پاکستان کے دشمن کون۔؟

جمعرات 20 جنوری 2022

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

تقسیم ہند کے وقت انگریزوں نے ناانصافی کرتے ہوئے کئی مسلم اکثریتی ریاستیں اور شہر انڈیا کو دے دئیے جن میں جوناگڑھ ،حیدرآباد دکن ،فیروز پورو دیگر شامل ہیں ،مشرق میں بنگال اور مغرب میں مسلم اکثریتی علاقے جن میں شمال مغربی سرحدی صوبہ بلوچستان،سندھ اور پنجاب کو پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا ،مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو آپس میں ملانے کیلئے کوئی خشکی کا راستہ نہ دیا گیا اور سازش کے ذریعے کشمیر کو انڈیا کی جھولی میں ڈال دیا گیا ،پاکستان کے خلاف شروع دن سے لیکر آج تک استعماری قوتیں اس کے خلاف سازشیں کرتی چلی آرہی ہیں جن میں سے کئی میں کامیاب ہو گئیں اور کچھ میں انہیں منہ کی کھانا پڑی ،پاکستان اپنے محل وقوع کے اعتبار سے ہمیشہ مغربی طاقتوں کیلئے دردسر بنا رہا ہے جو کہ ہر وقت پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے تاک میں بیٹھی سازشیں کرتی ہوئی نظر آئیں ،سب سے پہلے 1948ء میں کشمیر کے ایشو پر پاک بھارت جنگ ہوئی جس میں پاک فوج اور مجاہدین نے ملکر موجودہ آزاد کشمیر آزاد کرالیا، انڈیا اس مسئلہ کو اقوام متحدہ میں لے گیا ،جہاں اس نے کشمیر میں استصواب رائے کرانے کا وعدہ کیا کہ کشمیر ی پاکستان اور انڈیا میں سے جس کے حق میں ووٹ دیں گے ان کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے گا ،لیکن انڈیا نے حق رائے دہی کا موقع ہی نہ دیا، اس دوران 1965ء میں پھر کشمیر کے ایشو پر پاک بھارت جنگ ہوئی ،ان ادوارمیں اقتدار کی رسہ کشی بھی جاری رہی بد قسمتی سے قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی نے وفا نہ کی اور پاکستان کو کوئی قابل اور اہل لیڈر شپ نہ مل سکی اور مفاد پرست عناصر نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر پاکستان کو داؤ پر لگائے رکھا ،پھر 1971ء میں پاک بھارت جنگ ہوئی اُدھر مشرقی پاکستان میں انڈیا نے مکتی باہنی کے روپ میں فوجیں داخل کر دیں ،اِدھر اقتدار کے بھوکے اپنے اقتدار کیلئے ریشہ دوانیوں میں مصروف رہے ،اس جنگ میں پاک فوج کو دشمن کے آگے سرنڈر ہونا پڑا جس سے ہزاروں جوان انڈیا کی قید میں چلے گئے ،پھر اقتدار کی خاطر"اُدھر تم، اِدھر ہم "کا نعرہ لگایا گیا اور پاکستان کو دولخت کر دیا گیا، پاکستان کا مشرقی بازو کٹ کر بنگلہ دیش بن گیا اور مغربی حصہ باقی پاکستان کی صورت میں آج بھی ہوسِ اقتدار کے پجاریوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہے ۔

(جاری ہے)


1974ء میں انڈیا نے ایٹمی تجربہ کیا اور باقی بچے مغربی پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور قبضہ کرنے کی دھمکی دی ،جس پر اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے ایک نعرہ لگایا کہ''ہم گھاس کھائیں گے ایٹم بم بنائیں گے '' اور اسکے بعد پاکستان کے پہلے ایٹمی پلانٹ کی بنیاد کہوٹہ میں رکھی گئی (یہ کیونکر ممکن ہو ا ایک علیحدہ داستان ہے)اس کے بعد سامراجی طاقتوں نے 1977ء ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹوا دیا اور جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرکے مارشل لاء لگادیا اور اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے تختہ دار پر چڑھا دیا ،اس دوران 1979ء میں روس افغانستان پر حملہ آور ہو چکا تھا جسے مغربی طاقتیں کھینچ کر لائی تھیں ،پاکستان مغربی اتحادی ہونے کی وجہ سے افغان جنگ میں شامل ہو گیا ،جسے افغان جہاد کا نام دیا گیا اور استعماری طاقتوں نے پاکستان کو خوب استعمال کیا، جس کے بدلے میں افغان جہاد نے پاکستان کوکلاشنکوف ،ہیروئین کلچر اور افغان پناہ گزینوں کا تحفہ دیا جو آج تک پاکستان کے سا تھ چمٹا ہو ا ہے، اس دوران غالبا 1986ء میں بھارت راجھستان میں فوجی مشقوں کی آڑ میں اپنی فوج بارڈر پر لے آیا انہی دنوں انڈیا میں پاک بھارت کر کٹ سیریز جاری تھی ،کرکٹ میچ دیکھنے کیلئے صدر پاکستان جنرل ضیا ء الحق انڈیا پہنچ گئے ،میچ دیکھنے کے بعد واپسی پر ائیر پورٹ میں انڈین وزیراعظم راجیو گاندھی کو کہا کہ میچ تو ایک بہانہ تھا میری بات کان کھول کر سن لو، اگر انڈیا نے پاکستان پر حملے کی غلطی کی تو اسے یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ہوگی کہ پاکستان ایک ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ہے، اگر حملہ ہو ا تو ہم ایٹم بم چلادیں گے، جنرل ضیاء الحق کے پاکستان واپس پہنچنے سے پہلے انڈیا نے ہاٹ لائن پر اپنی فوجیں واپس بیرکوں میں لے جانے کا بتایا،جنرل ضیاء الحق کی وفات اور روس کی شکست کے بعد افغان طالبان نے اقتدار سنبھال لیا اور طالبان ہمارے بچے قرار پائے ،اس دوران اقتدار کی بھول بھلیوں میں سازشیں پروان چڑھتی رہیں کئی حکومتیں آئیں اور برخاست ہوتی رہیں ملک میں افراتفری برپا رہی اور مقتدر حلقے مغربی طاقتوں کے تابع فرمان ہو کر جی حضوری کرتے رہے ،1998ء میں انڈیا نے پوکھران میں پانچ ایٹمی دھماکے کئے اور پھر پاکستان کو ہڑپ کرنے کی گیدڑبھبکیاں شروع کر دیں ،جس پر پاکستانی عوام کافی غصے میں آگئی اور وزیراعظم پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے پرمجبور کر دیا اس دوران مغربی طاقتوں نے بھی ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنے کیلئے اپنا دباؤ برقرار رکھا، اسی اثناء میں بابائے صحافت ایڈیٹر انچیف روزنامہ نوائے وقت جناب مجید نظامی مرحوم نے وزیراعظم سے ملاقات کے دوران زور دے کر کہا کہ میاں صاحب آپ ایٹمی دھماکہ کر دیں ورنہ عوام آپ کا دھماکہ کر دے گی، جس پر 28مئی1998ء کو چا غی کے پہاڑوں میں چھ ایٹمی دھماکے کر کے انڈیا کو بھر پور جواب دیا گیا،جس کے نتیجے میں مغربی طاقتوں نے منتخب حکومت کا تختہ الٹوا دیا ،اقتدار پر جنرل پرویز مشرف نے قبضہ کر لیا اس دوران 9/11 کا بہانہ بنا کر افغانستان کا تورا بورا بنا دیا ،امریکی دھمکی پرجنرل پرویز مشرف فوراََامریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن گیا ،ہوائی اڈے امریکی افواج کے حوالے کر دئیے ،سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر ملک کو پرائی جنگ میں دھکیل دیا ،جسے اپنی جنگ قرار دے دیاگیا،اس دوران اسلام آ ٓباد میں لال مسجد کا واقعہ رونما ہوا ،جس کے بعد ملک میں نہ ختم ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں شروع ہو گئیں ،ہر طرف خودکش بم دھماکے ہونے لگے، ان دھماکوں میں عوام کے چیتھڑے اڑتے رہے اور قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوتی رہیں، کہیں صوفی محمد نے شریعت نافذ کر دی تو دوسری طرف دہشت گرد پاکستانی طالبان کے روپ میں کھمبیوں کی طرح اگنا شروع ہو گئے ،پورا فاٹا،خیبر پی کے ،بلوچستان ،سندھ اور جنوبی پنجاب بھی ان کے زیر اثر آنے لگے، حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ کہیں بھی حکومتی عملداری نہ دکھائی دیتی تھی ،چوہدری برادران مشرف کے ہر غلط فیصلے کی توثیق کرتے رہے ،اقتدار کی رسہ کشی میں عام انتخابات کا اعلان کردیا گیا،الیکشن مہم کے دوران راوالپنڈی لیاقت باغ سٹیڈیم میں محترمہ بے نظیر بھٹو کوگولی مار کر شہیدکردیاگیا ،اس کے بعد عام انتخات میں پیپلزپارٹی کامیابی کے بعد اقتدارمیںآ گئی،مشرف کوگارڈ آف آنردے کر ملک سے باہر بھیج دیا گیا،زرداری صاحب نے پانچ سال پورے کرکے انتخابات کرائے جس میں مسلم "ن" نے اکثریت حاصل کرلی اور نواز شریف پھرسے وزیراعظم بن گئے،ان انتخابات میںPTIتیسری سیاسی قوت بن کر سامنے آگئی اور خیبرپی کے میں برسراقتدار آگئی،PTIنے انتخابات میں دھاندلی کا شورمچاکردھرنے اور شورشرابا برپا کردیا،اسلام آباد وپارلیمنٹ کا گھیراؤ کرلیا (جس میں انہیں اپنے سیاسی کزن علامہ طاہرالقادری کی حمایت حاصل تھی )جس سے چین کے صدرکادورہ پاکستان ملتوی ہوگیا،اسلام آباد دھرنے کے دوران پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا جس سے سینکڑوں معصوم طلباء اور اساتذہ شہید ہوئے،اس سانحہ پر عوام نے جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم نوازشریف سے دہشت گردوں کیخلاف بھر پور کارروائی کا مطالبہ کیا ،جس پر حکومت اور پاک فوج نے ان ملک دشمنوں کا صفایا کرنے کیلئے اپریشن ضرب عضب شروع کیا ،جو اللہ کے فضل و کرم سے کامیابی سے ہمکنار ہوا، جس میں ہماری پاک فوج کے جری جوانوں نے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کر کے قوم کو ان دہشت گردوں سے نجات دلائی اور ملک پاک میں مشرف دور سے شروع ہونے والے خودکش بمباروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا اس دوران پاک چائنہ اقتصادی راہداری کا اعلان ہوا ،جو کہ پاکستان کے دشمنوں پر خاص طور پر انڈیا ،امریکہ ،اسرائیل،ایران اور دوسرے دوست نما دشمنوں پر ایٹم بم بن کر گرا ،جسے انہوں نے ناکام بنانے کیلئے کبھی لندن پلان بنایا تو کبھی کینیڈا و امریکہ میں خفیہ ملاقاتیں کی گئیں،اُدھر کراچی میں نیٹو کنٹینر گم ہوئے ،بلوچستان میں افراتفری اور بے چینی پیداکرنے کیلئے انڈیا نے ایران کے راستے اپنا نیٹ ورک پھیلایا، جس کا ثبوت کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کی صورت میں سامنے آیا ،اور اُدھر کراچی میں ایم کیو ایم کے معاملات بھی کھل کر سامنے آگئے ،جہاں پورے ملک میں پاکستان آرمی ،رینجرز،پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے امن وامان برقرار رکھنے اور دشمنوں کی چالوں کو ناکام بنانے کیلئے اپنا آج قوم کے کل پر قربان کر دیا ۔


 دوسری طرف ہمارے ملک عظیم میں سیاسی یتیم کبھی دھاندلی کو ایشو بناتے ہیں تو کبھی پانامہ لیکس کو بنیاد بنا کر ملک میں انتشار پھیلاتے رہے ،پانامہ لیکس دراصل امریکی خفیہ ایجنسیوں کا کا رنامہ تھا، جس میں خاص طور پر چائنہ ،روس ،پاکستان ،سعودی عرب جیسے ممالک کے حکمرانوں کونشانے پر رکھا گیا ،جسے بنیاد بنا کر لندن پلان کی ناکامی کو کامیابی میں بدلنے اور پاک چائنا اقتصادی راہداری میں رکاوٹ ڈالنے کی کوششیں کی گئیں تاکہ ملک میں انتشار پیدا کر کے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کر دیا جائے اور انڈیا کی دھمکیاں بھی اسی منصوبے کا حصہ رہیں، ہمارے سیاسی لیڈر ہوس اقتدار میں اندھے ہو کر غیروں کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اپنے ہی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجاتے رہے۔

پھر2018میں عام انتخابات ہوئے ،ان انتخابات کے نتیجے میں عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف مسنداقتدارپرفائزہوئی اورعمران خان وزیراعظم پاکستان بن گئے ،جنہوں نے نئے پاکستان کانعرہ لگایاتھالیکن اس نئے پاکستان میں عوام کاایساحشرہواکہ اب وہ دھاڑیں مارمارکرپراناپاکستان واپس لاناچاہتی ہیں ۔اسی نئے پاکستان میں سب سے پہلے ڈالرکوبے لگام کیاگیا جس سے روپے کی بے قدری ہوئی ،مہنگائی کاایسا طوفان اٹھاکہ عوام سے دووقت کی روکھی روٹی بھی چھن گئی۔

نئے پاکستان میں وزیروں مشیروں کی کرپشن کے قصے عام ہوئے ،جنہوں نے سابقہ حکمرانوں پرچورچورکے الزامات لگاکراتنی کرپشن کرلی کہ اس کی ماضی میں مثال بھی نہیں ملے گی،اسی نئے پاکستان میں گندم ،آٹا،چینی ،ادویات،راولپنڈی رنگ روڈ،ہیلی کاپٹرسیکنڈل،پشاوربی آرٹی منصوبے میں کرپشن ،مالم جبہ سیکنڈل سامنے آئے ،مہنگائی کانہ ختم ہونے والاطوفان برپاہے ۔

پورے ملک میں کسان کھادکیلئے مارے مارے پھررہے ہیں۔اب بھی وقت ہے کہ ہمارے حکمرانوں کوچاہئے کہ اپنے ذاتی مفادات اورسیاسی عناد سے بالاتر ہو کر پاکستانی بن کر عوام اور پاکستان کیلئے سو چیں،جتنا یکجہتی کی ضرورت آج ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی ،اگرآج بھی حکمرانوں نے پاکستان کی خودمختاری اوربقاء اورعوام کے مفادات کو مدنظررکھ فیصلے نہ کئے تو آنے والی نسلیں حکمرانوں کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :