مالدیپ میں انڈیاآؤٹ تحریک

بدھ 29 دسمبر 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

مالدیپ سارک تنظیم کارکن اور بحر ہند کے پانیوں میں گھرا ایک چھوٹاسا خوبصورت ملک ہے۔یہ بہت سے جزائر پرمشتمل ہے جس میں سے بیشتر غیر آباد ہیں۔ دو سو کے قریب جزائر پر انسان آباد ہیں لیکن بیشتر آبادی دارالحکومت مالے میں رہتی ہے۔، کل جزائر کی تعداد 1192 ہے جن میں سے 192جزائر آباد ہیں جن کی آبادی تین لاکھ اٹھائیس ہزار پانچ سو چھتیس ہے، مالدیپ کا رقبہ 90 ہزار مربع کلومیٹر یعنی 35 ہزار مربع میل ہے۔

یوں یہ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے براعظم ایشیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔مالدیپ کے لوگ 1153ء میں اسلام سے آشنا ہوئے،1558ء میں مالدیپ کے ان جزائر پرتگیزیوں نے قبضہ کرلیااس کے بعد1654ء میں ولندیزی قابض ہوگئے،ولندیزیوں سے 1887ء میں برطانویوں نے چھین کراپنی نوآبادیاتی بنالیا، 1965ء میں مالدیپ نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور 1968 ء میں اسے جمہوریہ قرار دیا گیا۔

(جاری ہے)

مالدیپ پاکستان سے بہت زیادہ دور نہیں۔مالدیپ سری لنکا کے مغربی کنارے کی سمت واقع ہے۔ ان دنوں اسی ملک مالدیپ میں بھارتی فوج کی موجودگی کے خلاف مظاہرے جاری ہیں، بھارتی فوجیوں کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہزاروں لوگوں نے دارلحکومت مالے کی سڑکوں پر مارچ کیا۔مالدیپ کے سابق صدر عبداللہ یامین انڈیا مخالف مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مالدیپ میں انڈیا کی موجودگی بس اب ختم ہونی چاہیے۔

بھارت کے خلاف مالدیپ کی سول سوسائٹی میں غم و غصہ تب بڑھا جب مالدیپ کی ایک مقامی نیوز ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان صحافی احمد ازان نے بھارتی افواج کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے خلاف اپنے آرٹیکلز میں اسے بھارتی نوآبادیاتی منصوبہ قرار دیا۔ اس کے بعد مالدیپ بھر میں انڈیا آؤٹ یعنی بھارت ہمارے ملک سے باہر جا کی یہ مہم زور پکڑنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک ٹاپ ٹرینڈ بن کر کئی ہفتوں تک سوشل میڈیا میں سرِ فہرست رہی۔

اس کے نتیجے میں بھارت اسقدر خوفزدہ ہوا کہ بھارتی ہائی کمیشن نے اس مہم جوئی کے خلاف سخت ترین الفاظ بھی استعمال کیے۔ یعنی ایک چھوٹے سے ملک کے ایک نوجوان صحافی نے 130 کروڑ آبادی والے ملک کو اپنے قلم کے زور سے گویا ہلا کر رکھ دیا۔ اپوزیشن کی حمایت یافتہ انڈیا آؤٹ تحریک ایک ہزار سے زیادہ جزیروں پر مشتمل اس ملک میں جڑ پکڑچکی ہے۔ مارچ میں شریک ہزاروں لوگوں نے مالدیپ سے بھارتی فوجیوں کو ہٹانے اور بھارت کے ساتھ فوجی معاہدے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔

مظاہرین نے صدر ابراہیم محمد صالح ، وزیر خارجہ عبداللہ شاہد ، پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد نشید اور وزیر دفاع ماریہ دیدی کو غدار قرار دیا۔حالیہ تاریخ میں مالے میں سب سے بڑا احتجاج کیاگیا،احتجاج کے منتظمین نے اعلان کیا کہ انڈیاآؤٹ تحریک کیاحتجاجی سلسلے کوجاری رکھاجائیگااور آئندہ کے پروگراموں میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شرکت کی دعوت دی۔


مالدیپ کے لوگ ہندوستانی افواج کو اپنی سرزمین سے نکالنے کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مالدیپ کی قومی خودمختاری خطرے میں ہے۔ ہندوستان نے ہمیشہ نام نہاد مشترکہ تاریخی اور ثقافتی رشتوں کی بنیاد پر مالدیپ کے ساتھ مضبوط دو طرفہ تعلقات کا دعویٰ کیا ہے۔ ہندوستان مالدیپ کا سب سے قریبی اتحادی اور بھروسہ والاپڑوسی ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہے جبکہ اس کے برعکس مالدیپ کے کی عوام کاخیال یہ ہے کہ بھارت مالدیپ کے جزیروں کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مخصوص اقتصادی اور فوجی مفادات کی پیروی کر رہا ہے۔

بھارت کی مالدیپ میں بڑھتی ہوئی مداخلت کے باعث مالدیپ کے شہریوں میں عدم تحفظ کا شدید احساس پایا جاتا ہے کہ مودی بدعنوان سیاست دانوں اور دیگر ریاستی اداروں کو استعمال کرکے ان کے وطن کو نوآبادیاتی بنانے کی کوشش کر رہا ہے جس کی وجہ سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔ مالدیپ میں بڑھتے ہوئے منفی اثر ورسوخ کے خلاف مالدیپ میں عوامی جذبات احتجاج اور بھارت مخالف ریلیوں کی شکل میں ظاہر ہوئے ہیں۔

مالدیپ کے عوام میں شعور بیدار ہو چکا ہے اور وہ بھارت مخالف مہم انڈیا آؤٹ مہم کے تحت ملک بھر میں ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔ انڈیا آؤٹ مہم پچھلے سال مالدیپ میں شروع ہوئی اور بعد میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے مالدیپ کے کونے کونے میں پھیل گئی۔مالدیپ کے اپوزیشن اتحاد نے اپنی مہم کا آغاز ان ڈیفنس آف انڈیپنڈنس تحریک کے نام سے کیا۔

اس تحریک کا مقصد مالدیپ کی آزادی اور خودمختاری کو محفوظ بنانا ہے اور اپوزیشن نے اب کھلے عام مالدیپ میں تعینات بھارتی فوجیوں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔مالدیپ کے دارالحکومت مالے کی سڑکوں پر ہزاروں افراد نے احتجاجی مارچ کیا۔ اب مظاہرین انڈین ملٹری گو آؤٹ اور مالدیپ کی سیاست میں مزید بھارتی مداخلت نہیں جیسے بھارت مخالف نعرے لگا رہے ہیں۔

مالدیپ کی اپوزیشن کا ماننا ہے کہ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ ہندوستانی حکومت اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے تحت مالدیپ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔مالدیپ کی میڈیا رپورٹس نے نشاندہی کی کہ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ ہندوستانی حکومت اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے تحت مالدیپ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مالدیپ ایک مسلم ملک ہونے کے ناطے بھارت کی ہندوتوا حکومت کے نشانے پر ہے۔

بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور اس کی غنڈہ گردی مالدیپ کی خودمختاری کیلئے نقصان دہ ہے اور بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے ملک کی اسلامی اور ثقافتی اقدار خطرے میں ہیں۔
1988 ء بھارت کا مالدیپ کے سیاسی معاملات میں مداخلت کا آغاز ہوا، جب مامون عبدالقیوم کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش ایک بزنس مین محمد ابراہیم لطفی کی زیرِ قیادت کامیاب ہوئی تو اس وقت مامون عبدالقیوم نے بھارت سے فوجی مدد طلب کی۔

بھارت نے مالے میں آپریشن کیکٹس کے ذریعے بغاوت کو ناکام بنایا او رمامون عبدالقیوم کی حکومت دوبارہ بحال کروانے میں مدد فراہم کی۔ لیکن عجیب اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ مامون عبدالقیوم کی حکومت گرانے کی کوشش کرنے والے محمد لطفی کو مالدیپ میں تختہ پلٹنے کے لئے حمایت اس وقت سری لنکن حکومت کے خلاف برسرِ پیکار تامل ٹائیگرز کی حاصل تھی اور انہی تامل ٹائیگرز کو سری لنکا کے خلاف بھارت کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔

صرف یہی نہیں بلکہ بھارت سری لنکا کے تامل ٹٓائیگرز کو اسلحے سمیت مالی معاونت بھی فراہم کرتا تھا۔ تو بھلا بھارت کا حمایت یافتہ گروپ مالدیپ میں وہ حکومت کو کیوں گرانے میں مدد فراہم کرتا جسے ریسکیو ہی بھارت کر رہا تھا ؟ یہی تضاد دراصل اس نظریے کو مزید تقویت دیتا ہے جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ بھارت دراصل مالدیپ پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتا تھا کیونکہ براہِ راست کسی کارروائی کی حمایت سے بھارت کو شدید بین الاقوامی دبا ؤکا سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔

لہذا آج بھارت کی مالے میں غیر معمولی موجودگی اور سیاسی و عسکری مداخلت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ مالدیپ کے مامون عبدالقیوم کی حکومت تختہ الٹنے کاپلان بھی بھارت نے ہی بنایاتھا۔
مالدیپ میں انڈیاآؤٹ مہم کا مقصد یہ ہے کہ انڈیا کے فوجی اہلکاروں اور ساز و سامان کو مالدیپ سے نکال دیا جائے۔ یہ مہم 2018 میں شروع ہوئی تھی۔ اس وقت مالدیپ کے صدر عبداللہ یامین نے انڈیا سے کہا تھا کہ وہ اپنے دو ہیلی کاپٹر اور ایک ڈورنیئر طیارہ وہاں سے لے جائے۔

یہ ہیلی کاپٹر اور طیارہ انڈیا نے مالدیپ میں امدادی کارروائیوں کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ مالدیپ نے کہا تھا کہ اگر انڈیا نے یہ تحفے میں دیے ہیں تو ان میں پائلٹ مالدیپ کے ہونے چاہئیں نہ کہ انڈیا کے،یہ معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ لوگوں نے سڑکوں پر احتجاج شروع کر دیا تھا۔رواں سال5 دسمبر کو آئی لینڈ ایوی ایشن سروس لمیٹڈ کے سابق ڈائریکٹر محمد امین نے کہا کہ انڈیا سے ڈورنیئر لینا مسئلہ نہیں، ہم ڈورنیئر کے ساتھ انڈین اہلکاروں کی تعیناتی کے خلاف ہیں۔

ہمارے پاس اسے چلانے کے لیے کافی تجربہ موجود ہے۔ ہمارے پاس ان ہیلی کاپٹروں کی رجسٹری تبدیل کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ واپس کرنے کا بھی حق ہونا چاہیے۔اس سے قبل 15 نومبر کو محمد امین نے لکھا تھاکہ ڈورنیئر کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ انڈین فوجیوں کو رکھنا یا بجٹ حاصل کرنا نامعقول ہے۔ ہم پانچ ڈورنیئر چلا رہے ہیں اور ہمارے پاس اسے چلانے کا تجربہ ہے۔

مالدیپ کے لوگ اسے چلا سکتے ہیں اور مالدیپ نیشنل ڈیفنس فورس کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس تحفہ قبول کرنے یا واپس کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔پروگریسیو پارٹی آف مالدیپ(پی پی ایم) اور اس کی اتحادی جماعتوں کا کہنا ہے کہ انڈین فوجیوں کو مالدیپ چھوڑ دینا چاہیے۔ مالدیپ کی ایک سابق وزیر لبنیٰ ظاہر نے چھ دسمبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ مجھے انڈین پکوان، مصنوعات، دوائیں پسند ہیں مگر اپنی زمین پر انڈین فوجی نہیں۔

ستمبر میں حکمران جماعت کے اپوزیشن دھڑے مالدیویئن ڈیموکریٹک پارٹی نے اسی حوالے سے ایک موٹر بائیک جلوس بھی نکالا تھا۔پی پی ایم مسلسل حکومت پر دباؤ بڑھا رہی ہے جبکہ مالدیپ کی پارلیمان کے سپیکر اور سابق صدر محمد نشید نے الزام لگایا ہے کہ انڈیا آؤٹ مہم درحقیقت آئی ایس آئی کے ایک سیل نے بنائی ہے۔مالدیپ میں ابراہیم محمد صالح کی حکومت بھارت کی کٹھ پتلی بن چکی ہے۔

کٹھ پتلی کااندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتاہے جب پاکستان نے اقوامِ متحدہ اور او آئی سی میں اسلاموفوبیا کے خلاف قرارداد پیش کی تو اسے مالدیپ کے مستقل مندوب نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اس قرارداد میں مودی حکومت کی مسلم مخالف سرگرمیوں کا بھی ذکر تھا۔اس صورتحال کا صاف مطلب یہی تھا کہ ابراہیم محمد صالح کی حکومت ایک کٹھ پتلی کی طرح بھارت کے اشاروں پر ناچ رہی تھی۔


بھارتی ہائی کمیشن نے حال ہی میں مالدیپ کے ایک جزیرے ادو میں اپنا قونصل خانہ کھولنے کا اعلان کیا جس کے بارے میں سابق صدر عبداللہ یامین نے کہا کہ یہی وہ جزیرہ ہے جہاں بھارت اپنا نیول بیس قائم کرنا چاہتا ہے،اسی طرح چین کے مقابلے میں بھارت نے بھی اب صرف سیاسی مداخلت ہی نہیں بلکہ فوجی موجودگی کو بھی مالدیپ میں بڑھانا شرع کردیا ہے۔

صورتحال تب واضح ہونا شروع ہوئی جب بھارت نے امداد کے نام پر اپنے دو ہیلی کاپٹر مالدیپ کی حکومت کو بطور تحفہ دیئے اور اسے آپریٹ کرنے کے لئے بھی بھارتی افسران کو بھیجا گیا۔ تاہم اس کے خلاف مالدیپ کے سابق صدر عبداللہ یامین نے سخت احتجاج کیا اور اسے بھارت کی طرف سے مالدیپ میں جاسوسی کرنے کا ایک ذریعہ بتا کر اسے واپس کرنے کا مطالبہ کیا مگر بھارت نے اسے واپس لیا اور نہ ہی اپنے افسران کو واپس بلایا جس کا واضح مطلب تھا کہ بھارت دراصل امداد کے نام پر واقعی مالدیپ میں چینی جہازوں کے آمدورفت پر نظر رکھنے کا کام کر رہا تھا۔

اس کے علاوہ بھارتی حکومت مسلسل مالدیپ سے فوجی معاہدے کرنے کے اعلانات کررہی تھی اور مالدیپ کی حکومت بھی باوجود اپوزیشن اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے ان معاہدوں کو مالدیپ کی مجلس شوری میں پیش کرنے سے انکاری تھی جبکہ بھارتی بحری فوج کی موجودگی میں بھی مسلسل مزید اضافہ ہورہا تھا۔ان تمام حالات وواقعات کومدنظررکھتے ہوئے پاکستان کوبھی چاہئے کہ مالدیپ کے شہریوں کے جمہوری حق کے لئے سفارتی محاذپراخلاقی حمایت کا اعلان کرے تاکہ دنیاکی جمہوری قوتوں اورمسلم ممالک تک مالدیپ کے عوام کی آواز پہنچ سکے ،دوسراپاکستان کے اس اقدام سے مالدیپ کی حکومت پردباؤبڑھے گا اوربھارت کے بڑھتے ہوئے غاصبانہ قدم بھی کافی حد رک جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :