جدید جنگی بحری جہاز۔انڈیاکوچکر آنے لگے

بدھ 17 جون 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

پاکستان اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ سے خوشگوار رہے ہیں۔ جب ترک سفیر بانی پاکستان قائدِاعظم کے پاس اپنی اسناد پیش کرنے آئے تو قائدِاعظم نے دونوں ممالک کے درمیان روحانی، تہذیبی، جذباتی اور ملی رشتوں کا ذکر کیا اور یہ رشتہ 73 برسوں سے قائم و دائم ہے۔ترکی اور پاکستان کے درمیان دوستی کا باضابطہ معاہدہ 1951ء اور باہمی تعاون کا معاہدہ 1954ء میں طے پایا جس کے الفاظ کچھ یوں تھے ترکی اور پاکستان کے درمیان دوستی کے جذبے کے ساتھ طے پایا ہے کہ سیاسی، ثقافتی اور معاشی دائروں کے اندر اور اس کے ساتھ امن اور تحفظ کی خاطر ہم زیادہ سے زیادہ دوستانہ تعاون حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہیں گے۔

اچھے تعلقات کی بنیاد پر ترکی اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ بہت سے شعبوں میں تعاون کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک مشترکہ فوجی تربیت او ر فوجی معاہدے کرکے مضبوط تعلقات کی نئی بنیاد ڈال رہے ہیں۔ترکی کے صدر پاکستان کی پارلیمنٹ سے سب سے زیادہ بار خطاب کرنے والے غیر ملکی سربراہ بھی بن چکے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات کس قدر مضبوط ہیں یہ تعلقات سیاسی نوعیت سے بالاترمضبوط دوستی کی عکاسی کرتے ہیں۔


انہی برادرانہ تعلقات کی بنیاد پر پاکستان میں ترکی کے تعاون سے پاک بحریہ کے لیے جدید بحری جنگی جہازوں میلجم کلاس کارویٹس کی تیاری کا سنگ بنیاد کراچی نیول میں رکھا گیا۔ترک ایجنسی انادولو کی رپورٹ کے مطابق معاہدے کے تحت 2 ملجیم کلاس کارویٹس ترکی میں تعمیر ہوں گے جبکہ باقی 2پاکستان میں تیار ہوں گے۔ مذکورہ معاہدے کی رو سے ملجیم کلاس کارویٹس کی ٹیکنالوجی بھی پاکستان میں منتقل ہوگی۔

ملجیم بحری جہاز 99 میڑ طویل اور 24 سو ڈسپلیسمنٹ کیپیسٹی کی صلاحیت رکھتا جبکہ 29 ناٹیکل مائل کی رفتار سے چل سکتا ہے۔ملجیم اینٹی سب میرین جنگی فریگیٹس ریڈار سے پوشیدہ رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے جو پاک بحریہ کی دفاعی صلاحیت میں مزید اضافہ کردے گی۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ملجیم کلاس کارویٹس جدید خطوط دفاع ساز و سامان سے لیس ہے جس میں طیارہ شکن ہتھیار، سینسرز، جنگی نظم و نسق کا نظام بھی شامل ہے۔

یہ بحری جہاز پاک بحریہ کے جدید ترین پلیٹ فارم میں شامل ہوگا جو بحر ہند کے خطے میں امن، استحکام اور طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔ ترکی دنیا کے ان 10 ممالک میں سے ایک ہے جو جنگی جہاز کی تیاری میں مقامی وسائل بروئے کار لاتا ہے۔
پاکستان اور ترکی کے ملجیم معاہدے کی سب سے زیادہ تکلیف انڈیا کو ہوئی جس کا اظہار کرتے ہوئے انڈیا کے ریٹائرڈ میجرگورو آریہ نے ترک صدر طیب اردگان کو مخاطب کرتے ہوئے ٹویٹر پر ملجم کلاس پاک ترک بحری جہازوں کی مشترکہ تیاری پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ وہ ترکی کو خبردار کر رہا ہے کہ ان جہازوں کے لیے پاکستان سے رقم پیشگی وصول کی جائے ورنہ بعد میں یہ رقم نہیں ملے گی۔

بھارتی فوج کے ریٹائرڈ افسر کی بات کا جواب دیتے ہوئے ترک سیاستدان مہمت علی شاہین نے کہا کہ پاکستان دور خلافت میں ہی اس سب کی ادائیگی کر چکا ہے۔ اس منہ توڑ جواب کے بعد بھارتی میجر یا کسی اور بھارتی کو جواب دینے کی ہمت نہ ہوئی۔جبکہ پاکستانی صارفین کی جانب سے ترک سیاستدان کے ٹویٹ کو کافی سراہا جارہا ہے۔
صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے انڈین ریٹائرڈ میجر گورو آریا کے ٹویٹ پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ترکی کا پاکستان کے لیے جدید جنگی بحری جہاز بنانا دو برادر مسلمان ممالک کا آپس کا معاملہ ہے۔

یہ بھائی چارہ دونوں ممالک کے ایک دوسرے کے لیے جذبات اور احساسات کا ترجمان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی اور پاکستان ہر دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بھائی چارے پر ریٹائرڈ میجر گورو آریا کے جسم کے حصوں سے جلنے کی بو آ رہی ہے۔ فیاض الحسن چوہان نے کہا بہتر ہو گا کہ را کا سابقہ ڈائریکٹر اپنی اوقات میں رہے۔ وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ پاکستانی عوام مودی سرکار، انڈین را اور ریٹائرڈ میجر گورو آریا کے جلنے کی بو پر پھولے نہیں سما رہی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :