مشرق وسطیٰ کا پس منظر

بدھ 24 فروری 2021

Ghulam Mustafa Haziq

غلام مصطفیٰ حاذق

اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ مڈل ایسٹ یا مشرق وسطی ہمیشہ سے ہی حق و باطل کی قوتوں کا میدان جنگ بنتا آیا ہے اور تا حال یہ صورت حال اب بھی جاری و ساری ہے ۔مسلمانوں کا قبلہ اول اور قبلہ دوم اسی خطے میں ہونے کی وجہ سے یہ خطہ کچھ ذیادہ ہی یہود وہنود کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے جیسا کہ اسلامی حوالوں سے ثابت ہے کہ یہود و ہنودکبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے۔

مشرق وسطی معدنی تیل کی دولت سے بھی مالامال ہے اور مشرق وسطی کی اس خوبی کی وجہ سے بھی یہود و ہنود کی رال ٹپکتی ہے گورے کی فطرت میں ہی سکون نہیں ہے وہ خود کو ارفع و اعلی سمجھنے کے ساتھ ساتھ دنیا کی ہر نعمت پر خود کا حق متصور کرتا ہے۔تاریخ شاہد کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کبھی بھی اپنے سے برابری کرنے والے ممالک سے مصالحت نہیں برتی ،اسے گر بھنک بھی پڑجائے کہ فلاں ملک اس سے معیشت یا ایٹمی ٹیکنالوجی میں آگے نکل جائے گا تو اس کے اوسان بحال ہونا ناممکن ہو جاتے ہیں اور اس کی رگیں پھولنا شروع ہو جاتی ہیں کہ کوئی پسماندہ ملک ان کی برابری کرے ( گر وہ کوئی مسلم ملک ہو تو پھر ان کا اتحاد اسلامی ملک کے خلاف دیکھنے لائق ہوتا ہے )تو مزکورہ ملک کے اقدامات کو عالمی جنگ کا پیش خیمہ قرار دیا جاتا ہے اور اقوام متحدہ میں اس ملک کے ایٹمی اثاثہ جات کی چھان بین کی سفارش کی جاتی ہے اور پھر اقوام متحدہ سے منظوری کی صورت میں عراق جیسا ملک نشانہء عبرت بنا دیا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

حالانکہ عراق سے رتی برابر بھی ایٹمی مواد برآمد نہیں ہوا جبکہ ایران ایٹمی پاور ہونے کے باوجود امریکہ کے تلاشی کے اقدام کی نفی کرتا ہے اور سینہ ٹھونک کر جواب دیتا ہے (وقت نے ثابت کیا کہ ایران نے بہترین اقدام کیا حالانکہ بین القوامی تجزیہ نگار یہی سمجھ رہے تھے کہ امریکہ جوابی کاروائی لازمی کرے گا) اور پھر امریکی اتحاد کی سوائے بیان بازی کے علاوہ کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ماسوائے مزکورہ ملک میں اندرونی خلفشار اور ریشہ دوانیوں برپا کر کے اسے کمزور کرنے کے اور بیشتر ممالک میں خاص طور پر مشرق وسطی کی ریاستوں اور ممالک میں امریکی اتحاد اسی ایجنڈے پر عمل پیرا دکھائی دیتا ہے۔

امریکی اتحاد نے گر کسی سے دوستی بھی کی تو بنا غرض کے نہیں کی ہمیشہ ہی اپنے مفادات کو ترجیح دی اور جب مفاد نہ ملا تو ،،تم کون اور میں کون،، والی پالیسی پر عمل پیرا ہوگیا اور اپنی نوازشات کے احسانات کا تزکرہ شروع کردیا، جو نوازشیں درحقیقت صرف اپنے کام نکلوانے کی مد میں دی جائیں ان کو نوازشیں کہنا ہی سراسر غلط ہے۔
جہاں مشرق وسطی بلاشک و شبہ مسلمانوں کے لیے متبرک و مقدس ترین خطہ ارض ہے وہاں اقوام عالم کے لیے نشان عبرت بھی ہے۔

حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مشرق وسطی میں کبھی بھی سکون ہوتا نظر نہیں آتا،پوری دنیا میں اسی خطے میں انتشار اور خانہ جنگی کی کیفیت طاری دکھائی دیتی ہے۔مشرق وسطی ایران سے شروع ہوتا ہوا عراق،لیبیا،شام،مصر،ترکی،قبرص ،فلسطین،اسرائیل،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،کویت،عمان،قطر ،جورڈن،بحرین اور یمن پر اختتام پزیر ہوتا ہے یعنی مجموعی طور پر ہم مشرق وسطی کو خطہء مسلم کہیں تو بے جا نہ ہوگا ۔


مشرق وسطی کے ممالک کایکے بعد دیگرے اندرونی خلفشار ،بیرونی جنگ،خانہ جنگی یا ریشا دوانیوں کا شکار ہونا کیا محض اتفاق ہوسکتا ہے؟ گر اتفاق بھی تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیں تو پھر ایسا خونچکاں اتفاق وہ بھی بارہا․․․․․․․․․اسی خطے میں ہی کیوں؟بلا شک و شبہ یہ ایک سوچی سمجھی ،گھمبیر وبھیانک سازش کا عملی شاہکار ہے جو سو فیصد اسلام دشمن قوتوں نے مل کر ترتیب دیا ہے اور یہ قوتیں اتنی پیچیدہ اور گھناؤنی سازش ترتیب دے چکی ہیں جو ان میں نسل در نسل منتقل ہونے کی وجہ سے جنون بنتی جارہی ہیں یعنی اسلام دشمنی ان کی آنے والی نسل میں وراثتی طور پر منتقل ہورہی ہے۔

یہ تو بے شک اٹل حقیقت ہے اور اسلام نے ہمیشہ آگاہ کیا ہے کہ یہود و ہنود کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے،اس بات سے اسلام دشمن قوتیں ہم سے بھی زیادہ جانکاری رکھنے کے باعث ہمیشہ ہم سے دس قدم آگے رہتی ہیں لیکن حیرت ہے ہم یہود و ہنود سے دوستی کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں جبکہ صیہونی طاقتیں ہمیں ملیا میٹ کرتے میں فخر محسوس کرتی ہیں کتنا فرق ہے ہماری اور ان کی سوچ میں۔

ہماری مثبت سوچ کو ملاحضہ فرمائیں کہ ہمارے مسلم حکمران جن کو ہمارے لیے ایک مثال بن نا چاہئے وہ اپنے دشمن بھائیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے دنیا کا سب سے بڑا مندر بنا کرحال ہی میں گفٹ کر چکے ہیں ۔دنیامیں ایک مسجد بناکر اللہ کی راہ میں وقف کرنے سے گر جنت میں محل کی بشارت ہے تو پھر ایک مندرجو کہ غیر خدا کے لیے بنایا جاتا ہے جس میں پتھر کے بتوں کی پوجا کی جاتی ہے اس کو راہ غیر میں وقف کرنے کا کتنا بڑا اجر و ثواب ہوگا سوچ کے ہی جھر جھری آجاتی ہے ۔

مختصر یہ کہ مشرق وسطی ،یہو د و ہنود کی سازشوں تلے دب ہی نہیں چکا بلکہ وہ ہمارے ارباب اختیار سے من پسند فیصلے کروانے میں بھی ید طولی رکھتے ہیں جس کے تدارک کے لیے مسلم امہ کو بھی اجتماعی سوچ کی اور نسل در نسل اپنے تحفظ وتقدس کی بقاء کے لیے رہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔
یہود و ہنود کا مقصد مشرق وسطی کے وسائل پر قبضہ کرنے کے علاوہ اسرائیل کو تقویت اور مضبوطی بخشنا ہے یہ ایک اتنا بھیانک اور خوفناک منصوبہ ہے جس پر یہ کئی نسلوں سے عمل پیرا ہیں اور اس صیہونی منصوبے کی پاداش میں کئی مسلم ریاستیں نہ صرف اپنا وجود کھو رہی ہیں بلکہ آئے روز کمزور سے کمزور ہورہی ہیں کہ ان میں اپنی بقاء کے لیے بھی سکت دکھائی نہیں دیتی ۔

عالم اسلام کی بے حسی ملاحضہ فرمائیں کہ مسلمان ریشہ دوانیوں کا شکار ہو کر آپس میں الجھ رہے ہیں جن کی ثالثی کے لیے کوئی بھی مسلم ریاست اپنا کردار ادا نہیں کر رہی ماسوائے ترکی کے جو نہ صرف سفارتی سطح پر تو اپنے بیانات سے ایک مسلم اور زندہ قوم ہونے کا ثبوت دے رہا ہے بلکہ شام کے حقوق کے لیے وہ کھل کی سامنے آیا ہے۔ صیہونی بھیانک منصوبے کو ملیامیٹ کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ مسلم ریاستیں باہم متحد ہو کر اس صیہونی یلغار کا مقابلہ کریں لیکن ایسا کبھی ہوتا نظر نہیں آتا، فرقہ واریت کی خلیج ان میں سمندر سے بھی گہری ہے جس میں مسلمانوں کی عقل بھی ڈوب چکی ہے کہ یہ اتنا بھی سوچنے کے قابل نہیں رہے کہ دشمن طاقتیں مختلف مذاہب کا مجموعہ ہونے کے باوجود ان کو مارنے کے لیے اکٹھے ہیں اور یہ بدقسمت مسلمان اپنا دفاع کرنے کے لیے بھی ایک نبی ﷺکی امت ہونے کے باوجود اکٹھے نہیں ہوسکتے اور مسلسل فرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں اور دشمن کا آسان ہدف ثابت ہورہے ہیں گر مسلم ریاستوں کی پالیسی ایسی ہی رہی تو مشرق وسطی کی ساری ریاستیں باری باری صیہونی طاقتوں کا شکار بن نے کے لیے تیار رہیں کیوں کہ اسلام دشمنوں نے اس منصوبے کی آبیاری کئی نسلوں سے کر رکھی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں شدت آتی جارہی ہے اور گریٹر اسرائیل بنانے میں جو بھی طاقت مانع ہوگی یہ اس کا مل کر مقابلی کریں گے ۔

گریٹر اسرائیل بنانا ان کا نصب العین ہے اور ان کو اپنے مسیحا(دجال) کا انتظار ہے جس کی وجہ سے یہ جلد از جلد اسرائیل کو وسیع اور مضبوط بنانے کے درپے ہیں۔اسرائیل کی مضبوطی، مسلم ریاستوں کی کمزوری اور تباہی سے مربوط ہے۔ اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے اور ہمیں فرقہ پرستی سے نکل کر متحد ہونے اور ایک دوسرے کے لیے باعث تقویت بن نے کی توفیق دے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :