صحافت اور صحافی کا کردار

اتوار 28 جون 2020

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

یوں تو کرہ ارض میں پیغام رسانی اور اپنی معلومات پہنچانے کا نظام ازل سے جاری ہے۔۔
زمان قبل لوگ جب لوگوں نے بولنا نہیں سیکھا تھا تو اشارے میں پیغام رسانی شروع کی تاکہ اپنا میسج دوسروں تک پہنچایا جا سکے۔۔ پھر اس نے تھوڑی ترقی کی تو زمیںوں پر آڑھی ترھی لکیروں کے ذریعے دوسروں کو سمجھانا شروع کیا۔۔ پھر زبان کا آغاز ہوا زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پیغام پہنچانے کے لئے منادی کا طریقہ کار اختیارجو کہ ایک مخصوص قسم کا ڈھول بجا کر لوگوں کے  ہجوم کو اکھٹا کر کے پیغام دیا جائے تاکہ وہ اس پیغام کو دوسروں تک پہنچا سکیں۔

جیسا کہ ہم بادشاہت کے ادوار میں دیکھتے ہیں۔ پھر ایک دور شروع ہوا جب لکھنے پر توجہ دی گئی اور پیغام کو مختلف پھتروں اور اور پتوں میں لکھ کر مختلف جگہوں میں لٹکا دیا جاتا جاتا تھا تاکہ ہر خاص و عام اس پیغام کو پڑھ سکے۔

(جاری ہے)

۔ اس حوالے سے مختلف دور کے مذہبی مقامات جہاں عوام کا زیادہ رش ہوتا تھا مقرر کیا گیا۔۔۔۔۔ صحافت کوحقیقی معنوں میں اس دور میں عروج ملا جب خطوط لکھے جانے لگے۔

۔۔۔۔ اگر موجودہ حالات کا موازنہ کیا جائے تو پیغام رسانی کے طریقہ کار اتنے ترقی یافتہ ہوچکے ہیں کہ دنیا کے ایک کونے میں بیھٹا ہوا شخص چند منٹوں میں اپنا پیغام دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچا سکتا ہے جسے اگر یوں کہاں جائے کہ ہم زمیں و مکاں کی حدود سے نکل چکے ہیں تو بے جا نا ہوگا۔۔
موجودہ دور میں اگر ڈمی اخبارات کو نکال بھی دیا جائے تب بھِی اخبارات و جرائد کی ایسی تعداد موجود ہے جو لاکھوں میں گنی جاسکتی ہے۔

۔ ان اخبارات میں صحافی کا کیا کردار ہوتا کہ  حقیقت پرمبنی رپورٹ بنائی جائے لوگوں کے مسائل حکام بالا تک پہنچائے جائیں۔۔ معاشرے میں ہونے والے ایسے واقعات جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو جیسا کہ چوری، ڈکیتی، منشیات یا دیگر غیر قانونی کام ۔ عوام کے جائز مسائل میں سرکاری اداروں کا رشوت طلب کرنا، یا کسی بھی ظلم کو اجاگر کرنا شامل ہوتا ہے۔

۔ تاکہ معاشرے کی ان خرابیوں کو حکام بالا تک پہنچایا جا سکے۔۔
موجودہ دور میں ہر شخص کی کسی نا کسی سیاسی جماعت سے وابستگی یا انسیت ایک لازمی امر ہے مگر اس بات کا دھیان رکھا جائے کے صحافی کبھی بھی سیاسی نہیں ہوتا اور جو سیاسی ہوتا ہے صحافی نہیں بن سکتا۔۔ ذاتی پسند اور نا پسند کو بالائے طاق رکھ کر حقیقی معنوں میں رپورٹ بنانی چاہئے جس کا فیصلہ عوام کو کرنا ہوتا ہے نا کہ خود کوئی فیصلہ سنا دینا۔

۔ کیونکہ صحافی کا مقصد صرف اور صرف معاشرے میں چھپی خرابیوں کو اجاگر کرنا ہوتا ہے ناکہ ذاتی  فیصلہ سنا دینا۔۔۔۔ اچھے صحافی کا  عمل بالکل غیرجانبدارانہ ہو کیونکہ اس کا کام معاشرے کی خرابیوں کو سامنے لاکر حکام بالا سے اس کا سدباب کروانا ہوتا ہے۔۔ موجودہ دور میں خاص کر ہمارے پاکستان کی صحافت میں چند ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کہ علاقے میں اپنا دبدبہ یا پھر ناجائز کام کروانے کے ساتھ ساتھ اداروں سے اپنا کام نکلوانے کے لئے اس معزز شعبہ کو بدنام کرنے میں اپنا رول ادا کرتے ہیں۔

۔ مگر صرف اس بناء پر تمام صحافی برادری کو مورد الزام ٹھہرانا کسی طور پر جائز نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے افراد ہر ادارے میں موجود ہیں۔۔ یہ ان کا انفرادی عمل تو کہلا سکتا ہے مگر اجتماعی عمل نہیں ہوتا۔۔
چونکہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے اور اسی آزاد صحافت کے کے باعث لوگوں میں تحفظ کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔۔ جہاں لوگ اپنے جائز کاموں کے لئے پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے پاس جانے سے کتراتے ہیں وہیں وہ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لئے واحد سہارا صحافی ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :