مستقبل کے معمار

جمعہ 25 جون 2021

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

کوئی بھی گھرانہ مختلف افراد کا مجموعہ ہوتا ہے. جس میں مرد, عورت, بچے, جوان اور بوڑھے شامل ہوتے ہیں. جس طرح گھر ان کے بغیر نامکمل ہوتا ہے اسی طرح معاشرہ بھی ان سب کے وجود سے ہی تشکیل پاتا ہے. بقول شیکسپئر  دنیا ایک اسٹیج ہے اور یہاں آنے والا ہر فرد ایک حقیقی کردار, جسے اس نے نبھانا ہوتا ہے. کچھ لوگ اپنا کردار مثبت انداز میں ادا کرکے تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ منفی طرز زندگی گزار کر معاشرے کی شکست و ریخت کا باعث بنتے ہیں.

اس تمام عرصے کے دوران وہ عمر کے مختلف ادوار سے گزرتے ہیں. بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ہر عمر کی اپنی ضروریات, تقاضے اور فرائض ہوتے ہیں. بچپن لاابالی کا دور ہوتا ہے. ان کے فرائض بھی محدود ہوتے ہیں کیونکہ بچہ جسمانی, اعصابی اور نفسیاتی طور پر کمزور ہوتا ہے. بڑھاپے میں بھی کم و پیش یہی صورت حال ہوتی ہے جب کہ لڑکپن سے لے کر جوانی, عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جب انسان جسمانی, اعصابی اور نفسیاتی طور پر مضبوط ہوتا ہے اس لیے ان کی ذمہ داریاں نسبتاً  زیادہ ہوتی ہیں.

جوان افراد اپنی مختلف پیشہ ورانہ فرائض نباہ کر گھر اور ملک کی بھاگ دوڑ چلاتے ہیں. دوسری جانب اگر نوجوان نسل پر نظر دوڑائی جائے تو وہ شعور اور آگہی کی جانب سفر طے کر رہے ہوتے ہیں. نوجوان نسل کسی بھی ملک کا عظیم سرمایہ اور فخر ہیں. ملک کے مستقبل کی بھاگ دوڑ آگے چل کر انہوں نے سنبھالنی ہوتی ہے.اس لیے انہیں مستقبل کے معمار کا نام دیا جاتا ہے.

ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے زیادہ تر انہی پر انحصار کیا جاتا ہے اس لیے ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے. جتنا کسی ملک کے نوجوان پڑھے لکھے اور ہنر مند ہونگے اتنا ہی اس ملک کا مستقبل تابناک ہوگا. سابق امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ کا کہنا ہے کہ ’’ہم نوجوانوں کے لیے مستقبل تعمیر نہیں کرسکتے، مگر ہم مستقبل کے لیے اپنے نوجوانوں کی تعمیر کرسکتے ہیں۔

(جاری ہے)

‘‘ اور یہی وہ نقطہ ہے جس پر اگر کسی بھی ملک کی سرکار عمل کرے تو ملک کے ساتھ ساتھ اس ملک کے نوجوانوں کا مسقبل بھی محفوظ ہوسکتا ہے.
پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں بھی ملکی ترقی اور مستقبل کا زیادہ تر انحصار نوجوانوں پر ہے,  یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم اور سرسید احمد خان نے زیادہ تر اپنی تقریروں میں نوجوان نسل کو مخاطب کیا.

جب کی علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں نوجوانوں کو شاہین سے تشبیہ دی اور انہیں عیاشی کی زندگی سے  ہٹ کر جدو جہد والی زندگی گزارنے کی تلقین کی .
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب ہمیں شاہین کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ تعلیم کے منازل طے کرنے کے بعد اپنے گھر اور ملک کی پرواہ کیے بغیر اپنے مستقبل کو سنوارنے اور قصر سلطانی کے خواب پورے کرنے پہاڑوں پر پرواز کرتا ہوا یورپ اور امریکہ پہنچ جاتا ہے, جب کہ اس کا گھر اور دیس اس کی راہ تکتے رہ جاتے ہیں.

دوسری جانب اکثر نوجوان جن سے ہم اپنے سرزمین کی حفاظت کی آس لگائے بیٹھے ہیں وہ انٹرنیٹ کے آسیب میں بری طرح پھنس چکے ہیں. ٹک ٹاکر بن کر ناچ گانوں میں مصروف ہیں یا پھر مختلف گیموں میں نادیدہ میدان جنگ کے سپاہی بن کر مختلف محاذوں پر اپنی طاقت کا جادو جگا رہے ہیں اور اپنے طاقت کی دھاک بٹھا رہے ہیں. انٹرنیٹ انہیں ذہنی طور پر مفلوج بنا رہا ہے اور یاد رہے کہ مفلوج ذہنوں سے مفلوج معاشرہ ہی جنم لیتا ہے.

نوجوانوں کو معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے. ریڑھ کی ہڈی کی مانند نوجوان نسل  کی تعلیم و تربیت میں ذرا سا  نقص ملک و قوم کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے. اس کے علاوہ نوجوان نسل میں عدم برداشت کا مادہ بھی پایا جاتا ہے. اکثر گھر, کالج اور یونیورسٹی میں ان کا جارحانہ انداز دیکھنے میں آتا ہے.
ہمارے ملک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی نوجوان نسل کی ہے.

اگر یہ تناسب ناکارہ ہوجائے تو اس کا براہ راست اثر ملک کی معیشت, سیاست, اقتصادیات اور سماجی رابطوں پر پڑے گا. نوجوانوں میں منفی رویوں کی کئی وجوہات ہیں جن پر قابو پانے کے لیے ان کا احاطہ کرنا ضروری ہے. ان سب کے ذمہ دار کہیں نہ کہیں ہم سب بھی ہیں. ہمیں اپنی کوتاہی محسوس کرکے اس پچاس فیصد کو ملکی دھارے میں شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے. اس سلسلے میں نوجوان نسل کی بہترین نشونما, پرورش اور ان کی ذہنی و فکری صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے.  ہونہار, کامیاب, تعلیم یافتہ, محنتی, ہنر مند اور بااخلاق افراد بنانے کے لیے والدین,  اساتذہ,  سیاست دان,  قانون ساز اور عالم دین سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا.

اس سلسلے میں گھر, اسکول اور جامعات میں بامقصد, معیاری اور ہنر مندانہ تعلیم و تربیت  کے ساتھ کردار سازی  اور یکساں معیار تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ ہمارا تعلیمی نظام ناقص اور طبقاتی ہے جو نوجوانوں نسل کو ترقی کی ڈگر پر لانے کے بجائے انہیں مایوسی کے دلدل میں دھکیل رہا ہے . ملک کے عظیم تر مفاد میں اس بوسیدہ نظام تعلیم کی جگہ نئی ٹیکنالوجی متعارف کرانے کی بھی ضرورت ہے, جس میں اسلامی اور تاریخی حوالے سے اصلاحالات بھی ہوں.

قرآن پاک کی تعلیمات کو عام کرنا وقت کی ضرورت ہے.قرآن پاک باقائدہ ترجمے اور تفسیر کے ساتھ سب کے لیے لازمی ہو.
اس کے علاوہ حکومت کی اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ ملازمت کے وافر مواقع  پیدا کرنے کے لیے ملکی سطح پر صنعتوں کے جال بچھانے تاکہ نوجوانوں میں بے روز گاری ختم ہونے کے ساتھ ملکی معیشت اور اقتصادیت ترقی کی راہ پر گامزن ہو.
معاشرے کے باقی افراد کے ساتھ نوجوانوں کا بھی فرض ہے کہ وہ جارحانہ رویہ چھوڑ کر خود میں برداشت کا مادہ پیدا کریں اور مثبت سرگرمیوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں.

قربانی,  ایثار اور صلہ رحمی جیسی خوبصورت روایات کو اپنائیں. اسلامی اور ملکی تاریخ سے مکمل آگاہی کے ساتھ  نبی کریم ﷺ کی زندگی اور تعلیمات کو شمع حیات بنائیں. اقبال, قائداعظم اور سر سید کے متعارف کرائے گئے بہترین رہنما اصولوں کو اپنی زندگی میں شامل کریں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :