
بزدار کا لاہور کےلئے ترقیاتی پیکج کتنا فائدہ مند ہوگا؟
پیر 14 دسمبر 2020

ڈاکٹر جمشید نظر
(جاری ہے)
یہ ایک عوامی میگا پراجیکٹ ہے جس میں شہریوں کورہائش،صحت ،آمدورفت کی جدید بنیادی سہولتوں کی فراہمی ساتھ روزگار کے مواقع بھی ملیں گے ۔
لاہور میں بڑھتی ہوئی ٹریفک کے پیش نظرفلائی اوورز اورانڈر پاسزکی تعمیر سے آمدورفت میں آسانی ہوگی جبکہ بین الاقوامی معیار کا جدید بس ٹرمینل اور الیکٹرک بسیں شہریوں کو سفر کی جدید اور معیاری سہولتیں فراہم کریں گی اور سب سے بڑھ کر بے گھرخاندانوں کو آسان ماہانہ اقساط پر فلیٹس کی فراہمی یقینا لاہویوں کے لئے کسی بڑی خوشخبری سے کم نہیں۔پنجاب حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ان ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اب سرمایہ کاروں کو آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے کا انحصاراس ملک کی سرمایہ کاری پر منحصر ہوتا ہے ۔برطانیہ کے ماہر اقتصادیات ڈبلیو آرتھر لیوس نے اپنی تصنیف'' اقتصادی ترقی کا نظریہ ''میں لکھا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی قومی آمدنی 4 یا5 فیصد ہے۔ان ممالک میں یہ اخراجات قومی آمدنی کے 21 سے 31 فیصد تک ہوتے ہیں۔ مجموعی سرمایہ کاری میں 02 فیصدمیں ٹوٹ پھوٹ کے اخراجات 7 یا 8 فی صد ہوتے ہیںکیونکہ کسی ملک کی پیداوار کا انحصارا س ملک کی سرمایہ کاری پرہوتا ہے، اس لیے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کی پیداوار میں دن بدن فرق برھتا جا رہا ہے،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی ترقی یافتہ ممالک کے برابر آنے کی امیدیں دن بدن کم ہوتی جا رہی ہیں۔پنجاب حکومت کے میگا پراجیکٹ سے قبل وزیر اعظم عمران خان بھی تعمیرات کے شعبے کے لئے تاریخی پیکج کا اعلان کرچکے ہیں جس کے بارے میں بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ اس پیکج سے نہ صرف سرمایہ کاروں کو فائدہ حاصل ہوگا بلکہ کالا دھن بھی گردش میں آجائے گا جس سے ملکی معیشت میں بہتری پیدا ہوسکتی ہے لیکن کچھ لوگ اس بات سے خوفزدہ بھی تھے کہ و ہ تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری کرکے کہیں ایکسپوز نہ ہوجائیں۔ان خدشات کو دور کرنے اور کالے دھن کو گردش میں لانے کے لئے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے یہ بھی اعلان کیا گیا کہ تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں سے ذرائع آمدن نہیں پوچھے جائیں گے اوراس شعبے میں ٹیکس کو بھی فکسڈ کردیا گیا جس کامثبت نتیجہ نکلا اور ملک میں تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری بڑھنے لگی اورنئے تعمیراتی منصوبے شروع ہوگئے ۔قومی اسمبلی میں سن 2016 میں بھی انکم ٹیکس ترمیمی ایکٹ کے تحت ایک بل پاس کیا گیا تھا جس کے تحت یہ رعایت دی گئی تھی کہ ریئل سٹیٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے محض تین فیصد اضافی ٹیکس ادا کر کے بغیر کسی حکومتی روک ٹوک کے اپنے کالے دھن کو سفید کر سکیں گے۔اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ دی جانے والی یہ عایت کوئی ایمنسٹی سکیم نہیںبلکہ اس کامقصد جائیداد کی خریدوفروخت کے اربوںروپے کے کاروبار کو رسمی معیشت میں شامل کرنا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستانی سرمایہ کار اپنا سرمایہ ملک میں لگانے کی بجائے دیگرترقی یافتہ ممالک میں لگانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں یہ ایسے سرمایہ کار ہیں جن کو ملک کی اقتصادی اور معاشی صورتحال سے کوئی غرض نہیں، انھیں بس اپنا منافع بلکہ بہت زیادہ منافع کمانے کی خواہش ہوتی ہے۔اس بات کی تصدیق متحدہ عرب امارات کے حالیہ سرکاری اعداد و شمار سے بھی ہوتی ہے ان اعدادوشمار کے مطابق پاکستانیوں نے ایک سال میں دبئی اور یو اے ای کی دوسری ریاستوں میں پراپرٹی کے کاروبار میں آٹھ ارب ڈالرز تک کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اسی طرح یورپ اور امریکہ میںبھی پاکستانیو ں نے سرمایہ کاری کی۔پاکستانی سرمایہ کاروں کو اب قومی ذمہ داری نبھاتے ہوئے پاکستان کے تمام شعبوں خصوصا تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لئے آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ملک میں کوروناکی وباء اوربدحالی کے باعث پیدا ہونے والے معاشی اور اقتصادی بحران کا ازالہ کیا جاسکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر جمشید نظر کے کالمز
-
محبت کے نام پر بے حیائی
بدھ 16 فروری 2022
-
ریڈیو کاعالمی دن،ایجاد اور افادیت
منگل 15 فروری 2022
-
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاک فوج کی کارروائیاں
جمعرات 10 فروری 2022
-
کشمیری شہیدوں کے خون کی پکار
ہفتہ 5 فروری 2022
-
آن لائن گیم نے بیٹے کو قاتل بنا دیا
پیر 31 جنوری 2022
-
تعلیم کا عالمی دن اور نئے چیلنج
بدھ 26 جنوری 2022
-
برف کا آدمی
پیر 24 جنوری 2022
-
اومیکرون،کورونا،سردی اور فضائی آلودگی
جمعہ 21 جنوری 2022
ڈاکٹر جمشید نظر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.