بھارت میں خانہ جنگی

منگل 4 جنوری 2022

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

بھارت میں اقلیتوں پر ظلم کے خلاف امریکی اخبار دی نیو یارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ ہندو انتہا پسند مسیحیوں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچاتے اور ان کو عبادت سے روکتے ہیں۔ موت کے خوف سے مسیحیوں نے خود کو ہندو ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے۔امریکی اخبار کے مطابق مسیحیوں پر بڑھتے ظلم کی وجہ ہندو انتہا پسندانہ سوچ ہے اور جہاں اقلیت خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔

ہندو انتہا پسند نریندر مودی بھارت کو قوم پرست ملک بنانے کے خواہاں ہیں۔پورے بھارت میں ہندوانتہاپسندوں اورآرایس ایس کی وجہ سے اس وقت حالات انتہائی تشویشناک ہیں،پورے بھارت میں افراتفری مچی ہوئی ہے،بے اطمینانی اورغیر یقینی کیفیت کا ماحول پیدا کردیاگیاہے، ہندودہشت گردوں کی انتہا پسندی کا یہ عالم ہے کہ بھارت کی ہرریاست اور تقریبا ہر شہر میں فرقہ واریت کا زہر گھول دیاگیاہے،ماحول اس حدتک خراب ہوگیاہے کہ لوگوں کواب اپنے پڑوسیوں پر اعتبار نہیں رہا۔

(جاری ہے)

بھارت میں شاید ہی اب کوئی ایسا دن گذر تاہوجب فرقہ وارانہ جنونیت کا کہیں کوئی مظاہرہ نہ کیاجارہا ہو،مودی کی آرایس ایس کی سفاکیت اوردہشت گردی کے نتیجے میں ہجومی تشدد کے ذریعے بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاراجانامعمول بن گیا ہے۔17 اور 19 دسمبر کے درمیان بھارت کے بڑے مذہبی رہنماؤں دائیں بازو کے سخت گیر بنیاد پرست عسکریت پسندوں اور ہندوتوا تنظیموں کا ایک بڑے مجموعہ نے ہریدوار میں دھرم سنسدیامذہبی پارلیمنٹ کے نام سے ایک کانفرنس منعقدکی۔

ان تین دنوں میں بھارت میں بسنے والے مسلمان ان دہشت گردوں کے نشانہ پر رہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)سے وابستہ افراد اور صحافیوں نے کھلے عام مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کا مطالبہ کیا ہے اور ہندؤوں سے کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے ہتھیار خریدیں۔ہندوؤں کومسلمانوں کیخلاف ہتھیار اٹھا نے اور ان کی نسل کشی پراکسانے کے مسئلہ پر پولیس نے صرف ایک مرتد شخص جتیندر نارائن تیاگی عرف وسیم رضوی اورچند نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ دائرکیا ہے ۔

اس مقدمے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ وہ جو قتل عام کی دھمکیاں اور قتل عام کے لیے لوگوں سے قسمیں لے اور نعرے لگوا رہے تھے بالکل نامعلوم نہیں تھے لیکن بھارت کی اتراکھنڈ پولیس نے مقدمہ میں صرف ایک نام جتیندر تیاگی عرف وسیم رضوی کانام شامل کیا ہے باقی جوبڑے کردارتھے انہیں نامعلوم قرار دے دیا ہے ۔بی جے پی کے ہندوتواسے تعلق رکھنے والے ارکان بشمول سادھوی اناپورنا ، دھرم داس مہاراج، آنند سوروپ مہاراج، سوامی ساگر سندھوراج، سوامی پربودانند گری، سوامی پریمانند مہاراج، بی جے پی کے رکن اشونی اپادھیائے، اور پارٹی کے مہیلا مورچہ کی رکن ادیتا تیاگی ودیگرجنہوں نے ہندو راج کا مطالبہ کیا اور مسلمانوں کے خلاف پرجوش طریقے سے تشدد کے ذریعے مسلمانوں کے قتل عام کا مطالبہ کیاجن کی ویڈیوزپوری دنیانے سوشل میڈیاپردیکھیں وہ اتراکھنڈپولیس کیلئے نامعلوم ہوگئے۔

اسی پس منظرمیں صرف نام کے مسلمان بھارت کی فلم انڈسٹری کے ناموراداکار نصیرالدین شاہ بھی بولنے پر مجبور ہوگئے جس نے بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلم مخالف مہم جاری رہنے کی صورت میں بھارت میں خانہ جنگی کا انتباہ دے دیا۔انہوں نے حال ہی میں دئیے گئے ایک انٹرویو میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کی کوششیں فوری طوربند نہیں ہوئی تو مسلمان جوابی جنگ لڑیں گے اورملک میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔

نصیرالدین شاہ نے وائر سروس ان انڈیا کے ساتھ دھرم سنسد کے ارکان جنہوں نے دوہفتے قبل ہریدوار میں مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ کیا تھا کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا میں حیران ہوں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ کس کے بارے میں بات کررہے ہیں؟ ہم یہاں پیدا ہوئے، ہم یہیں سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہیں رہیں گے۔ یہ خانہ جنگی کا باعث بن سکتا ہے۔انٹرویو لینے والے شخص کا نصیرالدین شاہ سے مرکزی سوال یہ تھا کہ نریندر مودی کے بھارت میں مسلم ہونا کیسا لگتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں نصیرالدین شاہ نے کہا مسلمانوں کو پسماندہ اور بے کار بنایا جارہا ہے۔

انہیں دوسرے درجے کا شہری بنایا جارہا ہے اور یہ تقریبا ہر شعبے میں ہورہا ہے۔بھارتی اداکار نے کہا مسلمانوں میں ایک فوبیا پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ ہمیں خوفزدہ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ مجھے یہاں خوف محسوس نہیں ہوتا کیونکہ یہ میرا گھر ہے لیکن میں اپنے بچوں کے لیے فکر مند ہوں کہ ان کا کیا ہوگا۔مسلمانوں کی نسل کشی کے مطالبے پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی مکمل خاموشی پر نصیرالدین شاہ نے کہا انہیں کوئی پرواہ نہیں۔

بھارتی حکومت نے مسلمانوں پرڈھائے جانے والے مظالم پرکبھی بھی مذمت نہیں کی اورنہ ان مظالم اوردہشت گردی کی کارروائیوں کوروکنے کیلئے کوئی معمولی ساقدم اٹھایاہے۔بھارتی ریاست اترپردیش میں مسلمانوں کے کھلے مقامات پر نماز جمعہ کی ادائیگی پر پابندی لگادی گئی ہے جس پر مقامی مسلمان سخت مشکل سے دوچار ہیں۔ یوپی میں ہندو انتہاپسند تنظیم بی جے پی کی حکومت ہے اور جن ریاستوں میں وہ برسراقتدار ہے انتخابات قریب آنے پر مسلم کش فسادات کی آگ بھڑکانے کی سازشیں عروج پر ہیں۔

آرایس ایس اوردیگر ہندوانتہاپسند تنظیمیں اعلانیہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی مہم چلا رہی ہیں اورمختلف ریاستوں میں ہزاروں مساجد ایسی ہیں جن پر تالے لگا دیے گئے ہیں۔ لوگ کھلے مقامات یعنی پارکوں وغیرہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی پر مجبور ہیں۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کو کھلی آزادی ہے کہ وہ جہاں چاہیں اپنی عبادات کریں،وہ جہاں چاہتے ہیں بھگوا جھنڈا لگاتے اور مورتی رکھ کر اسے مندر قرار دے دیا جاتا ہے، کوئی انہیں روکنے والا نہیں۔

بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے اجین کے ایک گاؤں میںآ رایس ایس سے تعلق رکھنے والے دودہشت گردوں نے سکریپ کا کاروبار کرنے والے ایک مسلم تاجر کو پکڑ لیا اور پھر اسے زبردستی جے شری رام کے نعرے لگانے کیلئے مجبور کیا،ان دہشت گردوں نے اس مظلوم شخص کا سازوسامان بھی راستے میں پھینک دیا،اور کہاکہ اگر یہاں تجارت کرناہے تو یہ نعرہ تمہیں ہرحال میں لگانا ہوگا،اسی طرح اس واقعہ سے ایک ہفتہ قبل بھی اندور شہر میں چوڑیاں فروخت کرنے والے ایک مسلم نوجوان کو جنونیت پسندوں نے اپنی بزدلی کانشانہ بنایا اورآرایس ایس کے درجنوں دہشت گردوں نے مل کر ایک نوجوان کوبہیمانہ تشددکے علاوہ ان کے پیسے اور موبائیل چھین لئے گئے اور سامان کو تباہ کردیاگیا، بریلی میں بھی ایک ہجوم نے مسلم شخص کو نشانہ بنایا انکے ساتھ ظلم وزیادتی اور مارپیٹ کی،ان سے زبردستی جے شری رام کے نعرے لگوائے گئے۔

کچھ عرصہ قبل اترپردیش کے ضلع کانپور میں بھی ایک رکشہ چلانے والے مسلم نوجوان کے ساتھ بھی واقعہ پیش آیاتھااس واقعہ میں رکشہ ڈرائیورکی چھوٹی سی معصوم بچی اپنے باپ کو بچانے کیلئے فریاد کرتی رہی،لیکن ہندودہشت گردوں نے ایک نہ سنی اور اس مسلم رکشہ ڈرائیور پرشدیدتشددکیاگیاجس کی ویڈیوسوشل میڈیا پر اپ لوڈ بھی کی گئی۔ راجستھان میں بھیک مانگنے والے مسلم شخص کوصرف اس لئے جی بھرکر پیٹاگیا اس کاجرم صرف یہی تھاکہ وہ مسلم تھا،زدوکوب کرنے کے بعد ان سے کہاگیا کہ اگر بھیک مانگناہے تو پاکستان جاؤ۔


بھارت میں پولیس متاثرین کی مدد کرنے یااقلیتوں کوتحفظ دینے کی بجائے حملہ آوروں اور ظالم ہندودہشت گردوں سے تعاون کرتی ہے دہلی فسادات ،جنتر منتر میں اشتعال انگیزتقریریں کرنیوالوں کیخلاف آج تک پولیس نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی لیکن اس کے برعکس بھارت میں اگرکوئی معاملہ مسلمانوں کے خلاف ہوتوپھربھارت کی پولیس فوراََ حرکت میں آجاتی ہے اور فوری کارروائی شروع کردیتی ہے،شاہین باغ، جامعہ ملیہ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سمیت پورے بھارت میں پولیس کتنی تیزی کیساتھ مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں کرتی نظرآئی،دہلی فساد کے موقعے پر بڑی تعداد میں بے گناہ مسلمانوں کو گرفتار کیاگیاجب کہ اصل مجرم آرایس ایس کے غنڈے و دہشت گردآج بھی قانون کی گرفت میں آنے کی بجائے آزادی کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔

بھارت میں اقلیت سے تعلق رکھنے والی عوام کو دووقت کی روٹی کے لئے مجبور کردیاگیا،خواتین کی عزت وآبرو تک محفوظ نہیں رہی،مسلمان ،دلت خواتین اور لڑکیوں کی مسلسل اجتماعی عصمت دری کی جارہی ہے اور ثبوت مٹائے کیلئے ان بیگناہوں کوقتل کیاجارہا ہے۔اپنی بہنوں اور بیٹیوں کیلئے جدوجہد کرنے والوں کو پولیس کی تحویل میں ہی موت کے گھاٹ اتارا جارہاہے، کیامسلمانوں،اقلیتوں اورنچلی ذات کے ہندوؤں اوردلتوں سے نفرت،شدت پسندی،غنڈہ گردی اور ظلم وبربریت دہشت گردی نہیں ہے؟بھارت میں غریب مزدور وعام مسلمانوں کے علاوہ مسلم سیاستدان اورتعلیم یافتہ لوگ بھی ظلم وستم اور جبرتشدد اوردہشت گردی کاشکارہیں ان میں چندنام جن میں اعظم خان،مختار انصاری ،شفیق الرحمن برق ،مولانا سجاد نعمانی ،ڈاکٹرظفرالاسلام اور جسٹس عقیل قریشی ودیگرشامل ہیں یہ لوگ بھارت حکومت کی ناانصافی،پولیس کی تنگ نظری اور نفرت وتعصب کی وجہ سے ظلم وستم کا شکار ہیں اورایساصرف اس لئے ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔

افغان طالبان کے حق میں ایک بیان کو بہانہ بناکر ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق اور مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی پر ایف آئی آر درج کرادی گئی ،اعظم خان اور مختار انصاری وغیرہ سیاسی انتقام کاشکار ہیں، لیکن دہلی فسادات کے دہشت گردانوراگ ٹھاکر اور کپل مشرا جیسے لوگوں پرکوئی ایف آئی آر نہیں ہوسکتی،دہلی کے جنترمنتر پر مسلم مخالف اوراشتعال انگیز نعرے بازی حکومت کے نزدیک کوئی جرم نہیں ہے۔

تقسیم کے وقت سے بھارت میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام سے شروع ہونے والی مذہبی عدم برداشت کی کیفیت سات عشروں سے زائد عرصے کے دوران ہزاروں مسلم کش فسادات، بابری مسجد کے انہدام اور2007 سمجھوتہ ایکسپریس کی آتشزدگی 2007 میں حیدر آباد کی مکہ مسجد بم دھماکا 2006 اور 2008 میں مالیگاؤں میں ہونے والے بم دھماکوں سمیت دل ہلا دینے والے واقعات سے بھری پڑی ہے۔

ان سب واقعات کے واضح ثبوت موجود ہونے کے باوجود بھارتی حکومت کی طرف سے کبھی بھی ان کے خلاف کوئی نتیجہ خیز کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔بھارتی اداکارنصیرالدین شاہ نے جوخدشات ظاہر کئے ہیں وہ خدشات نہیں ہیں بلکہ اس وقت پورابھارت آرایس ایس کی بی جے پی کی مودی حکومت کی وجہ سے خانہ جنگی کاشکار ہے،اقلیتوں خاص طوربھارت میں بسنے والی بڑی اقلیت مسلمان جن کی آبادی 20کروڑ سے زائد ہے اپنے دفاع کیلئے اکٹھی ہوگئی تو دوسری اقلیتیں بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوجائیں گی توخانہ جنگی کی شکاردنیاکی نام نہاد بڑی جمہوریت کاشیرازہ بکھرتے دیرنہیں لگے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :