نوجوانوں میں خودکشی کی وجوہات

ہفتہ 12 ستمبر 2020

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

خودکشی آج کےدور کا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔روز کوئی نہ کوئی خودکشی کی خبر نظروں سے گذرتی ہے۔ کبھی کوئی باپ  مہنگائی سے تنگ آکر بچوں کو زہر کھلا کر خود کشی کرتا ہے، کبھی کوئی ماں نفسیاتی مسائل کا شکار ہوکر  بچوں کو تیز دھار آلے سے قتل کرنے کے بعد خودکشی کرتی ہے۔ کبھی کوئی عورت لڑکی پیدا کرنے کے جرم میں گھر سے نکالے جانے پر سمندر میں کود کر جان دینے کی کوشش کرتی ہے یا پھر اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے موت کو گلے لگاتی ہے .  اب تو خودکشی اتنا عام ہوگیا ہے کہ نوجوان طالبعلوں کی بھی آئے دن خودکشی کی خبریں میڈیا کا حصہ بن رہی ہیں۔

ان  میں لڑکےاور لڑکیاں بلاتفریق شامل ہیں۔ دو تین ماہ پہلے ایک ہی ہفتہ میں دو میڈیکل کے طالب علموں کی خودکشی نے جہاں ان کے خاندان پر صدموں کے پہاڑ گرائے، وہیں لوگوں کے ذہنوں میں کئی سوالات نے بھی جنم لیا۔

(جاری ہے)

طالب علم چاہے میڈیکل کے ہوں یا کسی اور شعبے کے، آگ کے کئی کندنوں سے تپ کر یہاں پہنچتے ہیں ۔اس کے پیچھے ان کے والدین کی سالوں کی انتک محنت ہوتی ہے۔

ساتھ ہی ساتھ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم سب کا ایمان ہے کہ زندگی اور موت کے فیصلے اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور جو اللہ کی رحمتوں سے مایوس ہو کر  اپنی جان خود لیتا ہے اس کے لیے بد ترین عذاب ہے کیونکہ وہ امانت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے .
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے اپنے آپ كو پہاڑ سے گرا كر قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے گرتا رہے گا، اور جس نے زہر پي كر اپنے آپ كو قتل كيا تو جہنم كى آگ ميں زہر ہاتھ ميں پكڑ كر اسے ہميشہ پيتا رہے گا، اور جس نے كسى لوہے كے ہتھيار كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ ہتھيار اس كے ہاتھ ميں ہو گا اور ہميشہ وہ اسے جہنم كى آگ ميں اپنے پيٹ ميں مارتا رہے گا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5442 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 109 ).
سوچنے کی بات یہ ہے کہ  وہ کیا وجوہات اور محرکات ہیں جس کی بنا پر کوئی اس مقام پر آ اکر خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوتاہے؟؟ اسکے علاوہ یہ سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں کہ کیا حقیقتاً یہ اپنے قاتل خود ہیں؟؟ ایک مسلمان ہونے کے ناطے یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ خود اپنی زندگی کو ختم کرنے کا مطلب اپنے لیے حرام مو ت کو ترجیح دینا کیا اتنا آسان ہے ؟؟
کیا ان کے سامنے دوسرا کوٸی راستہ نہیں رہتا؟؟؟
یہ سوالات مسلسل میرے ذہن میں بھی ابھرتے رہے اور مجھے قلم اٹھانے پرمجبور کیا۔


شاید ان سب سوالوں کا جواب  ہاں ہو مگر صرف ان کے لئے جن کی زندگی ان کے لئے اتنی گراں ہوجاتی ہے یا کردی جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کی ختم ہونے والی اذیتوں کا سودا ہمیشہ رہنے والی اور ناختم ہونے والی اذیت ناک موت سے کرتے ہیں ۔
مگر نہیں زندگی کی روشنیوں سے منہ موڑنا اور موت کی آغوش کو ترجیح دینا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے پیچھے کئی محرکات ہوتے ہیں جو انسان کو خودکشی جیسا انتہائی قدم کو اٹھانے پر مجبور کردیتے ہیں ۔

اس لئے میرا ماننا ہے کہ خودکشی کرنے والا خود مجرم ہوتے ہوئے بھی اکیلا مجرم نہیں ٹہرایا جاسکتا ہے بلکہ زندگی کے مختلف مراحل سے گذر کر کئی لوگ اس کے اس جرم میں برابر کے حصہ دار بنتے جاتے ہیں ۔ کہیں یہ لوگ گھر میں موجود رشتہ دار اور والدین کی صورت میں ہوتے ہیں ،کہیں ارد گرد رہنے والے پڑوسی کی صورت میں ،کہیں اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلباء و اساتذہ کی شکل میں، اور کہیں مختلف اداروں کے سربراہان کی شکل میں ۔

یہ سب مل کر کہیں نا کہیں کسی کی بھی ناصرف شخصیت کو مسخ کرتے ہیں بلکہ اسے موت کی بانہوں میں دھکیلنے کا سبب بھی بنتے ہیں ۔ اس لیے ہمیں کسی کی بھی خودکشی کو کچھ دنوں کے لیے یاد کرکے بھول جانے والے روئیے کو ناصرف چھوڑنا پڑے گا بلکہ حتی الامکان کوشش کرنی پڑیگی کہ کسی کے ذات کی وجہ سے کوئی جہنم رسید نہ ہوجائے ۔
اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کے اتنے اہم رشتے کس طرح کسی کی موت کا سبب بن سکتے ہیں ۔

اکثر اوقات گھر میں ماں باپ اپنے بچوں کی تربیت میں کہیں نہ کہیں چوک جاتے ہیں ۔ یا دو بچوں کا آپس میں مقابلےکا رحجان پیدا کرتے ہیں ۔جس کی وجہ سے متاثرہ بچہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہےاور اس کی زندگی میں ایک خلا پیدا ہوتاہے. بچپن میں پیدا ہونے والا یہ خلا آخر تک اس کے ساتھ رہتا ہے۔ اسی طرح اگر دوسرے عوامل کو مدنظر رکھا جائے تو گھرسے باہر اسکول، کالج اوریونیورسٹی جو دوطبقاتی نظام تعلیم میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں، اپنا کردار ادا کرتے ہوٸےنظر آتے ہیں۔

وہاں تعلیم کا معیار تو ایک طرف، امتحانی طریقہ کار اور اساتذہ کا طلبہ سے تعصبانہ رویہ بھی ممکنہ وجوہات میں سے ایک ہوسکتاہے ۔اس کی وجہ سے ایک طرف نا صرف خود اساتذہ کی اپنی عزت میں کمی پیدا ہو گٸی ہے بلکہ دوسری طرف اسکا براہ راست اثر طلبہ کی زندگیوں پر بھی پڑرہا ہے۔ کچھ مخصوص طلبہ جو گھر کی طرف سے بھی بے توجہی کا شکار ہوتے ہیں ان کی ذات کا خلا اور بڑھ جاتا ہے ۔

اور ان کی شخصیت مزید بکھر جاتی ہے۔ اس پر رہی سہی کسر آپس میں دوستوں کا رویہ پورا کرتا ہے۔ جب یہ لوگ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ذہنی انتشار کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں ۔اور یہاں بھی بیروزگاری کا عفریت بازو پھیلائے ان کے استقبال کے لیے کھڑا ہوتا ہے ۔ اس طرح کا انسان زیادہ تر لوگوں کی تضحیک کا نشانہ بنتا رہتا ہے۔
  ہر طرف سے دھکے کھانے کے بعد اپنے بکھرے وجود کے ساتھ متاثرہ شخص کوئی مثبت فیصلہ نہیں کر پاتا ۔

کیونکہ اس کی سوچ شروع سے لے کر جوان ہونے تک منفیت کی طرف پروان چڑھ چکی ہوتی ہے۔ ایسا شخص مجبور ہو کر یا تو منشیات کی آڑ میں خود کو غرق کرکے معاشرے کا ناسور بن جاتا ہے یا پھر خودکشی جیسے انتہائی عمل کی جانب قدم بڑھاتا ہے۔ اور جہنم رسید ہوتا ہے۔
ان تمام باتوں کو مد نظر رکھ کر ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہٸے کہ خودکشی کے بھی قتل کے باقی مقدموں کی طرح کے اصل محرکات کی چھان بین ہونی چاہئے اور پس پردہ عوامل کی نشان دہی پر قرار واقعی سزا ہونی چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :