ہیوبرس

منگل 8 جون 2021

Farrukh Saleem

فرخ سلیم

ہیوبرس یونانی زبان لفظ ہے جس کا مطلب ایک پر غرور اور تکبرانہ عمل ہے جس سے دیوتا ناراض  ہوتے ہیں
ڈیوڈ اوون 1980ء میں برطانیہ کی سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کا لیڈر رہ چکا ہے پیشہ کے اعتبار سے  ایک میڈیکل ڈاکٹر ہے اور  نفسیات اس کا  شعبہء خصوصی ہے۔ اس نے ڈیوک میڈیکل سنٹر نارتھ کیرولینا کے ایک ماہرِ نفسیات جوناتھن ڈیودسن کے ساتھ مل کر ایک میڈیکل جرنل  "برین" میں ایک مضمون لکھا ہے کہ ہیوبرس  باا قتدار لوگوں  اور ان لوگوں کے لئے جو اقتدار میں رہ چکے ہیں ایک پیشہ وارنہ خطرہ ہے۔


گو کہ ہم  سیاستدانوں اور  بڑے بینکرز  کے بارے میں اکثر سنتے ہیں لیکن ہیوبرس کسی ایک پیشہ یا کم طاقت یا کم تر اقتدار رکھنے والوں تک محدود نہیں  ہے۔ ڈیوڈ اوون جو اب لاڑد اوون کہتا ہے کہ ہیوبرس  لغوی طور پر کسی بھی شخص کے دماغ میں جا سکتا ہے  اور سائنسدان ایک دن یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں  گے کہ ا س سلسلے میں دماغی کیمسٹری  میں ہونے والی تبدیلی کو نوٹ کیا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

لارڈ اوون نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ وہ خود بھی  محدود عرصے کے لئے اس عارضہ کا شکار رہ چکا ہے لیکن اپنی بیوی کے بھرپور تعاون سے  اس عارضہ پر قابو پا نے میں کامیاب رہا۔
اس مرض کی علامات مندرجہ ذیل ہیں
٭اپنی ذات اور شخصیت کے بارے میں غیر متناسب فکر وتردد
٭اپنی ذات، رائے اور قوتِ فیصلہ پر بے جا اعتماد
٭اپنے بارے میں  بہت زیادہ مبالغہ آمیز  اور خود کوبعض معاملات میں قادر مطلق سمجھنا
٭زمینی حقیقتوں سے ناطہ توڑ کر اپنی تصوراتی دنیا میں تنہا  رہ جانا
٭بے چین اور حساس شخصیت
٭اس بات کا یقین کہ کہ کوئی بھی شخص صرف تاریخ یا خدا کو جواب دہ ہے
اس حوالے سے دیکھا  جائے تومقبول  عوامی لیڈر اس  عارضہ کا  بہت زیادہ شکار  ہوتے ہیں۔

ان کو  اس کے اثرات سے بچانے کے لئے  عوامی عمل کو بہتر اور سخت  بنانے کی ضرورت ہے۔
با اختیار لوگوں کو انکی حدود میں رکھنے اور ان کے احتساب کو موثر بنانے  کے لئے لارڈ اوون کی تحقیق ایک عملی  بنیادد فراہم کرتی ہے۔ لیکن  دیکھا جائے تو سرکاری افسران اور بیوروکریسی کواس بیماری میں مبتلاء کرنے کے وسائیل خود عوامی  پیسوں سے مہیا کئے جاتے ہیں۔

سرکاری عمارات دیکھ لیں، وزیروں، مشیروں اور بیورو کریٹ، اور دیگر افسران کے دفاتر اور کرو فر دیکھ لیں۔ ان کی گاڑیاں اور پروٹوکول ریکھ لیں۔ اس طرح کے کلچر کی موجودگی میں  آپ ان حضرات سے کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ یہ ہیوبرس کا شکا ر نہیں ہو نگے۔
ہیوبرس کا دائرہ کار صرف سیاستدانوں یا بیورو کریٹس تک محدود نہیں ہے بلکہ دیکھا جائے تو اس کا دائر کار بہت پھیلا ہوا ہے اور اس میں  دانشور، کھلاڑی، فنکار، قلم کار، بزنس مین، سماجی کارکن اور علماء کرام سب ہی شامل ہیں۔

(ایسے علماء کرام کے لئے بعض دفعہ علماء سو کی  اصطلاح بھی استعما ل کی جاتی ہے)
اسی طرح ہیوبرس کسی خاص قومیت، نسل، رنگت، زبان، جنس، کلچر یا زبان تک محدود نہیں ہے۔ جسے بھی قدرت کی طرف سے  عام لوگوں کے مقابلے میں کچھ بہتر وسائیل میسر آجاتے ہیں چاہے وہ صورت شکل ہو، رنگت ہو، عمدہ صحت ہو، اچھا خاندانی پس منظر ہو، مال و دولت ہو،  اعلیٰ تعلیم ہو، قابلیت ہو، معاشرے میں ممتاز حیثیت حاصل ہو، فنونِ لطیفہ یا ادب اورآرٹ کے حوالے سے بہتر فنکارانہ صلاحیتیں ہوں،یا شہرت ہو تو ایسے شخص کے ہیوبرس کا شکار ہونے کے زیادہ امکانات  ہوتے ہیں۔

خود شناس  اور اپنی اصلاح  پر وقت صرف کرنے والے لوگ اس سے بچنے کی  پور ی کوشش کرتے ہیں اور اکثر کامیاب رہتے ہیں۔
اب سے کافی پہلے برصغیر کے مشہور فنکار دلیپ کمار نے اپنے ایک انٹرویو میں اسی بات کو ذرا مختلف پیرائے میں بیان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ شہرت بذاتِ خود ایک بہت موذ ی  بیماری ہے اور اس سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں بے غرضی کے ساتھ وقت صرف کریں۔


حکمرانوں کے لئے ایسے مخلص لوگ  بہت کارآمد لوگ ہیں کیونکہ انکے ارد گرد عموماً موقع پرست، خوشامدی اور چاپلوس لوگوں کامجمع لگارہتا ہے۔
ہیوبرس کی تشخیص تو میڈیکل سائینس میں تو اب ہوئی ہے لیکن  ہمارے  اپنیے کلچر میں  اسے ذہنی مرض کا درجہ بہت پہلے دے دیا گیا تھا۔ وہ لوگ جو اپنی بہتر سماجی حیثیت کی وجہ سے دوسروں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے، ان کے متعلق کہا جاتا تھا کہ دماغ میں کیڑا ہے یا دماغ خراب ہو گیا ہے۔


ہوبرس کینسر کی طرح ایک چور بیماری ہے جس کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب مرض بہت پھیل چکا ہوتا ہے۔ اسے ہم ایک طرح کا دماغی کینسر کہہ سکتے ہیں۔ لیکن بہر حال یہ کینسر کی طرح لا علاج مرض نہیں ہے۔
 اس بیماری کے ساتھ مشکل یہ ہے کہ اس کی ابتداء انسان کی اچھی خصوصیات سے ہوتی ہے۔ حوصلہ مندی، فنِ خطابت اور خود اعتمادی اچھی خصوصیات میں شمار ہوتی ہیں لیکن ان ہی سے ہیوبرس کی ابتداء ہو سکتی ہے کہ انسان ان ا چھی خصوصیات کی وجہ سے خود کو لوگوں سے ممتاز اور دوسروں کو کمتر سمجھنا شروع کر دیتا ہے
ہیوبرس کے حوالے سے ہمیں خود اپنی ذات کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور اپنے قریبی لوگوں کو  اس بات کی دعوت دینے رہنا چاہئے کہ وہ ہماری ذات میں موجود کمزوریوں کی نشاندہی کرتے رہیں تاکہ ہم ان پر قابو پا سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :