ورلڈ فوڈ سیفٹی ڈے اور موت کا کاروبار

پیر 7 جون 2021

Dr Jamshaid Nazar

ڈاکٹر جمشید نظر

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی مشترکہ منصوبہ بندی کے ساتھ دنیا بھر میں 7 جون 2019 کو پہلا فوڈ سیفٹی ڈے منایا گیا جس کے بعد اب ہر سال 7جون کو ورلڈ سیفٹی فوڈ ڈے منایا جاتا ہے۔اس سال اس دن کا موضوع ہے ”صحت مند کل کے لئے محفوظ کھانا“اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں آلودہ اور غیر معیاری خوراک اور پانی کے باعث انسانی صحت پر ہونے والے مضر اثرات اورپیدا ہونے والی خطرناک بیماریوں سے متعلق دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔

اس دن کے موقع پر یہ شعور بھی بیدار کیا جاتا ہے کہ انسانی صحت کے لئے معیاری خوراک اور صاف پانی کس قدر ضروری ہیں اور اس کے حصول کے لئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)کے حالیہ اعدادو شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال دس میں سے ایک شخص آلودہ  کھانا کھانے کے باعث بیمار پڑجاتا ہے جبکہ اسی آلودہ کھانے کی وجہ سے سالانہ چار لاکھ بیس ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اس طرح سالانہ (33)تینتیس ملین افراد صحت مند زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔

(جاری ہے)

عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق آلودہ خوراک میں خطرناک قسم کے بیکٹیریا،وائرس اور کیمیکلز شامل ہوتے ہیں جن سے عام بیماریوں ڈائیریا (اسہال) سے لے کر کینسر تک کے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ان بیماریوں میں اسہال کی بیماری سب سے زیادہ عام ہے جس کی بنیادی وجہ آلودہ کھانے کا استعمال ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ہر سال 550 ملین افراد بیمار اور2 لاکھ 30ہزار افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

کھانے سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا 40فیصد5 سال سے کم عمر کے بچوں پر مشتمل ہے،سالانہ ایک لاکھ پچیس ہزارکم عمر بچے آلودہ کھانے کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں غیر محفوظ خوراک کے نتیجے میں پیداواری اور طبی اخراجات میں ہر سال 110 بلین امریکی ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے کھانے پینے کی ہر چیز میں مضر صحت اشیاء کی ملاوٹ اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔

اس گھناونے کاروبار میں انسانی جان کے بدلے پیسہ کمانے میں کوئی عار،کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی لیکن موت کا کاروبار کرنے والے یہ بھی نہیں سمجھتے کہ اگر وہ ملاوٹ کرکے غیر معیاری اور مضرصحت کھانے پینے کی اشیاء بیچ رہے ہیں تو خود اپنے ہاتھوں اپنی آنے والی نسلوں کو برباد کررہے ہیں کیونکہ کسی نہ کسی طرح وہ خود اور ان کے اہل خانہ بھی موت کے اس کاروبار کا شکار ہورہے ہیں۔

موت کا کاروبار کرنے والے ہر شخص کو یہ جان لینا چاہیئے کہ اگر وہ دوسروں کو مضر صحت چیز بیچ رہا ہے تو بدلے میں اپنے بچوں اور اہل خانہ کے لئے مضر صحت چیز خرید بھی رہا ہے۔مضر صحت دودھ بیچ کر کمائی کرنے والا انہی پیسوں سے کس طرح اپنے بیوی بچوں کے لئے خالص خوراک خریدنے کی توقع کرسکتا ہے جو بیماریاں وہ معاشرے میں بانٹ رہا ہے وہی بیماریاں دوسری جانب سے اپنے گھر والوں کے لئے خرید بھی رہا ہے اس طرح اگر دیکھا جائے تو کھانے پینے کی مضر صحت اشیاء بیچنے والے صرف اپنے گاہکوں کو ہی موت کے منہ میں نہیں دھکیل رہے بلکہ ان کے بیوی بچے بھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔

اس لئے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اہل خانہ،بیوی بچے صحت مند زندگی گذاریں تو ملاوٹ پر مبنی موت کے اس کاروبار،اس کھیل کوسب سے پہلے انھیں خود بند کرنا ہوگا۔جب دودھ والا،پرچون والا،گوشت والا اور اشیائے خوردونوش بیچنے والے تمام افراد اپنے اپنے لیول پر ملاوٹ اور آلودہ خوراک کو بیچنا بند کریں گے تب ہی وہ اپنے بچوں کی زندگیوں کومحفوظ بنا سکیں گے۔


اکثرآئے روز اخبارات،میڈیا میں خبریں آتی رہتی ہیں کہ مضر صحت کھانا کھانے سے بچے ہلاک ہوگئے لیکن منافع خور کتنے سنگدل ہیں جوایسی اموات کو نظر انداز کرکے ملاوٹ کے نت نئے طریقے اختیار کرتے رہتے ہیں۔کبھی دودھ میں یوریا کھاد ملائی جارہی ہے تو کبھی مرچوں میں بھوسے،مکئی اور چوکر کی ملاوٹ کی جارہی ہے،کبھی مردہ جانوروں کے خون سے کیچ اپ تیار کی جارہی ہے تو کبھی مردہ مرغیوں،بکروں اور گائے کا گوشت پیچا جارہا ہے،ڈرنکس میں مضر صحت کیمیکل ڈالے جارہے ہیں،مکھن اور دودھ کے نام اور تصویریں استعمال کرکے کچھ اورہی بیچا جارہا ہے،ناخالص آٹا،گھی،دالیں،چینی بیچی جارہی ہے حتیٰ کہ مضر صحت قدرتی پھل اور سبزیاں فروخت کی جارہی ہیں۔

ابھی کچھ روز قبل ہی پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اپنی ایک کارروائی کے دوران صوبہ بھر کی 527 منڈیوں کی چیکنگ کرتے ہوئے 1345   کلو آم تلف کیا جومضر صحت کیمیکل سے پکائے گئے تھے،اسی طرح مختلف شہروں کے داخلی اور خارجی راستوں پر چیکنگ کرتے ہوئے ہزاروں لٹر مضر صحت دودھ اور ہزاروں من مضر صحت گوشت تلف کیاگیا ہے لیکن افسوس موت کا کاروبارتب بھی زور و شور سے جاری تھا جب کورونا وباء کی وجہ سے موت کے سائے ہر طرف منڈلا رہے تھے۔حکومت کو چاہیئے کہ موت کا کاروبار بند کروانے کے لئے ہرممکن سخت اقدامات کرے تاکہ پاکستان کو ایک روشن اور صحت مند مستقبل فراہم کیا جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :