انصاف کا حصول جدوجہد مسلسل

ہفتہ 12 جون 2021

Fazal Abbas

فضل عباس

انصاف برابری کی نشاندھی کرتا ہے جہاں پر برابری ہو کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو وہاں پر انصاف کا بسیرا ہوتا ہے جس معاشرے میں انصاف سرائیت کر جائے وہ معاشرہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جاتا ہے اور جس معاشرے سے انصاف ختم ہو جائے وہ زوال پذیر ہو جاتا ہے
جب انصاف کے حصول کی بات آتی ہے تو مختلف معاشروں میں اس کے مختلف اصول ہیں وہ معاشرے جہاں  امیر اور غریب برابری کی سطح پر رہتے ہیں وہاں انصاف کا حصول قدرے آسان ہوتا ہے جبکہ وہ جگہیں جہاں امیر اور غریب میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے وہاں انصاف کا حصول نا ممکن سا لگتا ہے
اگر ہم اپنے پیارے ملک پاکستان کی بات کریں تو افسوس کے ساتھ یہاں آوا کا آوا بگڑا ہوا ہے یہاں امیر اور غریب کے درمیان بہت زیادہ فرق پیدا ہو چکا ہے غریب غربت کی چکی میں پس رہے ہیں اور امیر عیاشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں
بطور پاکستانی میرے لیے یہ امر افسوسناک ہے کہ وہ ملک جہاں میں رہتا ہوں وہاں انصاف کا نظام اس قدر کمزور ہے کہ غریب انصاف حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگی کی جمع پونجی تک خرچ کر کے بھی انصاف سے محروم رہتے ہیں اور امراء اپنی دولت کے بل پر انصاف کی تزلیل کرتے ہوئے من چاہے فیصلے لکھوا لیتے ہیں
پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد ہی ملک میں جاگیردار اور صنعت کار طبقے کی حکمرانی آ گئی اور ملک تباہی کے دہانے پر جاتا رہا
جاگیردار طبقے نے اپنے مفاد کے لیے قانون کا استعمال شروع کیا یہاں سے انصاف کے نظام کی خرابی شروع ہوئی اور انصاف امیر کے لیے مذاق اور غریب کے لیے نا قابل حصول بنتا چلا گیا
آج پاکستان میں انصاف مذاق بن چکا ہے امراء مہنگے مہنگے وکیلوں کے ذریعے من چاہے فیصلے کروا لیتے ہیں جبکہ غریب کے پاس وکیل کو دینے کے لیے فیس تک نہیں ہوتی وہ بیچارہ زندگی بھر کی کمائی وکیلوں کی نظر کر بیٹھتا ہے لیکن پھر بھی امراء کی دولت کے آگے بے بس نظر آتا ہے
اگر ریاست مدینہ کے نظام انصاف کی بات کی جائے تو وہ مثالی نظام ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو عملی طور پر انصاف کر کے دکھایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر غریب کے فرق کو ختم کیا اور انسانوں میں برابری قائم کی ایک مرتبہ آپ (ص) نے فرمایا:
"میں تم لوگوں کے درمیان انصاف کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں"
اس طرح مولا علی علیہ السلام کے دور خلافت کا ایک شاندار واقعہ ملتا ہے جہاں آپ نے ایک زرہ کے مقدمے میں باوجود اس کے کہ آپ علیہ السلام حق پر تھے  اپنے خلاف فیصلہ قبول کیا
لیکن ہم اپنے آباؤ اجداد کی تعلیمات بھلا کر سراط مستقیم سے بھٹک چکے ہیں ہمارے ہاں آئین و قانون نامی کوئی چیز نہیں یہاں رشوت خوری عام ہو چکی ہے یہاں انصاف بکتا ہے یہاں منصف بکتے ہیں یہاں انصاف کی بولی لگتی ہے
یہاں انصاف بکتا ہے یہاں فرمان بکتے ہیں
زرا تم دام تو بدلو یہاں ایمان بکتے ہیں
لیکن ہمیں ہمت نہیں ہارنی اور اباؤ اجداد کے اسلاف کو محنت کے ذریعے حاصل کرنا ہےکیوں کہ انسان کو کبھی بھی کوئی چیز بغیر محنت کے نہیں ملتی انصاف کا حصول ایک کٹھن اور مشکل راہ ہے لیکن اسے حاصل کرنا بالکل بھی ناممکن نہیں ہےاس کے لیے صرف ہمت اور جہد مسلسل چاہیے
جب انسان کسی چیز کو پانے کی ٹھان لے اور اس کے لیے دل سے محنت کرے تو اللہ تعالیٰ اسے محنت کا صلہ ضرور دیتا ہے اور انسان وہ چیز حاصل کر ہی لیتا ہے
اس ساری تحریر کا مقصد یہ باور کروانا ہے کہ انصاف کا حصول کانٹوں کی سرزمین ہی صحیح لیکن قابل حصول ہے اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو انصاف کے لیے لڑنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
بقول شاعر
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
وہ کون سا عقدہ ہے جو واہ ہو نہیں سکتا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :