تجدیدِ درس ہے اک کربلا

جمعہ 28 اگست 2020

Dr Shahid Siddique

ڈاکٹر شاہد صدیق

کربلا ہار جیت نہیں ہے ۔ یہ تو وہ ریت ہے جو امام حسین نے قرباں ہو کے آنے والوں کے لئے مثالی بنا دی ہے ۔ کربلا تو ایک درس ہے جو ہر برس اس زخم کو تازہ کرتا ہے جس پہ عرش بھی مغموم ہے اور زمین کا فرش بھی ۔ کربلا سر کٹانے کا نہیں سر حق کے لئے نیزے پہ چڑھانے کا نام ہے ۔ کربلا میدان نہیں بلکہ پردہ قرطاس پہ نمایاں وہ داستان ہے جس میں آل نبی نے ہر ذرے کا اپنے لہو سے منہ دھلایا ہے۔

سورج کی کرنوں کو گواہ بنایا ہے کہ جب مقتل سجتا ہے تو قربانی کے لئے ہمیشہ شاہ ہی آگے بڑھ کے عظمتوں کے مینارہ بنتا ہے ۔ ان کی شان و شوکت تو ایسی ہوتی ہے کہ ہر کوئی کہتا ہے کہ نوک نیزہ پہ سج کے نکلا ہے جو وہ کسی سردار کا سر لگتا ہے اور ہر دل کی آواز پہ یہ ہی دھڑکتا ہے ۔
شاہ است حسین ، بادشاہ است حسین
دین است حسین، دین پناہ است حسین
سر داد ، نداد دست درِ دست یزید
حقا  کہ   بنائے  لا  الہ است حسین
حسین کی قربانی آج یہ بھی سبق پڑھاتی ہے کہ ضروری نہیں کہ اکثریت راہ باطل پہ قدم بڑھاتی قابل تقلید ہوتی ہے بلکہ ان کا رستہ روکنا ہی وہ جہاد ہے جو جانوں سے کیا جاتا ہے اور جابر کے سامنے حق کا نعرہ ہی بہادروں کا شعرہ ہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

ایک طرف یہ تجدید ہے اس قربانی کی جو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے دی تو دوسری طرف یہ حضرت نوح علیہ السلام کی اس سنت کی تکرار ہے کہ خدا کی راہ میں ہستیاں دیکھی جاتی ہیں – بندوں کی تعداد سچ جھوٹ کا فیصلہ نہیں کرتی ہے-
 لباس ہے پھٹا ہوا،غبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں  چھدا ہوا  ، کٹا   ہوا
 یہ کون ذی وقارہے،بلا کا شہسوارہے
کہ ہے ہزارقاتلوں کےسامنے ڈٹا ہوا
 قربانی و ایثار کا جذبہ ان کے خیموں میں نمو پاتا ہے جن میں بھوک ہے پیاس ہے اور صرف ایک آس ہے کہ خدا کے سامنے جب حاضر ہوں تو قدموں میں استقامت ہو ۔

سینے چھدے ہوں لیکن چہروں پہ نہ ندامت ہو ۔ حضرت امام حسین کے لئے بھی کسی سرحدی ملک میں چلے جانے پہ اصرار تھا اور حسین کی جان کو امان تھی لیکن اس دن اگر حسین جھک جاتے تو تا قیامت باطل حق کو یونہی جھکاتا- بے شک حسین وہ ہے جو دہکتی آگ کے شعلوں پہ سویا، جس نے اپنے خون سے عالم کو دھویا، جو جواں بیٹے کی میت پر نہ رویا ۔ وہ جس نے سب کچھ کھو کے پھر بھی کچھ نہ کھویا بلکہ حسین تو وہ جوانوں کا سردار ہے جو حوض کوثر کی سرکار ہے وہ ہونٹوں پہ پیاس سجائے سب کو آب بقا پلاتا ہے ۔

آنے والے شہیدوں کو اپنے بازوں میں سجاتا ۔ فخر سے سر اٹھاتا رب کے حضور پیش کر کے فخر سے دہراتا ہے کہ اے رب ذوالجلال یہ ہے وہ نڈر جو تیرے حضور میں تیری رضا بجا لاتا ہے ۔ وہ زمین پہ بستے ہر پیر و جواں کا حوصلہ یوں بڑھاتا ہے
 نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ  دلگیری
سانحہ کربلا دین اسلام کی وہ گھڑی ہے جو کہتی ہے حق و سچ اپنا آپ منواتا ہے- امام حسین رضی اللہ عنہ کو کربلا تک لے آنے والا حر بن یزید ریاحی اس سچائی کی چٹان کے سامنے سر نگوں ہوا اور عمر بن سعد سے کہنے لگا کہ سانچ کو آنچ نہیں
دولتِ حاکمِ دُوں پر  ہے  تِرا دار و مدار
دارِ دنیا  سے تعلّق نہیں  رکھتے  دِیں دار
 کیامجھےدارپہ کھینچےگاوہ ظالم غدّار
خوابِ غفلت ہے اُسے ، اور مِرا طالع بیدار
کسی   سردار  نے یہ  اوج   نہ پایا  ہو  گا
دارِ  طوبیٰ  کا  مِرے فرق پہ  سایہ ہو گا
غرض کربلا تو سارے کا سارا وہ درس ہے جس کو سمجھنے میں امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی سرفرازی و سر بلندی ہے ۔

ہر سال تاریخ اسے دہراتی اور ہمیں سکھاتی ہے
 قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :