سنت ابراہیمی ۔ کورونا کے ساتھ کانگو سے بھی بچنا ہوگا

منگل 30 جون 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

عید الضحیٰ کے موقعہ پر کانگو وائرس کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ماہرین صحت اور معا لجین کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کے ٹکسTick ( ایک قسم کا کیڑا)مختلف جانوروں مثلاًبھیڑ، بکریوں، بکرے، گائے، بھینسوں اور اونٹ کی جلد پر پائے جاتے ہیں۔ ٹکس جانور کی کھال سے چپک کر اس کا خون چوستا رہتا ہے۔ اور یہ کیڑا ہی اس بیماری کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

یہ کیڑا اگر انسان کو کاٹ لے یا پسو سے متاثرہ جانور ذبح کرتے ہوئے بے احتیاطی کی وجہ سے قصائی کے ہاتھ پر کٹ لگ جائے تو یہ وائرس انسانی خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور یوں کانگو وائرس جانور سے انسانوں اور ایک انسان سے دوسرے جانور میں منتقل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے چھوت کا مرض بھی خیال کیا جاتا ہے اور یہ کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

(جاری ہے)

کانگو میں مبتلا ہونے والا مریض ایک ہفتہ کے اندر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ پاکستان میں سال 2002 ء میں کانگو وائرس کی وجہ سے سات افراد لقمہ اجل بنے تھے جن میں ایک نوجوان لیڈی ڈاکٹر اور4کمسن بچے بھی شامل تھے جبکہ رواں سال مارچ میں جناح ہسپتال کراچی میں زیر علاج کانگو وائرس میں مبتلا خاتون مریضہ کے انتقال کی خبر بھی سامنے آچکی ہے۔

سنت ابراہیمی کا فریضہ ادا کرنے والوں کو اس سال صرف کانگو وائرس کا ہی سامنا نہیں بلکہ اب توکورونا وائرس بھی اس کے ساتھ شامل ہوگیا ہے۔گانگو وائرس پہلے ہی چار خطرناک بیماریوں کا مجموعہ ہے جن میں ڈینگی،ایبولا،لیسا وائرس،ریفٹی ویلی وائرس شامل ہیں۔ ان خطرناک وائرسزکے باوجود مسلمان اپنا دینی فریضہ ادا کرنے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔
پنجاب حکومت شہریوں کو خطرناک کانگو اور کوروناوائرس سے محفوظ رکھنے کے لئے خصوصی اقدامات کررہی ہے،اس سال کانگو وائرس ،خصوصا کورونا وائرس کے پیش نظر پنجاب میں اجتماعی قربانی ایس او پیز کے تحت کی جا سکے گی، شہری حدوں میں کوئی سیل پوائنٹ نہیں لگ سکے گا جس کا فیصلہ پنجاب حکومت کی سب کیبنٹ کمیٹی کے اہم اجلاس میں کیا گیاہے۔

اجلاس میںپنجاب میں مویشی منڈیاں لگانے سے متعلق بڑے فیصلوں کی منظوری دی گئی جبکہ مدرسوں سمیت بعض اداروں کو اجتماعی قربانی کی اجازت ہوگی،جس کی اجازت متعلقہ ڈپٹی کمشنر دے گا۔اجلاس کے فیصلوں کے مطابق اجتماعی قربانی ایس او پیز کے تحت کی جا سکے گی، شہری حدود میں کسی جگہ بھی سیل پوائنٹ نہیں لگائے جائیں گے، ہرڈویژن کا کمشنر شہری حدود سے باہر مویشی منڈی لگانے کی جگہوں کی نشاندہی کرے گا جبکہ منڈیوں میں ماسک ، گلوز اور سماجی فاصلہ ضروری ہوگا، آن لائن اور اجتماعی قربانی کی اجازت ہوگی، شہری حدود کے باہر سے جانور خرید کر شہری حدود میں لائے گا تو اس کو بھی ایس او پیز پر عملدرآمد کرنا ہوگا، کوئی بھی فرد جانور خرید کر شہری حدود میں لانے سے قبل جس گاڑی میں لائیں گے، اس کو ضلعی انتظامیہ ڈس انفیکٹ کرے گی، مویشی منڈیوں میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے سپرے بھی کیا جائے گا، کسی بچے اور بوڑھے شہری کو منڈی میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی، فیملیز کو ایک فرد کے علاوہ منڈی حدود میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی،ماسک اور گلوز کے بغیر کسی کی منڈی میں انٹری نہیں ہو گی، منڈیوں سے کورونا وائرس پھیلاو روکنے کیلئے مزید اقدامات بھی کئے جائیں گے۔

منڈیوں میں داخلی خارجی راستوں پر کورونا چیکنگ کو سخت کیا جائیگا۔پنجاب حکومت نے اپنی سفارشات وفاق کو ارسال کر دی ہیں جس کی منظوری کے بعد پنجاب حکومت اسکا باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کرے گی۔
ادھر کورونا ایڈوائزری گروپ کے رکن ڈاکٹر جمشید کا کہنا ہے مویشی منڈیاں عید سے 15 روز قبل شہر سے کم از کم 2 سے 5 کلومیٹر دور لگائی جائیں گی۔ شہر کے اندر جانور لانے کی قطعی اجازت نہیں ہو گی۔

جانوروں اور انسانوں میں فاصلہ لازمی رکھا جائے گا۔ضلعی انتظامیہ دفعہ 144 کا نفاذ کرائے گی۔ اس موقع پر کورونا کے ساتھ ساتھ ہمیں کانگو وائرس سے بھی بچنا ہے۔ شہریوں اور بیوپاریوں کا ماسک اور گلوز کے بغیر منڈیوں میں داخلہ ممنوع ہو گا۔
کورونا اور کانگو وائرسز کے پیش نظرسنت ابراہیمی کا فریضہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں کچھ ذمہ داریاں بھی نبھانی ہونگی تاکہ اپنی اور دوسروں کی جانوں کو محفوظ بنایا جاسکے۔

عید الفطر کے موقع پر جب لوگوں نے ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا تو ٹھیک دس دن بعد صوبے میں کورونا کے کیسزکی تعداد بڑھنے لگی اس لئے عیدالفطر میں کی جانے والی بے احتیاطی،لاپرواہی اور اس کے نتیجہ میں بے شمار انسانی جانوں کے ضیاع کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی مشترکہ کوششیں کرنا ہونگی کہ عید الضحیٰ کی خوشیاں ماند نہ پڑ سکیں۔اس سلسلے میںلوگوں کو چاہیئے کہ حکومت کے بتائے گئے ایس او پیز پر عملدرآمد کرتے ہوئے قربانی کے جانوروں کی خریداری اور سنت ابراہیمی کا فریضہ ادا کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :