ہندودوشیزہ کی مدد کرنے کی سزا

منگل 29 دسمبر 2020

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

ابھی چندروزقبل اتر پردیش انڈیا کے علاقے دھام پور کے ایک گاوں بیر کھیڑا میں رہنے والا مسلمان لڑکا ثاقب اپنے دوست کی سا لگرہ کی تقریب میں شرکت کے لئے پاس کے ایک گاوں نصیر پور گیا۔سالگرہ کی تقریب میں ایک سولہ سالہ دلت (اچھوت ہندو ذات)لڑکی بھی کسی دوسرے گاوں سے آئی ہوئی تھی۔سالگرہ کا کیک کاٹنے کے بعدکھانا وغیرہ کھاتے جب رات کے دس بج گئے تو ثاقب کے میزبان دوست نے اس سے درخواست کی کہ رات کافی ہوچکی ہے اس لئے وہ اس ہندو لڑکی کو اپنی موٹر سائیکل پر اس کے گاوں ڈراپ کرتا جائے۔

انڈیا میں ان دنوںایک نئے کالے قانون ''محبت جہاد'' (Love Jihad ) کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنا کرجیل بھیجا جارہاہے۔ثاقب اور اس کا میزبان دوست اس کالے قانون کے متعلق بخوبی جانتے تھے لیکن اخلاقیات اور انسانی ہمدردی کے پیش نظر ثاقب میزبان دوست کو انکار نہ کرسکا اور ہندو لڑکی کو اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر اسے اس کے گاوں ڈراپ کرنے کے لئے روانہ ہوگیا۔

(جاری ہے)

راستے میں جاتے ہوئے ان کا سامناایک گاوں کے انتہا پسند ہندووں سے ہوگیا۔انھوں نے ثاقبت کو رووک لیا اور پوچھ گچھ شروع کردی۔ثاقب نے ان کو ساری حقیقت بتادی۔جب ان ہندووں کو یہ معلوم ہوا کہ لڑکا مسلمان ہے اور ہندو لڑکی کو ساتھ لے کر جارہا ہے تووہ مشتعل ہوگئے اور ثاقب کو اندھا دھند مارنا پیٹنا شروع کردیا حالانکہ انھیں ثاقب کا شکر گذار ہونا چاہئے تھا کہ وہ ایک مسلمان ہوتے ہوئے اور ''لو جہاد'' جیسے کالے قانون سے باخبر ہوتے ہوئے بھی ہندو لڑکی کی مدد کررہا ہے اور اسے بحفاظت اس کے گھر پہنچانے کے لئے جارہا ہے۔

لیکن ہندووں نے قدامت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثاقب کو خوب مارپیٹ کے بعداسے چور بنا کر پولیس کے حوالے کردیا۔پولیس ثاقب کو تھانے لے گئی ،بعد میں انتہا پسند ہندووں کے دباو پر اس ہندو لڑکی کے والد کی جانب سے ایک اور درخواست تھانے میں جمع کروادی گئی کہ ثاقب اس کی لڑکی کو ورغلا کر لے جارہا تھا اورمذہب تبدیل کرنے کے لئے زبردستی کررہا تھا، اس لئے ثاقب کے خلاف ''لو جہاد'' قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔

پولیس نے ہندو لڑکی کے والد کی رپورٹ پر ''لوجہاد'' کامقدمہ درج کرکے ثاقب کو جیل بھیج دیا۔اس طرح ہندو دوشیزہ کی مددکرنے پرایک مسلمان لڑکا دس سال کے لئے جیل پہنچ گیا۔ ہندو دوشیزہ نے مسلمان لڑکے کے خلاف جھوٹے کیس پر آواز اٹھانے کی بہت کوشش کی مگر انتہا پسند ہندووں نے اس کی آواز کوخاموش کرادیا۔
انڈیا میں مسلمانوں کے اعلیٰ اخلاق اور کردار کو دیکھتے ہوئے اور اسلام کی اصل قدروں کو جانتے ہوئے ہندو خصوصا ہندو لڑکیاں اسلام قبول کررہی ہیں۔

انڈیا کے ایک فلاحی ادارے دھنک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 52فیصد ہندو لڑکیاں مسلمان لڑکوں سے شادی کی خواہش لئے ان کے ادارے کی مدد حاصل کرنے آتی ہیں۔دھنک ادارہ ان ہندو لڑکیوں کے خاندان کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر وہ قائل نہ ہوں تو ہندو لڑکیوں کو قانونی امداد فراہم کی جاتی تھی لیکن اب دھنک ادارہ بھی ان ہندو لڑکیوں کو قانونی امداد فراہم کرنے کے لئے مشکلات کا شکار ہوچکا ہے کیونکہ انڈیا میں ہندو لڑکیوں کو مسلمان لڑکوں سے شادی سے باز رکھنے کے لئے نیا کالا قانون ''لوجہاد'' بنایا گیا ہے۔

''لوجہاد'' کی اصطلاع قدامت پسند ہندو گروہوں کی تشکیل کردہ ہے جس کے مطابق جب بھی کوئی مسلمان مردکسی ہندو لڑکی سے شادی کرنے لگتا ہے تو اس کے خلاف''لو جہاد'' کا مقدمہ درج کروا کر اسے جیل بھجوا دیا جاتا ہے۔''لو جہاد'' کا قانون انڈیا میںسب سے پہلے اتر پردیش میں نومبر کے مہینے میں منظور کیا گیا جس کے تحت کہا گیا ہے کہ جبرأئ یا دھوکہ دہی کے ذریعے مذہب تبدیل کروا نا ناقابل ضمانت جرم ہے اور جس کی سزا دس سال قید رکھی گئی ہے۔

اس کالے قانون کاا طلاق صرف مسلمانوں پر ہی کیا جاتا ہے ،جب کوئی مسلمان لڑکا کسی ہندو لڑکی سے شادی کرنے لگتا ہے تو اسے ''لوجہاد'' قانون کے نام پر جیل میں بھیج دیا جاتا ہے لیکن جب کوئی ہندو لڑکا،مسلمان لڑکی سے شادی کرنے لگتا ہے تو اس کے خلاف اس کالے قانون کا اطلاق کرنے کی بجائے میڈیا پر عشقیہ کہانی کے طور پر پیش کیا جاتاہے۔اس لئے ''لوجہاد''کا قانون صرف اور صرف مسلمانوں کے خلاف بنایا گیا کالا قانون ہے تاکہ کوئی بھی ہندو خصوصا ہندو لڑکی دائرہ اسلام میں داخل نہ ہوسکے۔

اس قانون سے قبل انتہا پسند انڈین حکومت ڈاکٹر ذاکر نائیک اور دیگر اسلامی سکالرز کے خلاف ریاستی طاقت اور مختلف غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرچکی ہے تاکہ انھیں اسلام کی ترویج سے باز رکھا جاسکے لیکن ان ہتھکنڈوں کے برعکس انڈیا میں مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی تواب یہ کالا قانون نافذ کردیا گیا ہے۔ہندو دھرم میں اب بھی نچلی ذات کے ہندووں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے ۔

اسلام میںتمام انسانوں کے ساتھ برابری اور اسلام کے دیگر اہم پہلووں کو جاننے کے بعد ہندووں کی بڑی تعداد اسلام میں داخل ہورہی ہے جس کی وجہ سے انتہا پسند اور قدامت پسند انڈین ہندووں کو تشویش لاحق ہوگئی ہے کہ اگر اسی طرح اسلام پھیلتا رہا تو ایک دن انڈیا مسلم ریاست بن جائے گی ۔تاریخ گواہ ہے کہ مذہب اسلام کو جتنا بھی محدود یا ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ پھیلا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :