
ورلڈ فوڈ سیفٹی ڈے اور موت کا کاروبار
پیر 7 جون 2021

ڈاکٹر جمشید نظر
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)کے حالیہ اعدادو شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال دس میں سے ایک شخص آلودہ کھانا کھانے کے باعث بیمار پڑجاتا ہے جبکہ اسی آلودہ کھانے کی وجہ سے سالانہ چار لاکھ بیس ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اس طرح سالانہ (33)تینتیس ملین افراد صحت مند زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔
(جاری ہے)
بدقسمتی سے کھانے پینے کی ہر چیز میں مضر صحت اشیاء کی ملاوٹ اب ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔اس گھناونے کاروبار میں انسانی جان کے بدلے پیسہ کمانے میں کوئی عار،کوئی شرم محسوس نہیں کی جاتی لیکن موت کا کاروبار کرنے والے یہ بھی نہیں سمجھتے کہ اگر وہ ملاوٹ کرکے غیر معیاری اور مضرصحت کھانے پینے کی اشیاء بیچ رہے ہیں تو خود اپنے ہاتھوں اپنی آنے والی نسلوں کو برباد کررہے ہیں کیونکہ کسی نہ کسی طرح وہ خود اور ان کے اہل خانہ بھی موت کے اس کاروبار کا شکار ہورہے ہیں۔موت کا کاروبار کرنے والے ہر شخص کو یہ جان لینا چاہیئے کہ اگر وہ دوسروں کو مضر صحت چیز بیچ رہا ہے تو بدلے میں اپنے بچوں اور اہل خانہ کے لئے مضر صحت چیز خرید بھی رہا ہے۔مضر صحت دودھ بیچ کر کمائی کرنے والا انہی پیسوں سے کس طرح اپنے بیوی بچوں کے لئے خالص خوراک خریدنے کی توقع کرسکتا ہے جو بیماریاں وہ معاشرے میں بانٹ رہا ہے وہی بیماریاں دوسری جانب سے اپنے گھر والوں کے لئے خرید بھی رہا ہے اس طرح اگر دیکھا جائے تو کھانے پینے کی مضر صحت اشیاء بیچنے والے صرف اپنے گاہکوں کو ہی موت کے منہ میں نہیں دھکیل رہے بلکہ ان کے بیوی بچے بھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔اس لئے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اہل خانہ،بیوی بچے صحت مند زندگی گذاریں تو ملاوٹ پر مبنی موت کے اس کاروبار،اس کھیل کوسب سے پہلے انھیں خود بند کرنا ہوگا۔جب دودھ والا،پرچون والا،گوشت والا اور اشیائے خوردونوش بیچنے والے تمام افراد اپنے اپنے لیول پر ملاوٹ اور آلودہ خوراک کو بیچنا بند کریں گے تب ہی وہ اپنے بچوں کی زندگیوں کومحفوظ بنا سکیں گے۔
اکثرآئے روز اخبارات،میڈیا میں خبریں آتی رہتی ہیں کہ مضر صحت کھانا کھانے سے بچے ہلاک ہوگئے لیکن منافع خور کتنے سنگدل ہیں جوایسی اموات کو نظر انداز کرکے ملاوٹ کے نت نئے طریقے اختیار کرتے رہتے ہیں۔کبھی دودھ میں یوریا کھاد ملائی جارہی ہے تو کبھی مرچوں میں بھوسے،مکئی اور چوکر کی ملاوٹ کی جارہی ہے،کبھی مردہ جانوروں کے خون سے کیچ اپ تیار کی جارہی ہے تو کبھی مردہ مرغیوں،بکروں اور گائے کا گوشت پیچا جارہا ہے،ڈرنکس میں مضر صحت کیمیکل ڈالے جارہے ہیں،مکھن اور دودھ کے نام اور تصویریں استعمال کرکے کچھ اورہی بیچا جارہا ہے،ناخالص آٹا،گھی،دالیں،چینی بیچی جارہی ہے حتیٰ کہ مضر صحت قدرتی پھل اور سبزیاں فروخت کی جارہی ہیں۔ ابھی کچھ روز قبل ہی پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اپنی ایک کارروائی کے دوران صوبہ بھر کی 527 منڈیوں کی چیکنگ کرتے ہوئے 1345 کلو آم تلف کیا جومضر صحت کیمیکل سے پکائے گئے تھے،اسی طرح مختلف شہروں کے داخلی اور خارجی راستوں پر چیکنگ کرتے ہوئے ہزاروں لٹر مضر صحت دودھ اور ہزاروں من مضر صحت گوشت تلف کیاگیا ہے لیکن افسوس موت کا کاروبارتب بھی زور و شور سے جاری تھا جب کورونا وباء کی وجہ سے موت کے سائے ہر طرف منڈلا رہے تھے۔حکومت کو چاہیئے کہ موت کا کاروبار بند کروانے کے لئے ہرممکن سخت اقدامات کرے تاکہ پاکستان کو ایک روشن اور صحت مند مستقبل فراہم کیا جاسکے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر جمشید نظر کے کالمز
-
محبت کے نام پر بے حیائی
بدھ 16 فروری 2022
-
ریڈیو کاعالمی دن،ایجاد اور افادیت
منگل 15 فروری 2022
-
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاک فوج کی کارروائیاں
جمعرات 10 فروری 2022
-
کشمیری شہیدوں کے خون کی پکار
ہفتہ 5 فروری 2022
-
آن لائن گیم نے بیٹے کو قاتل بنا دیا
پیر 31 جنوری 2022
-
تعلیم کا عالمی دن اور نئے چیلنج
بدھ 26 جنوری 2022
-
برف کا آدمی
پیر 24 جنوری 2022
-
اومیکرون،کورونا،سردی اور فضائی آلودگی
جمعہ 21 جنوری 2022
ڈاکٹر جمشید نظر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.