یک طرفہ تعلق

ہفتہ 31 جولائی 2021

Fazal Abbas

فضل عباس

یہ بات واضح ہے کہ انسان انسانوں سے جدا نہیں رہ سکتا انسان نہ صرف انسان کی ضرورت بلکہ مجبوری ہے انسان کو ایسے انسانوں کی ضرورت ہوتی ہے انسان کا سب سے بڑا سہارا اللہ تعالیٰ کے بعد انسان ہوتا ہے
انسان انسان کا سہارا ہونے کے ساتھ دکھ اور تکلیف کی سب کی سب سے بڑی وجہ ہے بعض اوقات انسان بغیر چاہے کسی شخص کے اتنا قریب ہو جاتاہے کہ وہ چاہتا ہے کہ اپنی ہر بات اس کو بتائیں انسان انسان کی قربت چاہتا ہے ایسی حالت میں انسان اس سے بات کرنا چاہتا ہے لیکن کیا یہ ممکن ہوتا ہے؟ اگلا انسان بھی ایسا چاہتا ہے؟ شاید نہیں
یہاں سے تکلیف کا احساس شروع ہوتا ہے کہ جس شخص کے لیے آپ دن رات انتظار کرتے ہیں وہ آپ سے بات ہی نہیں کرنا چاہتا اس طرح اس تعلق کا آغاز ہوتا ہے آپ اس کے قریب ہوتے جاتے ہیں وہ آپ کو نظر انداز کرتا جاتا ہے
اس حالت میں انسان کو بعض اوقات معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت یہی ہے کہ وہ شخص نہیں آپ اس کے قریب ہیں لیکن اس کے باوجود ایسے انسان خود کو دھوکا دیتے ہیں ایسےانسان سمجھتے ہیں ایسا نہیں ہے حالانکہ ایسے انسان جانتے ہیں کہ ایسا ہی ہے یہ مرحلہ خود کو تکلیف دینے کا ہے انسان نہ چاہتے ہوئے خود کو تکلیف دیتا جاتا ہے اسے پتا ہوتا ہے کہ وہ غلط کر رہا ہے لیکن وہ غلطی کو سدھارنے کی کوشش نہیں کرتا وہ دکھ اور اداسی کی اس دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے آہستہ آہستہ اس کی حالت اس کے قریبی لوگوں پر عیاں ہوتی ہے وہ پھر بھی ان دکھوں سے نکلنے کی بجائے ان دکھوں سے پیار کرنے لگتا ہے وہ ہنستا ہے تو دل سے آواز آتی ہے کہ یہ مسکراہٹ تو نہیں یہ تو دھوکا ہے اور یہ دھوکا انسان خود کو دیتا ہے
انسان اس غلطی پر ثابت قدم رہتے ہوئے دکھوں کو اپنا زیور بنا لیتا ہے ہر وقت اس کے بارے میں سوچتا ہے جو اسے نظر انداز کرتا ہے مزے کی بات وہ چاہتا ہے کہ کبھی بات نہ ہو اور یہ چاہتا ہے ہر وقت اس سے بات ہو
اس طرح آہستہ آہستہ انسان اپنے جذبات کو قتل کر دیتا ہے انسان کے جذبات اس کے مرہون منت ہوتے ہیں جس سے وہ ہر وقت بات کرنا چاہتا ہے
اس حالت میں انسان اپنے احساس سے عاری ہو جاتاہے اسے احساس ہوتا ہے لیکن اس کا جس وہ خود کے قریب سمجھتا ہے یہ بھی عجیب حالت ہوتی ہے کہ وہ انسان جسے خود سے زیادہ کوئی عزیز نہیں تھا آج وہ خود سے دشمنی کر بیٹھا اسے پتا ہی نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اپنی حالت جاننے کے باوجود خود سے انجان بنا رہتا ہے خود کو تکلیف دے کر چہرے پر مسکراہٹ لانے کی کوشش کرتا ہے
انسان اس انسان کے دوستوں کو بھی اپنے قریب سمجھنے لگتا جسے وہ اپنا سمجھتا ہے انسان چاہتا ہے کہ جو تکلیف ملے مجھے ملے اس پر آنچ نہ آئے وہ خوش رہے اس کے ساتھ جڑے سارے رشتے چاہے خون کے رشتے ہوں یا دوستی کے سب خوش رہیں
انسان اس میں کامیاب ہو جاتا ہے اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ کر چاہتا ہے کہ وہ صدا خوش رہے وہ مسکراتا رہے اس کے چہرے پر اداسی کے شکن نظر نہ آئیں اس کے سارے دکھ میرے اور میری ساری خوشیاں اس کی ہو جائیں
انسان اس طرح اپنی ذات بھولنے لگتا ہے اسے پتہ نہیں چلتا لیکن وہ خود پر اختیار کھو بیٹھتا ہے وہ خود کو یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ انسانوں کی طرح زندگی بسر کر نہ ڈال خود کو اذیت میں
وہ اپنے آپ کو بھلا چکا ہوتا ہے اسے اپنی ذات سے کوئی غرض نہیں رہتی اس کی خوشی غمی سب اس شخص سے منسلک ہو چکی ہوتی ہے
دراصل یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب انسان دنیا کے سامنے ہوتا ہے مسکراتا رہتا ہے تنہا ہو تو آنسو اس کا مقدر ہوتے ہیں آنسو سے بھی عجیب دوستی ہوتی ہے جب سب چھوڑ جائیں تو آنسو آپ کے پاس آتے آپ کا غم بانٹتے ہیں یہی اس حالت میں ہوتا ہے جب اس کی طرف سے انسان ٹھکرا دیا جاتا ہے تو تنہائی کے وقت یہی آنسو ہوتے ہیں جو آ کر دکھ بانٹتے ہیں
ایسے انسان ہنستے غم کی تصویر ہوتے ہیں آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسا انسان ہے جسے ہنستا غم نظر آتا ہے ہنستا غم وہ غم ہوتا جب آپ کا درد آپ کی مسکراہٹ میں چھپ کر بھی عیاں ہوتا ہے یہ صرف انسان کے قریب موجود لوگوں کو نظر آتا ہے ہر کوئی اس غم کو دیکھنے والی نظر نہیں رکھتا
اس طرح انسان لاچار ہو جاتا ہے انسان خود پر بھی کوئی زور نہیں ڈال سکتا اور دوسرے انسان پر بھی اختیار نہیں رکھتا اس طرح ایک ہنستا ہوا شخص غموں کی دلدل میں دھنس کر اپنی خوشیاں کھو بیٹھتا ہے اس دعا کے ساتھ اس تحریر کا اختتام کروں گا کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو دوبارہ خوشیاں نصیب کرے چاہے وہ اس شخص کا ساتھ ملنے سے ہو یا کسی اور وسیلے سے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :