخواست ہے اس معاملے پر سیاست نہ کریں۔شاہ محمود قریشی کوجواب دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنااللہ نے جنوبی پنجاب صوبے سے متعلق شاہ محمود قریشی کے خط کو سیاسی شعبدہ بازی قرار دے دیا۔

رانا ثنا ء اللہ نے کہا کہ نیب قانون میں ترمیم ایک گھنٹے میں منظور اور جنوبی پنجاب پر 3 سال بعد صرف خط؟ یہ لوگ کسے بے وقوف بنا رہے ہیں؟ تین سال میں نالائق ٹولہ جنوبی پنجاب پر ڈرامے کرتا رہا۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ عمران نیازی نے شہباز شریف کو کوئی خط نہیں لکھا، تین سال بعد جنوبی پنجاب کے عوام کو منجن بیچنے کی ضرورت نہیں، ترقی کرتے پنجاب کو تباہ کرکے بھی شعبدہ بازیاں جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے پنجاب کو جو ترقی دی ہے، وہ نالائق حکومت کے منہ پر تھپڑ ہے، الیکشن اسٹنٹ اور سیاسی شعبدہ بازی سے صوبے نہیں بنتے۔اس سے قبل 28 جنوری 2019 ء کومسلم لیگ(ن)لیگ نے بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبوں کیلئے آئینی ترمیمی بل جمع کرا یاتھا۔آئینی بل مسلم لیگ(ن) کے احسن اقبال، رانا تنویر، رانا ثنااللہ خان، عبدالرحمن کانجو نے اپنے دستخطوں سے سیکریٹری قومی اسمبلی کے پاس جمع کرایا۔

صوبوں کی تشکیل کے لئے آئینی ترمیم کا عنوان آئینی(ترمیمی)ایکٹ مجریہ 2019 ہے جس میں آئین کے آرٹیکل ایک میں ترمیم سے بہاولپور، جنوبی پنجاب کے صوبوں کی تشکیل کے الفاظ شامل کئے جانے کا لکھا گیا ہے۔آئینی ترمیم میں لکھا گیا ہے کہ بہاولپور صوبہ بہالپور کے موجودہ انتظامی ڈویژن پر مشتمل ہوگا جب کہ جنوبی پنجاب صوبہ موجودہ ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژنز پر مشتمل ہوگا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ ترمیم کے بعد ڈیرہ غازی خان اور ملتان ڈویژنز صوبہ پنجاب کی حد سے نکل جائیں گے۔آئینی ترمیمی بل کے مطابق آئین کے آرٹیکل 51 میں ترمیم سے صوبائی نشستوں میں ردوبدل کیاجائے۔ترمیم کے بعد بہاولپور صوبہ کی15 جنرل ، خواتین کی تین نشستیں ملا کر قومی اسمبلی میں کل اٹھارہ نشستیں ہوجائیں گی جب کہ بلوچستان کی 20، جنوبی پنجاب صوبہ کی 38، خیبرپختونخوا ہ کی 55، صوبہ پنجاب کی 117، صوبہ سندھ کی 75 اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی قومی اسمبلی میں تین نشستیں ہوں گی۔

ترمیم کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 326 ہوگی جس میں 266جنرل نشستیں اور 60 خواتین کی نشستیں ہوں گی۔جنرل الیکشن 2018میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات سے منتخب شدہ ارکان قومی اسمبلی اور پنجاب سے خواتین کی مخصوص نشست پر کامیاب ہونے والی خواتین موجودہ اسمبلی کی مدت مکمل ہونے تک اپنی ذمہ داریاں انجام دیتی رہیں گی لیکن موجودہ اسمبلی کی مدت کی تکمیل کے ساتھ یہ کلاز ختم ہوجائے گا۔

بل کے مطابق آرٹیکل 59 میں ترمیم کرکے مناسب ترامیم کی جائیں۔آئینی ترمیم کے ذریعے نئے صوبوں کی تشکیل سے قطع نظر پنجاب اسمبلی کے منتخب ارکان اپنی مقررہ مدت مکمل کریں گے جس کے بعد یہ کلاز ختم ہوجائے گا۔ترمیم کے نتیجے میں بہاولپور صوبہ کی صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی کل تعداد 39 ہوگی جس میں سے 31جنرل، 7خواتین اور ایک غیر مسلم کی نشست ہوگی۔

بلوچستان اسمبلی کی نشستوں کی کل تعداد 65، خیبرپختونخواہ کی 145، پنجاب کی 252، سندھ کی 168 ہوں گی۔جنوبی پنجاب صوبہ کی صوبائی اسمبلی کی کل نشستیں 80 ہوں گی جن میں سے 64 جنرل، 14 خواتین اور 2 غیرمسلموں کے لئے ہوں گی۔بل میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 154 میں ترمیم کی جائے جس کے ذریعے نیشنل کمیشن برائے نئے صوبہ جات تشکیل دیا جائے تاکہ حدود اور دیگر امور کا تعین ہوسکے۔

اس کے ساتھ ساتھ آئین کے آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کرکے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی ان نئے صوبہ جات میں پرنسپل سیٹس قائم کی جائیں۔آئینی ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ 9 مئی 2012 کو پنجاب اسمبلی اپنی اپنی الگ قراردادوں میں متفقہ طورپر بہاولپور صوبہ اور جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام کی منظوری دی تھی۔صوبہ جنوبی پنجاب کے لئے اب تک صرف اعلانات ہی کئے گئے ہیں۔

جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد 15 مئی 2018 کو تحریک انصاف نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کا کنوینئرمیر بلخ شیر مزاری کو بنایا گیا اور کمیٹی کے ممبران میں شاہ محمود قریشی ، جہانگیر ترین ، طاہر بشیر چیمہ اور مخدوم خسرو بختیار شامل تھے۔ نئے صوبے کے حوالے سے سفارشات مرتب کرنا اس کمیٹی کی ذمہ داری تھی۔ بعد ازاں نئے صوبے کے قیام کو تحریک انصاف کے منشور کا حصہ بھی بنایا گیا اور عمران خان کے اعلان کے مطابق حکومت میں آنے کے 100 دن میں جنوبی پنجاب صوبہ بنایا جاناتھا۔

وزیر اعظم اور کابینہ کی حلف برداری کے بعد 28 اگست کو وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اعلان کیا تھاکہ جنوبی پنجاب صوبہ پر ورکنگ کیلئے کابینہ کے دو ممبران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر منصوبہ بندی مخدوم خسرو بختیار پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، تشکیل دی گئی کمیٹی کوتین سال سے زیادہ عرصہ گذرگیاہے لیکن عمران خان کووزیراعظم بنے تین سال سے زیادہ عرصہ ہوگیاہے لیکن جنوبی پنجاب صوبہ ہنوزدلی دوراست کے مصداق کہیں دکھائی نہیں دیا ابھی تک سیاسی مداری عوام کو جمہورے بچے کی طرح ڈگڈگی پر نچانے کی کوششوں میں لگے ہیں۔

مجوزہ جنوبی پنجاب صوبے میں تین انتظامی ڈویژن شامل ہوں گے جن میں ملتان، ڈی جی خان اور بہاولپور شامل ہیں اوریہ تین ڈویژن گیارہ اضلاع ملتان، خانیوال، لودھراں، وہاڑی، ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، لیہ، راجن پور، بہاولپور، رحیم یار خان اور بہاولنگر پر مشتمل ہیں۔ ان اضلاع کی حلقہ بندیوں کے مطابق مجوزہ جنوبی پنجاب صوبہ میں صوبائی اسمبلی کی 95 اور قومی اسمبلی کی 46 سیٹیں آتی ہیں۔

موجودہ پنجاب اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 371 ہے ان میں 297 منتخب ایم پی ایز اور مخصوص نشستوں پر 66خواتین اور 8غیر مسلم ایم پی ایز شامل ہیں۔اگر نئے صوبے کا قیام عمل میں لایا جائے گا تو اس میں منتخب ایم پی ایز کو اپنے علاقوں کی بنیاد پر اپنے اپنے صوبوں کی اسمبلی میں جانا ہو گا۔ اس کے بعد وہاں کی نئی پارٹی پوزیشن کی بنیاد پر مخصوص نشستوں کے ایم پی ایز اسمبلی میں آئیں گے۔

نئے صوبے جنوبی پنجاب اور پنجاب کی پارٹی پوزیشن کچھ اس طرح سے ہو گی۔ 95 ایم پی ایز میں سے 53کا تعلق تحریک انصاف، 29 کا مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی 5، مسلم لیگ ق2، ایک آزاد ایم پی اے ہیں۔ جب کہ پانچ سیٹیں ابھی خالی ہیں جن پر ضمنی انتخاب ہو گا۔ اس طرح اس نئے صوبے میں تحریک انصاف کے حکومتی اتحاد کے پاس 95 میں سے 55 سیٹیں ہیں۔ اس لئے یہاں کا وزیر اعلیٰ اور صوبائی حکومت آسانی سے تحریک انصاف کو مل جائے گی۔

لیکن دوسری طرف جنوبی پنجاب کے علاوہ رہ جانے والے وسطی اورشمالی پنجاب کی نئی حکومت پر تحریک انصاف کو سخت مشکلات کا سامنا ہوگا، یہاں پارٹی پوزیشن جنوبی پنجاب سے مختلف ہے۔ یہاں 202 ایم پی ایز میں سے 97 کا تعلق مسلم لیگ ن جب کہ تحریک انصاف کے 87، مسلم لیگ ق 6، پیپلز پارٹی ایک، راہ حق پارٹی ایک اور دو آزاد ایم پی ایز ہیں۔یہاں تحریک انصاف کے اتحادکے پاس 95 ایم پی ایز ہیں، جن میں تحریک انصاف کے 87، مسلم لیگ ق کے 6، راہ حق پارٹی کے ایک ایم پی اے شامل ہیں۔

مسلم لیگ ن کے97ایم پی ایز ہیں جب کہ آزاد چوہدری نثار کی حمایت بھی انہیں حاصل ہو گی۔ اس طرح 98 ارکان اسمبلی ہونے کی وجہ سے مسلم لیگ( ن) بہتر پوزیشن میں ہو گی اورپنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آجائے گی جس سے پاکستان تحریک انصاف کے ہاتھ سے پنجاب نکل جائے گااورپی ٹی آئی کی مرکزی حکومت کاپنجاب پرکنٹرول جاتا رہے گا،جس سے مسلم لیگ( ن) مضبوط پوزیشن میں آجائے گی اورپاکستان تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کیلئے مشکلات پیداہوں گی،پاکستان تحریک انصاف جنوبی پنجاب صوبہ کی قیمت پرکبھی بھی وسطی اورشمالی پنجاب پراپناکنٹرول ختم نہیں کرناچاہتی ،اگرصوبہ جنوبی پنجاب بن گیاایک تومرکزی پنجاب کی وزارت اعلیٰ مسلم لیگ (ن )کے پاس چلی جائے گی دوسراجنوبی پنجاب میں جہانگیرترین فیکٹربھی موجودہے،جنوبی پنجاب میں بیشتراراکین اسمبلی ایسے جن کاتعلق جنوبی پنجاب صوبہ محاذاورآزاد امیدواران مشتمل ہے۔

اگریہ گروپ الگ ہوگیاتوجنوبی پنجاب بھی پاکستان تحریک انصاف کے ہاتھ نکل جائے،جس سے پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی حکومت بھی شاید برقرار نہ رہ پائے ۔جنوبی پنجاب صوبہ پی ٹی آئی کیلئے سیاسی خودکشی کے مترادف ہے ،اس لئے پاکستان تحریک انصاف صرف سیاسی شعبدہ بازیاں دکھاتے ہوئے جنوبی پنجاب کی عوام کودوبارہ بیوقوف بناکرعلیحدہ صوبہ کالولی پوپ دینے کی کوششوں میں لگی ہوئی اورالزام اپوزیشن پارٹیوں لگاتی رہے گی کہ یہ پارٹیاں جنوبی پنجاب صوبہ بنانے میں مخلص نہیں ہیں اگرہمارے پاس دوتہائی اکثریت ہوتی توہم کب کے جنوبی پنجاب صوبہ بناچکے ہوتے ۔

یہ ہمارے منشورکابھی حصہ ہے ،ہم توصوبہ جنوبی پنجاب بناناچاہتے ہیں ورآئینی ترمیم لاناچاہتے ہیں مگریہ پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) ہی ہیں جوصوبہ جنوبی پنجاب کیلئے مخلص نہیں ہیں ۔پاکستان تحریک انصاف اس قسم کی ڈرامے بازیاں کرکے جنوبی پنجاب کی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکناچاہتی ہے ،حقیقت یہی ہے کہ پی ٹی آئی نے اگرصوبہ جنوبی پنجاب بنایاتوپنجاب میں عددی برتری کھودے گی جس سے پنجاب ان کے ہاتھ سے نکل جائے گااورمرکزی حکومت بھی ختم ہوجائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :