افلاطون کی مثالی ریاست اور خان صاحب کی ریاست مدینہ

ہفتہ 13 فروری 2021

Dr Nauman Rafi Rajput

ڈاکٹر نعمان رفیع راجپوت

چند دن پہلے علی سدپارہ اور 3 غیر ملکی کوہ پیماؤں کی حادثاتی گمشدگی پھر اس پر ہمارے مذہبی اور معاشرتی سکالرز کے بیانات اور تبصرے سننے اور پڑھنے کے بعد جب علی سدپارہ کی ذاتی زندگی کے بارے معلومات حاصل کیں تو حیرانگی ہوئی اور ساتھ میں افسوس بھی۔علی سدپارہ پہاڑی اور برفانی علاقے کے رہائش پذیر تھے۔ پاکستان کی تمام چوٹیوں کے علاوہ ماؤنٹ ایورسٹ پر بھی پاکستانی جھنڈا لہرا چکے ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ان کی یہ تمام مہمات مجھ سمیت ایک عام پاکستانی تک اس وقت پہنچیں جب شاید وہ اس دنیا میں نہیں رہے مگر آج بھی لوگ شاید انہیں کوہ پیما ہی سمجھ رہے ہیں جبکہ وہ اصل کوہ پیماؤں کا سامان اٹھانے اور چوٹیوں تک لے جانے کا کام کرتے تھے۔

یوں ان کی مہم، ان کا کوئی مشغلہ نہ تھی بلکہ اصل میں انکی مزدوری تھی۔

(جاری ہے)

اس مرتبہ بھی علی اور انکا بیٹا کوہ پیماؤں کا سامان ہی اٹھا کر لے جا رہے تھے۔ راستے میں بیٹا بیمار ہو کر آدھے راستے سے ہی واپس آ گیا، یا یوں کہہ لیں کہ شاید ابھی اسکی زندگی تھی اس لیے بیماری اسکا بہانہ بن گئی۔ ان سب باتوں میں اگر علی سدپارہ کا کچھ دن پہلے دیا گیا انٹرویو سن لیا جائے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میری خواہش ہے کہ اگر میرے پاس اضافی(روزمرہ گھریلو اخراجات کے علاوہ)رقم ہو تو میں اپنی بیوی کو سلائی مشین کے کر دوں۔ پاکستان کا ایک ایسا شخص جس نے اتنے مشکل دورے سر انجام دیے ہوں اسکی خواہش کتنی سی ہے؟ اور آج جب وہ شاید ہم میں موجود نہیں ہیں تو ہم سب ان کے روزگار پر بھی فتوے لگانے میں مصروف ہیں۔ہم سالانہ کرکٹ اور ہاکی سمیت دوسرے کھیلوں پر کتنا سرمایہ خرچ کرتے ہیں تو کیا اس میں سے چند ہزار بھی اس کوہ پیما کو دینے کیلئے تیار نہیں کہ وہ اپنی چھوٹی سی خواہش پوری کر سکے۔

وہ شخص جس نے پاکستانی جھنڈا ماؤنٹ ایورسٹ پر لہرایا۔وہ جو غیر ملکی کوہ پیماؤں کا مددگار ہے۔وہ شخص جس کی وجہ سے غیر ملکی پاکستانی چوٹیاں سر کرنے کیلئے پاکستان کا رخ کرتے ہیں ۔علی سدپارہ سمیت وہ تمام لوگ جو غیر ملکی کوہ پیماؤں کے مددگار ہیں اگر وہ نہ ہوں تو کوئی کوہ پیما پاکستان کا رخ ہی نہ کرے۔غیر ملکی کوہ پیما علی سدپارہ کو اپنا ساتھی بنانے کو ترجیح دیتے تھے۔

آج ہم اسکے اس شوق کم اور روزگار زیادہ پر تنقید کر رہے ہیں۔ جب ہم کرکٹ ورلڈکپ کا سہرا خان صاحب کو پہنائے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں تو اس وقت پاکستان کا پرچم ماؤنٹ ایورسٹ،کے ٹو اور نانگا پربت(جس کوقاتل چوٹی بھی کہا جاتاہے )سر کرنے والے کوہ پیماؤں کو بھول کیوں جاتے ہیں۔ کوہ پیمائی پاکستان جیسے غریب ملک کیلئے ایک سرمایہ کاری کی حیثیت رکھتی ہے۔

پاکستان جس خطہ عرض پر واقع ہے وہاں دنیا کی سات بلند ترین چوٹیوں میں سے چھ موجود ہیں اور ابھی تک آدھی سے زیادہ دنیا یہ بات جانتی ہی نہیں کوہ پیمائی عالمی دنیا میں ایک بہت ہی مقبول مشغلہ ہے۔ اس سے ہم لاکھوں سالانہ کما رہے ہیں لیکن اگر اس پر توجہ دی جائے تو یہ لاکھوں کروڑوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں مگر یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے۔آج مجھے علی سدپارہ کی گمشدگی پر افلاطون کی مثالی ریاست یاد آ رہی ہے۔

افلاطون کا کہنا تھا کہ شاعر حضرات قابل احترام لوگ ہیں۔ ان کے احترام کا خیال کرتے ہوئے ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈال کر انہیں ریاست بدر کر دینا چاہیے کیونکہ ان لوگوں کا معاشرے کی تعمیر وترقی میں کوئی کردار نہیں ہے۔یہاں حکومت وقت سے کوئی گلہ نہیں ،اپنی عوام کی سوچ اور تنگ نظری پر حیرت ہے کہ عوام اس کی گمشدگی پر اسکی کامیابیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کی بجائے اس پر نقطہ چینی کر رہی ہے کہ موت کے منہ میں جانے کی کیا ضرورت تھی۔ معزرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم 73 سالوں میں ابھی تک انسان سے بندہ بننے تو کیا شاید انسان بننے کے ابتدائی مراحل سے بھی گزر نہیں پا رہے۔
یہ پہاڑوں کا ظرف ہے ورنہ
کون دیتا ہے دوسری آوازکبھی

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :