کورونا اور تپ دق میں مماثلت

جمعرات 6 اگست 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

کورونا اور تپ دق کا وائرس چونکہ انسانی پھیپھڑوں پر حملہ کرتا ہے اس لئے دونوں بیماریوں کی کچھ علامات ملتی جلتی ہیں ۔تپ دق اب ایک لاعلاج بیماری نہیں رہی،اس کا علاج موجودہے جسے اختیار کرکے مریض موت کے منہ میں جانے سے بچ سکتا ہے لیکن کورونا کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا،اس کی ویکسین تیار کرنے کے لئے دنیا بھر میں صحت کے ماہرین اور سائنس دان تجربات میں لگے ہوئے ہیں۔

کورونا اور تپ دق ، دونوں بیماریوں کا حملہ چونکہ پھیپھڑوں پر ہوتا ہے اس لئے صحت کے کچھ ماہرین نے تپ دق کی ویکسین سے کوروناکے مریضوں پرتجربات بھی کئے جس کے حوصلہ افزاء نتائج برآمدہوئے لیکن تپ دق کی ویکسین سو فیصد کورونا کے لئے کام کرے گی یہ بات ابھی حتمی نہیں ہوسکی۔

(جاری ہے)


ایک وقت تھا جب کینسر کے بعدایڈز دنیا کی سب سے خطرناک بیماری سمجھی جاتی تھی لیکن جب تپ دق کے مریضوں کی شرح اموات حد سے بڑھ گئی تو عالمی ادارہ صحت نے تپ دق کو سب سے مہلک بیماری قرار دے دیا۔

24مارچ 1882ء میں جرمنی کے شہر برلن میں ''رابرٹ کاکس ''نامی سائنس دان نے اس وقت تپ دق بیماری کے جرثومے ''مائیکرو بیکٹیریم ٹیوبر کلاسس'' کی تشخیص کی جب امریکہ اور یورپ میںہر سات میں ایک شخص اس مہلک مرض کی وجہ سے ہلاک ہورہا تھا۔1921ء میں پیرس میں پہلی مرتبہ تپ دق کا حفاظتی ٹیکہ بی سی جی استعمال کیا گیاجس کے بعد اس بیماری کو قابل علاج قرار دے دیا گیا۔

اس سے قبل تک یہ بیماری لاعلاج رہی۔حفاظتی ادویات کی بدولت 1950ء سے1990ء تک اس مہلک بیماری پر کافی حد تک قابو پالیا گیالیکن جب ایچ آئی وی ایڈز بیماری دنیا میںپھیلنے لگی تو ایک مرتبہ پھر تپ دق نے بھی سر اُٹھا لیا۔
پاکستان میں ہر سال تقریبا پانچ لاکھ افراد تپ دق کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔یہ مرض زیادہ تر پسماندہ علاقوں کے رہنے والوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جہاں غربت،بھوک ، افلاس، آلودہ ماحول اور صحت کی بنیادی سہولتوں کی کمی پائی جاتی ہے۔

تپ دق یا ٹی بی ان انسانوں میں بھی زیادہ پائی گئی ہے جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو۔دنیا کے کسی بھی ملک میں ابھی تک اس مہلک بیماری کامکمل خاتمہ نہیں ہوسکا۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں موت کی وجہ بننے والی دس اہم بیماریوں میںکورونا کے علاوہ تپ دق بھی ہے۔ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2016ء میں دس اعشاریہ سات ملین لوگ ٹی بی میں مبتلا ہوئے جن میں سے ایک اعشاریہ سات ملین لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔

دنیا بھر کے ٹی بی کے مریضوں کی شرح نسبت کے مقابلے میںپاکستان سمیت سات ممالک بھارت ،نائیجیریا،ساؤتھ افریقہ ،چین اورانڈونیشیامیں چونسٹھ فیصد مریض پائے جاتے ہیں جن میں بھارت سرفہرست ہے۔عالمی ادارہ صحت نے موجودہ سال کے آخر تک دنیا بھر میںاس مہلک مرض کے مکمل خاتمہ کا تہیہ کر رکھا ہے۔اس سلسلے میں عالمی سطح پر بھرپور اقدامات کئے گئے ہیں جن میں تپ دق کے مرض سے متعلق ادویات کی فراہمی، عام لوگوں میں آگاہی پروگرام،ترقی پذیر ممالک کو اس مرض کی روک تھام و علاج سے متعلق خصوصی فنڈز کی فراہمی اور رہنمائی وغیرہ شامل ہیں۔


پاکستان میں تپ دق کے علاج،ٹیسٹ اور مفت ادویات کی فراہمی کے باوجود تپ دق کے بہت سے مریض اپنا علاج نہیں کرواتے یا زیر علاج مریض اپنا کورس مکمل نہیں کرپاتے جس کے نتیجہ میں وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس لئے اگر کوئی فرد مسلسل بخار،تین سے چار ہفتے تک کھانسی کا کم نہ ہونا،بھوک میں کمی اور وزن میںکمی کا شکار ہوجائے تو فورا طبی معائنہ کرانا ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ اسے کورونا ہے یا تپ دق۔

تپ دق اب مکمل قابل علاج مرض ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کا علاج جلد شروع ہوجائے ۔علاج میں تاخیر یا نامکمل علاج کی صورت میں ٹی بی کا جرثومہ انسانی پھیپھڑوں کو ناکارہ بنانے کے ساتھ ساتھ جسم کے دیگر حصوں میں پھیل کر موت کا سبب بن جاتا ہے ۔تپ دق میں مبتلا مریض کوعام انسانوں کی نسبت کورونا لاحق ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں اس لئے اب تپ دق کا خاتمہ ازحد ضروری ہوگیا ہے۔پاکستان کو تپ دق سے پاک ملک بنانے کے لئے اس بیماری میں مبتلا افراد کو ذمہ داری کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے علاج پر پوری توجہ دینی چاہئے کیونکہ تپ دق کے بروقت علاج سے نہ صرف وہ اپنی بلکہ دوسروں کی زندگی کو بھی محفوظ بنا رہے ہوتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :