''عائشہ زہری '' جرت کا نشان

پیر 1 جون 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

پچھلے دنوں میں نے ایک تحریر لکھی تھی, جس کا عنوان تھا ''کیا حق کے لیے بولنا جرم ہے''. مگر کچھ دن پہلے کی ایک خبر پڑھ کر یقین ہوگیا کہ واقعی سچ لکھنا, سچائی کا ساتھ دینا,ظلم کے خلاف بولنا, جھوٹ کو بے نقاب کرنا, جرم ہی نہیں بلکہ سنگین جرم ہے. اس راہ کے راہی اگر زبان سے ظلم کے خلاف بولنے والے ہیں تو ان کی زبان کاٹ دینی چاہیے اگر سچ لکھنے کا جرم قلم سے سر رد ہوا ہے تو نہ صرف ان کے قلم توڑنے چاہئیں بلکہ سچ لکھنے والے کا بھی سر قلم کرنا چاہیے اور اگر کسی ایماندار شخص سے اپنی محکمانہ کارروائی کے دوران یہ جرم سرزد ہو جائے تو ایسے شخص کو نہ صرف اس کے عہدے سے ہٹانے کا پروانہ جاری کرنا چاہیے۔بلکہ ڈائریکٹ نوکری سے برطرف کرکے اسے زنداں میں ڈال دینا چاہیے یا پھر سر ہی قلم کرنا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی سچ بولنے اور لکھنے اور سچائی کا ساتھ دینے کی جرت ہی نہ کرسکے اور اگر کوئی غلطی سے سچائی اور مظلوم کا ساتھ دینے کا گناہ کر بیٹھے تو اپنے انجام سے بھی اچھی طرح باخبر رہے۔

(جاری ہے)


 یہاں اس لمبی تمہید کا مقصد بھی ایک ایسی بہادر خاتون کے بارے میں بتانا مقصود ہے جس نے اس بے حس اور نا انصاف معاشرے میں نہ صرف مخصوص روایات کو توڑتے ہوئے ڈاکٹر یا ٹیچر بننے کے بجائے اپنے لیے بیوروکریسی کو چنا اور عملی طور پر مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کی روایت قائم کی وہ بھی قبائلی اور بلوچ معاشرے میں.

یہ باہمت خاتون ہیں خضدار سے ملحق علاقے زہری سے تعلق رکھنے والی عائشہ زہری. عائشہ زہری نے سی ایس ایس مقابلے کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا. اور ضلع چاغی کے علاقے دالبندین میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوئیں. یہ وہ علاقہ ہے جہاں پاکستان اور افغانستان کا بارڈر ہے.یہاں منشیات کی غیر معمولی اسمگلنگ اپنے عروج پر ہے. اس علاقہ میں جہاں ایک طرف غیر قانونی طریقے سے دولت کمانے کے خواہش مند,با اثر افراد سفارش اور پیسے کے زور پر اپنی تعیناتی کراتے ہیں تو وہیں دوسری جانب شریف لوگ وہاں ڈیوٹی دینے سے اجتناب کرتے ہیں۔
 محترمہ عائشہ کو بھی ان کی تعیناتی کے بعد کہا گیا کہ ایک خاتون ہونے کی ناطے وہ دفتری ذمہ داریاں سر انجام دیں اور باہر کے کام مردوں پر چھوڑ دیں مگر عائشہ صاحبہ اپنی جاب ڈسکرپشن سے پوری طرح آگاہ تھیں.

اس نڈر خاتون نے نہ صرف اپنی ذمہ داریاں بخوبی سر انجام دیں بلکہ یہاں اغوا برائے تاوان کے کیس بھی نمٹائے اور بہت سے مغوی بازیاب کرائے. اس کے علاوہ اس علاقے میں سر گرم عمل منشیات کے ناقابل شکست مافیا کو بھی للکارا اور منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی کی اور بڑی مقدار میں منشیات برآمد کرکے منشیات فروشوں کو پابند سلاسل کیا مگر افسوس ہمارے ملک کا کرپٹ مافیا یہاں بھی آڑے آگیا.

ان کے ماتحت لیویز نے ملزمان کے خلاف پرچہ درج کرنے سے صاف انکار کیا اور توجیہ یہ پیش کی کہ انہیں متعلقہ ڈی سی کی جانب سے احکامات ہیں کہ عائشہ صاحبہ کا کوئی بھی کیس درج نہ کیا جائے۔صرف یہی نہیں عائشہ صاحبہ کی یہ بہادری ہمارے کرپٹ افسر شاہی کو کچھ زیادہ ہی ناگوار گزری اور ان کا تبادلہ کر دیا گیا. انٹرنیٹ کے اس دور میں جب معاملہ طول پکڑ گیا تو مجبورا صوبائی حکومت نے اپنی ساکھ بچانے کے لیے جب اعلی سطح تحقیقات کرائیں تو ڈی سی قصور وار نکلا مگر اس برائے نام ریاست مدینہ میں کسی کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی اور بجائے اسے بہادری کے تمغے دینے کے اور اس کی کارکردگی کو سراہنے کے, الٹا چیف سکریڑی بلوچستان نے بغیر انکوائری اور جواب طلبی کے چھ ماہ بعد محترمہ عائشہ صاحبہ کو شوکاز نوٹس بجھوایا گیا اور نوکری سے برطرفی کی دھمکی دی گئی.

ساتھ ہی اس کی کردار کشی بھی کی گئی. ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے مذکورہ بالا کارروائی کی متعلقہ اعلی حکام کو پیشگی اطلاع نہیں دی. اور صرف چند اہلکاروں کے ساتھ کارروائی کی اس کے علاوہ یہ بھی متن ہے کہ محترمہ اپنے بارہ سالہ بھائی کو بھی اس کارروائی میں اپنے ہمراہ لے گئی تھیں. اب یہاں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں کہ آیا ایک غیر شادی شدہ کا عورت کا اپنے ساتھ اپنے محرم بھائی کو لے جانا جرم ہے یا لشکر کے بجائے چند اہلکاروں کی نفری لے جانا جرم ہے یا پھر کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کے خلاف بر وقت کارروائی کرنا جرم ہے۔یہ سارے سوالات اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ یہاں جو نا انصافی اور ظلم کا بازار گرم ہے وہ کبھی بھی کم نہیں ہونے والا ہے.اگر ہمارے حکام بالا کی یہ ملک دشمن سر گرمیاں اور یہ سمجھ سے بالاتر قانوں نافذ رہے تو ہمیں خطرہ بیرون ملک دشمنی عناصر سے نہیں بلکہ ان بھیڑ نما بھیڑیوں سے ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :