لاک ڈاؤن میں خواتین کی صورتحال

اتوار 3 مئی 2020

Dr. Zulfiqar Ali Danish

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش

کورونا وائرس کی روک تھام اور اس کے ممکنہ پھیلاؤکو روکنے کے لیے اگرچہ وفاقی حکومت کسی بھی سطح پر کوئی بھی قدم اٹھانے کو تاحال تیار نہیں ہو رہی اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان نظر آرہا ہے۔ لیکن صوبے اپنے اپنے طور پر نہ صرف جزوی لاک ڈاؤن کر چکے ہیں بلکہ ہر دوہفتے بعد حالات کی سنگینی کو مدٌنظر رکھتے ہوئے اس کی مدت میں بتدریج اضافہ بھی کرتے جا رہے ہیں۔

مجموعی طور پر ملک میں کاروبارِزندگی ایک لحاظ سے معطل ہوا پڑا ہے۔ سوائے ہسپتالوں،بینکوں اور کچھ پرائیویٹ اداروں کے، ہر قسم کے سکول، کالج، دفاتر بند ہیں اور لوگ زیادہ تر گھروں میں محصور ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں جہاں چھوٹے بڑے جوان و معمر افراد متاثر ہوئے ہیں وہیں خواتین بھی متاثر ہوئی ہیں بلکہ موجودہ لاک ڈاون سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی تعداد گھریلو خواتین کی ہی ہے جن میں ہمارے گھر کی خواتین سمیت تمام خواتین شامل ہیں۔

(جاری ہے)

بالخصوص جو خواتین کسی قسم کا آن لائن کام کر تی ہیں یا آن لائن کسی ادارے سے وابستہ ہیں یا جو مختلف سکولوں کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھاتی ہیں اور آج کل ان کے اداروں نے گھر بیٹھے آن لائن کلاسز کا اجرا کر دیا ہے، انھیں تو دہری مصیبت کا سامنا ہے اور ان کے لیے نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والی صورتحال ہے۔ ایک طرف اپنی ذمہ داریاں، شادی شدہ ہونے اور بچوں کی صورت میں ان کی ذمہ داریاں، دوسری طرف سب افرادِخانہ کے آج کل ہمہ وقت گھر میں ہونے کی وجہ سے ان کا بھی سارا دن خیال رکھنے کی ذمہ داری بھی ان کے سر آن پڑی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ جو سب سے اہم مصیبت ان پر پڑی ہے وہ سارا دن طرح طرح کے کھانے پینے کی چیزوں کی فرمائشیں پوری کرنا ہیں۔کسی کو چائے کی ضرورت ہے توکوئی قہوے کا طلبگار ہے ، کوئی کیک بنانے کا کہتا ہے تو کوئی گھر میں پیزا بنانے کی فرمائش کر رہا ہے تو کوئی مختلف قسم کے پکوان کھانے کی طلب ظاہر کر رہے ہیں۔ ہمارے ایک جاننے والوں کے ہاں گھر کی خواتین نے گزشتہ دنوں گھر بیٹھے مرد حضرات کی بیجافرمائشوں سے تنگ آکر گھر میں کام کرنے والی خاتون کو پھر سے بلایا اور اس کو ماسک لگوا کر اوراچھی طرح سینیٹائزر وغیرہ استعمال کروا کر پھر سے کام پر لگا دیا کہ کچھ کام کا بوجھ تو کم ہو۔

ادھر ہمارے اپنے گھر تو کل بڑی دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب غالباً چوتھی بار چائے کی فرمائش پرہمارے چھوٹے بھائی صاحب کو جواب ملا کہ میراخیال ہے میں پانی کی ٹینکی میں ہی چینی پتی ملا دیتی ہوں تاکہ آپ کو سارا دن چائے ملتی رہے (بہرحال چائے انھیں پھر بھی مل گئی تھی )۔ تفنن برطرف، بحیثیتِمجموعی ہر گھر کی خواتین کے لیے یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔

اور موجودہ صورتحال میں سب سے زیادہ نظر انداز یہ خواتین ہی ہورہی ہیں۔
اس ضمن میں جو بات نوٹ کرنے کی ہے اور ہم سب کے سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ جن گھروں میں اکثر کام کاج کے لیے باہر سے خواتین یا کام والی لڑکیاں (جنھیں عام طور پر کام والی ماسی کہا جاتا ہے )آتی تھیں، موجودہ غیر معمولی صورتحال میں چونکہ حفاظتی نکتہِنگاہ سے وہ بھی اپنے اپنے گھروں تک محدود ہوگئی ہیں تو ایسی صورت میں گھر کی صفائی ستھرائی سے لے کر کپڑے دھونے اور دیگر کام کاج کی ذمہ داری بھی گھر کی خواتین پر آن پڑی ہے اور اگرچہ خواتین خوش اسلوبی سے ان تمام امور سے عہدہ برا ٓبھی ہو رہی ہیں لیکن اس کی وجہ سے اکثر خواتین مسلسل تھکاوٹ کا شکار بھی ہورہی ہیں۔

ہم ان سطور کے توسط سے اپنی ان تمام ماوں بہنوں بیٹیوں کوخراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور ان کے جذبے کو سلام پیش کرتے ہیں۔اور اپنے تمام بھائیوں بزرگوں دوستوں سے درخواستگار ہیں کہ ازخود اپنے گھر کی خواتین کا احساس کریں۔ ان پر بے جا بوجھ مت ڈالیں،بالخصوص ایسی خواتین جو گھر کی ذمہ داری کی ساتھ ساتھ کسی آن لائن کام سے بھی وابستہ ہیں، جہاں تک ممکن ہو سکے ان کے کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹائیں تاکہ اس مشکل وقت میں انھیں بھی حوصلہ ملے۔

اور یقیناً ان پراس کا ایک خوشگوار اور مثبت اثر بھی پڑے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت طرح طرحکے فرمائشی پکوان بنوا کر کھانا آپ کے اپنے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ بسیارخوری کے سبب ہونے والا کوئی بھی مسئلہ مثلاً پیٹ میں شدید درد وغیرہ آپ کے لیے شدید مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ملک بھر میں جگہ جگہ لاک ڈاون کے سبب ڈاکٹرز کے پرائیویٹ کلینک بھی زیادہ تر بند ہیں۔

اور سرکاری ہسپتال میں جانا ایک تو کورونا وائرس کے حوالے سے خطرے سے خالی نہیں ، دوسرا ان کا اوقاتِکار صبح سے دوپہر تک ہوتے ہیں۔ اس لیے ایسی کسی بھی ایمرجنسی صورتحال سے بچنے کے لیے ہر ممکن حد تک احتیاط ضروری ہے۔ویسے بھی کوشش کرنی چاہیے کہ جتنا وقت میسر آرہا ہے اسے کسی مثبت کام میں استعمال کیا جائے۔کتب بینی کی عادت ڈال لیجیے۔نماز و دعا کے ساتھ ساتھ قرآنِپاک روزانہ پڑھنے کی عادت ڈال لیجیے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی اس کا عادی بنایئے۔

ویسے بھی تین ہفتے بعد رمضان المبارک کا بھی آغاز ہونے جا رہا ہے تو یہ عادت مزید پختہ ہو جائے گی اورزیادہ سے زیادہ ثواب کا باعث ہوگی۔انٹرنیٹ استعمال کرنے والے احباب انٹرنیٹ پر اپنے مطلب کے مضامین پڑھ سکتے ہیں اور اپنی معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔جن کے گھروں میں لان یا گملے وغیرہ ہیں وہ ان میں پھولوں کے پودے لگا سکتے ہیں یا موسم کے مطابق مختلف اقسام کی سبزیاں کاشت کر سکتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ گھر میں رہنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ مختلف قسم کی ایکسرسائزز کر کے اپنے آپ کو فٹ رکھ سکتے ہیں۔ گھر کے اندر واک کیجیے ، یا باہر اپنی گلی میں دوسروں سے مناسب فاصلہ رکھ کر واک کی عادت ڈالیے بالخصوص نمازِفجر کے بعد اور شام کے بعد جب عموماً گلیاں خالی پڑی ہوتی ہیں۔یہ آپ کی صحت کو بھی بہتربنانے میں معاون ثابت ہوگا اور آپ کی طبیعت پر بھی یقیناً ایک خوشگوار اثر ڈالے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :