سول ملٹری کھچاؤ

جمعہ 18 ستمبر 2020

Faraz Ahmad Wattoo

فراز احمد وٹو

ایک دفعہ قائدِاعظم محمد علی جناح کسی محفل میں شریک تھے کہ چند نوجوان فوجی افسران ان سے ملے اور حکومت کی پالیسیسز پر تنقید کرنے لگے۔ قائدِاعظم نے انہوں سختی سے ٹوک دیا اور کہا کہ فوج کا کام سول حکومتوں کی پالیسیز پر تبصرہ کرنا نہیں بلکہ ان کی تابعداری کرنا ہے۔
جنرل ایوب خان نے اپنی آٹو بائیوگرافی "Friends Not Masters" میں لکھا ہے کہ جس دن انہوں نے کمانڈر ان چیف کا حلف اٹھایا‘ اسی دن سابق کمانڈر ان چیف آف پاکستان جنرل ڈگلس نے انہیں بتایا کہ کچھ ایسے فوجی افسران ہیں جو کہ فوجی حملے سے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

سو تھوڑے ہی عرصے میں1951ء میں لیاقت علی خان کی حکومت گرانے کی ایک فوجی سازش ناکام بنا دی گئی۔
ان دو واقعات کی روشنی میں یہ بات دنِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ پاکستانی فوج شروع دن سے ہی اقتدار پر قبضہ کرنے یا اس کے ساتھ جڑی رہنے کی خواہاں ہے۔

(جاری ہے)

جنرل ایوب خان نے 1951 کا سول حکومت پر فوجی حملہ ناکام بنا دیا تھا لیکن قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں دعوٰی کرتے ہیں کہ آخری زمانے میں غلام محمد کی بجائے فیصلے سکندر مرزا اور ایوب خان کرنے لگے تھے اور ان کا زیادہ وقت صدر کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے میں گزرتا تھا۔

خرابیِ صحت کے باعث غلام محمد کو چھٹیوں کے بہانے اقتدار سے علیحدہ بھی انہی دو شخصیات نے کیا تھا۔
اگر ہم نیتوں پر شک کیے بنا سول ملٹری کھچاؤ کا معائنہ کریں تو اصل مسؑلہ ملکیت کا ہے کہ پاکستان کا مالک اور سٹیک ہولڈر کون ہے؟ فوج کے ذمے چونکہ ملک کا دفاع اور سلامتی ہے لہٰذا وہ خود کو ملک کا مالک سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف پارلیمنٹ خود کو عوام کا ادارہ سمجھتے ہوئے خیال کرتی ہے کہ چونکہ پاکستان پاکستانیوں کا ہے اور ہم ان کے ووٹوں سے اس ادارے میں آتے ہیں، اس لیے اصل سٹیک ہولڈرز تو ہم ہیں۔

پارلیمنٹ میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں جبکہ فوجی ملکی سلامتی کے پہرے دار ہیں اور ریٹائر ہو کر ہی واپس جاتے ہیں۔
دونوں اداروں کی نیتوں کا حال تو اللہ ہی جانے لیکن دونوں ہی ملکی سلامتی اور فلاح و بہبود کیلیےکام کرتے ہیں۔ سیاسی راہنما جہاں خود کو ملک کیلیے ناگزیر سمجھ کر پارٹی میں ڈیموکریسی کی روح کو تکلیف دیتے ہیں‘ وہیں جرنیل کئی دفعہ سنگین حالات یا سیاستدانوں کی بد عنوانی کے سائے میں فوجی حکومت قائم کر لیتے ہے۔

ہماری تاریخ میں فوجی حکومت میں سیاستدانوں کو کرپٹ ثابت کر کے ان پر پابندیاں لگائی گئی ہیں‘ انہیں جلاء وطن کیا گیا ہے اور پھر کٹھ پتلی سیاستدانوں اور ٹیکنوکریٹس کے ذریعے حکومتی کام چلایا گیا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ بھی ہے کہ سیاستدان آمروں کی حکومتوں کا حصہ رہتے ہیں اور بعد میں عوامی مقبولیت ملنے کے بعد اصول پسند بن جاتے ہیں۔

یعنی شروع میں ڈیموکریٹک ویلیوز پر سمجھوتہ کرتے ہیں اور بعد میں انقلاب کے علمبردار بن جاتے ہیں۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں کوئی کمزوری ہے۔ یہ کمزوری ملک میں سرمایہ دارانہ اور جاگیرداری نظام کا ہونا ہے۔ بات سیدھی سی ہے کہ جیسا معیشی نظام ہو گا ویسا ہی سیاسی نظام ہو گا۔ جب پورے ملک سے عام باشعور پاکستانیوں کی بجائے سر پھِرے وڈیرے اور ان کے بچے منتخب ہوں گے تو ایک ایسا سیاسی نظام پیدا ہو گا جس میں سیاست Unethical اور Criminalised ہو جاتی ہے۔


جب عوامی نمائندے گلی محلوں کی بجائے محلات سے آئیں گے تو عوام کی چیخ و پکار پارلیمنٹ تک کیسے جائے گی؟ ایسے عوامی نمائندوں اور ان کے رشتہ داروں کے کوئی مسؑلے مسائل نہیں ہوتے لہٰذا انہیں پارلیمنٹ میں حقوق مانگنے کیلیے گلے پھاڑنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی۔ پچھلی ن لیگ کی حکومت میں 70 کے لگ بھگ ایسے ارکانِ قومی اسمبلی گئے ہیں جنہوں نے قومی اسمبلی میں ایک دفعہ بھی تقریر نہیں کی۔


ہمارے ملک کے سیاستدان، بیوروکریٹ اور جرنیل‘ سب اسی امیر طبقے کے نمائندے ہیں نہ کہ عوام کے نمائندے! اس کی وجہ نظام ہی ہے کیونکہ بیوروکریٹ اچھا کمائے گا تو اس کا بیٹا بھی بیوروکریٹ بن جائے گا لیکن ایک چھابڑی والا تو اپنے بچوں کو کھلا بھی نہیں سکتا‘ اچھی تعلیم و تربیت اور مستقبل دینا تو دور کی بات۔ سو ایسے لوگوں کے بچے مزدور بنتے ہیں یا سرکار کی نوکری کرتے ہیں۔


یہاں تک تو سیاسی نظام کی بات ہو گئی‘ دوسری طرف آمریت ایک طرح کا بادشاہی سسٹم ہی ہوتا ہے۔ آمر خود کو سپریم آتھورٹی سمجھتے ہیں۔ وہ سیاسی سرگرمیوں اور آزاد صحافت کے علاوہ آزاد عدلیہ پر بھی حملے کر دیتے ہیں۔ سول سپریمیسی ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے اور عام عوام پر وردی کا خوف طاری ہو جاتا ہے۔ تنقید کرنے والی زبانوں پر تالے لگا دیے جاتے ہیں اور سیاست کے نام پر کٹھ پتلی لوگ حکومت میں آ جاتے ہیں۔

یہ لوگ نہ ملک کے مستقبل کا سوچتے ہیں نہ مسائل کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ چھوٹے دماغ چھوٹے فیصلے کرتے ہیں جس سے پھوڑے پھنسی کا علاج ہو جاتا ہے لیکن دل کا عارضہ جان کے درپے رہتا ہے۔
اس وقت پاکستان رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 33واں جبکہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا 5واں بڑا ملک ہے۔ آبادی 23 کروڑ جبکہ رقبہ 9 لاکھ مربع کلو میٹر کے لگ بھگ ہے۔ اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔

صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تعلیم کے نام پر طلباء کی صلاحیتوں کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اور سماجی برائیوں نے انسانی حقوق کو پامال کرنا جاری رکھا ہوا ہے۔ بارڈرز دشمنوں اور دہشت گردوں کے نشانے ہر ہیں۔
ایسے حالات میں ضروری ہے کہ عوام کو ہی پاکستان کا مالک اور اللہ کو طاقت کا سر چشمہ مان کر ہر ادارہ اپنی ڈومین میں رہ کر ملک کیلیے کام کرے۔

کوئی خود کو ملک کیلیے لازمی خیال نہ کرے۔ ادارے خود کو اتنا ہی ذمہ دار تصور کریں جتنے وہ ہیں۔ حد پار ہو تو بڑے مسؑلے کھڑے ہوتے ہیں اور یہ ملک اور مسائل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کو ریفارمز اور معاشی ترقی کی ضرورت ہے اور وہ ریفارمز اور معاشی ترقی تب تک ممکن نہیں جب تک ملک میں سرمایہ دارانہ نظام ہے! جس دن عام آدمی اپنے لوگوں کے حقوق کی بات کرنے پارلیمنٹ تک پہنچ گیا‘ اس دن یہ سارے مسؑلے بھی خود بخود حل ہونے لگیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :