سماجی فاصلے کی حقیقت

جمعرات 7 مئی 2020

Dr. Zulfiqar Ali Danish

ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش

جب سے کورونا وائرس پھیلنا شروع ہوا ہے ، خواص کیا عوام کیا ، سب اپنے اپنے گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔ پوری دنیا کا نظام ایک لحاظ سے رک چکا ہے لیکن وائرس کا پھیلاوہے کہ رکنے کی بجائے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ تادمِتحریر اس کا کوئی علاج کوئی ویکسیین ابھی تک دریافت نہیں ہو پائی سو لے دے کے اس سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے تنہائی ، جسے سماجی فاصلہ یا social distancing نام دیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا دیکھیں تو یوں لگتا ہے ہر جانب قیامتِ صغریٰ کا منظر ہے۔ہر بندہ سوشل میڈیا پر اپنے تئیں اس کا ماہر بنا ہوا ہے ، جس کا دل کرتا ہے موبائل فون اٹھاتا ہے ، اپنی مرضی کا ایک علاج بتاتا ہے اوراپ لوڈ کر دیتا ہے اور جس جس کو وہ ملتا ہے وہ اسے صدقہِ جاریہ سمجھتے ہوئے بغیر تصدیق آ گے پھیلاتا جاتا ہے۔

(جاری ہے)


اس حوالے سے ایک سے بڑھ کے ایک ویڈیو اور ہدایت نامہ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے جس میں دکھایا جا رہا ہے کہ باپ اپنے بچوں کے نزدیک نہیں جا رہا تو ماں بچوں کو پیار کرنے سے گریز کر رہی ہے۔

میاں بیوی ایک دوسرے سے دور ہیں تو بھائی بہن بھی سماجی فاصلے رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے بطورِاحتیاط تین سے چھ فٹ دوربیٹھے ہیں کہ کہیں ایک دوسرے سے وائرس منتقل نہ ہوجائے۔اور مسلسل ہدایات دی جارہی ہیں کہ آ پ کا بچاؤ صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب آ پ ایک دوسرے سے چھ فٹ کا فاصلہ رکھ کر ملیں گے ورنہ آپ اب کورونا وائرس کا شکار بنے کہ تب بنے۔

ایک خوف کی سی فضا ہر طرف پھیلی ہوئی ہے کہ خدا جانے کب کیا ہوجائے۔اور اس خوف کو ان ویڈیوز اور ہدایات کی شکل میں مزید ہوا دی جارہی ہے۔
اس حوالے سے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سماجی فاصلہ ہے کیا جس کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کن حالات میں رکھنا چاہیے اور کن لوگوں کو سماجی فاصلہ رکھنے کی ضرورت ہے ؟ یہ اہم سوالات ہیں جن کے جوابات جاننا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ ماحول پر چھایا یہ تناو کم ہو سکے اور لوگ خوف اور ڈر کی اس کیفیت سے باہر آ سکیں۔


اب تک کی تحقیق کے مطابق ، جیسا کہ ہم اپنے پچھلے کالموں میں عرض کر چکے کہ ،کورونا وائرس کا انتقال ایک مریض سے کسی بھی صحتمند شخص کو کسی بھی ذریعے سے ہوسکتا ہے چاہے وہ براہِ راست کھانسی یاچھینکنے سے ہو یا وائرس کے حامل شخص کا کسی چیز کو چھونے اور بعد ازاں صحتمند بندے کا اگلے چند گھنٹوں میں اسی چیز کو چھونے سے، یا کھانسی یا چھینک کی صورت میں وائرس کا ہوا کےذرات میں اگلے 3-7 گھنٹوں تک موجود رہنا اور اس فضا میں کسی صحتمند شخص کے سانس لینے سے وائرس کا اس میں منتقل ہونا۔

اب ایسی صورتحال میں اس سے بچاؤایک دوسرے سے فاصلے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔اسی کو سماجی فاصلہ یا social distancing نام دیا گیا ہے۔ سماجی فاصلے کا مطلب ہے ایک دوسرے سے عمومی میل ملاقات سے گریز ، ہاتھ ملانے یا گلے ملنے ،جیسا کہ ہمارے معاشرے کا عام چلن ہے، سے پرہیز۔اور وائرس کے ممکنہ انتقال سے بچاؤ کی خاطر ایک دوسرے سے دور سے بات چیت کرنا۔
اس ضمن میں یہ بات جاننا ضروری ہے کہ آپ کو سماجی فاصلہ رکھنے کی ضرورت کن حالات میں ہو سکتی ہے یا ہے۔

اگر آپ کے محلے یا گلی یا قریب میں کہیں کوئی کورونا وائرس کا مستند مریض موجود تھا یا ہے ، یا کسی بھی شخص میں کورونا وائرس کی علامات یا اس سے مماثل علامات پائی جائیں یااسے مشتبہ قرار دیا جائے ، حکومت یا صحت کے کسی ادارے کی جانب سے انھیں قرنطینہ میں رکھے جانے کی ہدایت کی گئی ہو۔یا آپ کے گھر یا گلی میں کسی کے گھر کسی کورونا وائرس والے علاقے سے کوئی مہمان آئے ہوں یا آپ کے گھر یا گلی یا علاقے میں کوئی ماضی قریب میں عمرہ سے یا کسی بھی اور ملک سے واپس آیا ہو ، ان تمام صورتوں میں آپ کو ان لوگوں سے سماجی فاصلہ رکھنے کی ضرورت ہے اور ایسے حالات میں سماجی فاصلہ رکھنا انتہائی ضروری اوروائرس سے خود کو محفوظ رکھنے کا اہم ذریعہ ہے۔


آپ کو سماجی فاصلے کی ضرورت کس شخص سے ہے۔تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ آپ کو ہر اس شخص سے سماجی فاصلہ رکھنے کی ضرورت ہے جوبلاضرورت گھر سے باہر آتا جاتا ہویا اس سے ملنے کوئی آپ کے گھر میں لاک ڈاون کے باوجود آجا رہا ہو بالخصوص ایسے حالات میں کہ آپ کے علاقے میں کہیں کورونا وائرس کے کسی مریض یا مشتبہ مریض کی اطلاع بھی موجود ہو،یا کوئی آپ کا عزیز باہر سے آپ کے گھر مہمان آئے ۔

ان سے آپ 3-6 فٹ کا فاصلہ برقرار رکھیے بالخصوص اگر ان میں کسی بھی قسم کی بخار، کھانسی یا سانس میں تنگی جیسی علامات یا ان سے ملتی جلتی علامات پائی جائیں۔ اور ایسے لوگوں سے گھر کے بزرگ اور وہ لوگ بھی فاصلہ رکھیں جو کسی پرانی chronicبیماری میں مبتلا ہیں اور ان کی قوتِمدافعت کمزور ہے کیونکہ نوجوان خود تو مضبوط قوتِمدافعت کی بنا پر کورونا ہونے کی صورت میں بھی ممکنہ طور پر جلد صحتیاب ہوجاتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے اگر گھرکا کوئی بزرگ، بڑی عمر کا فرد، یا ایسا فرد جو دمہ، دل کے مرض ، گردوں، سانس کے مرض یا کسی بھی ایسے پرانے مرض میں مبتلا ہو، خدانخواستہ کینسر یا ایسے کسی موذی مرض میں مبتلا ہو تو ایسے بندے میں کورونا وائرس کا ہونا جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

اس لیے اگرآپ کو گھر سے باہر اشیائے ضروریہ کی خریداری یا کوئی دوا وغیرہ لینے کے لیے جانا پڑتا ہے تو رستے میں ملنے والے ہر شخص سے ملاقات کے دوران بھی سماجی فاصلہ رکھنانہایت ضروری ہے تاکہ کورونا وائرس آپ کے ذریعے آپ کے گھر نہ داخل ہو سکے۔
اس کے علاوہ گھر کے جو افراد کام کاج کے لیے روزانہ کی بنیاد پر جاتے ہوں، انھیں چاہیے کہ واپس آنے کے بعد اچھی طرح سے ہاتھ دھوئیں، کپڑے تبدیل کریں ، نہائیں ،اور ممکن ہو تو سینیٹائزر کا استعمال کریں ورنہ عام حالات میں صابن سے ہاتھ اچھی طرح دھو لینا بھی کافی ہے۔

اور اگر انھیں کسی بھی قسم کی علامات محسوس ہوں تو وہ اپنے آپ خود کو کم ازکم ایک ہفتے کے لیے علیحدہ کر لیں اور سب سے سماجی فاصلہ رکھ لیں۔وگرنہ عام حالات میں گھر کے اندر رہنے والے افراد کو ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ رکھنے کی حاجت نہیں۔
یاد رکھیے اگر آپ پچھلے ایک ہفتے سے گھر میں موجود ہیں اور گھر کا کوئی بھی بندہ باہر نہیں آیا گیا نہ ہی کسی کو کسی بھی قسم کی علامات ہیں تو آپ محفوظ ہیں۔

آپ اپنے گھر میں موجود اپنے پیاروں اور خون کے رشتوں سے اسی طرح مل جل سکتے ہیں جس طرح پہلے ملتے تھے۔ آپ کو افرادِخانہ سے سماجی فاصلہ رکھنے کی ضرورت ایسی صورت میں ہرگزنہیں ہے۔ آپ اپنے بچوں سے ملیے ، انھیں پیار کیجیے ، ان کے ساتھ کھیلیے، والدین سے ، بھائی بہنوں سے روابط رکھیے جیسے آپ ہمیشہ سے رکھتے آئے ہیں،میاں بیوی ہیں تو معمول کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ اپنے روابط برقرار رکھیے اور اس مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھائیے۔

سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کا غیر ضروری استعمال کم سے کم کیجیے بالخصوص کورونا وائرس کے بارے میںآ پ اب تک پہلے ہی بہت کچھ جان چکے ہیں ، اس لیے اس بارے میں منفی خبروں پر توجہ نہ دیجیے۔یہ وائرس کیا ہے ، کہاں سے پھیلا ، اس کا علاج کیا ہوگا ، اس وائرس کی ساخت کیسی ہے ،ویکسین دریافت ہوگی یا علاج دریافت ہوگاوغیرہ وغیرہ ، آپ جان بھی لیں گے توعام معلومات سے زیادہ آپ کو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ مستند ڈاکٹر ہی علامات کی صورت میں علاج کرنے کا اہل ہوتا ہے۔ ایسی تمام باتوں کو ڈاکٹرز اور سائنسدانوں کے لیے چھوڑ دیجیے کیونکہ یہ انھی کا کام ہے اور مشہور کہاوت ہے ، جس کا کام ،اسی کو ساجھے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :