کاش کہ تیرے دل میں اتر جائے مری بات

ہفتہ 27 فروری 2021

Ghulam Mustafa Haziq

غلام مصطفیٰ حاذق

راقم لب کشائی کرے تو گراں گزرتی ہے بندہ کرے بھی تو آخر کیا کرے، رہ بھی نہیں سکتے جو سچ سینے میں موجزن ہے اسے اگلنا ہی پڑتا ہے بصورت دیگر راقم کی حالت پتلی ہوجاتی ہے ، خمیر ہی کچھ ایسا ہے،تو جناب خان صاحب امید ہے کہ ضمنی الیکشن نے بہت کچھ سوچنے ، سمجھنے پہ مجبور کردیا ہوگا عوام کا عدم اعتماد وہ بھی نئی حکمران جماعت پر، بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے درحقیقت یہ ضمنی الیکشن آپ کی جماعت کی کارکردگی کا اک آئینہ ہے مطلب کہ آپ کی کارکردگی ٹھیک نہیں(ایسا بھی نہیں)،تو پھر کیا وجہ ہوسکتی ہے،خان صاحب بہتر ہوتا گر پہلے ہی اپنی مشاورتی کونسل کی باتیں حرف آخر سمجھے بنا آپ نے اپنے دل کی بھی سنی ہوتی اور غریب ، مسکین عوام کا بھی خیال کیا ہوتا۔

آپ کی جادوئی تقاریر کو دھیان میں رکھیں تو ایسا ہی لگتا ہے کہ سب کو کچھ دیکھ،جان کر آپ انجان نہیں بن رہے تو پھر۔

(جاری ہے)

۔۔۔ اس میں آپ کی مشاورتی کونسل کا قصور ضرورہے جن کے مشورے کے مطابق راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے اور آپ بے فکر ہیں۔خدارا بے فکری چھوڑیے اور اس طوفان کے آگے بند باندھئیے جو جلد یا پزیر آپ کی دھلیز پر ہوگامطلب گر آپ سب اچھا ہے کی گردان ہی سنتے رہے تو پھر غریب عوام جن کے ووٹ کا حجم سب طبقات سے زیادہ ہے وہ وہی کریں گے جو ابھی حالیہ ضمنی الیکشن میں ہوا۔


ایک عالم فاضل دوست سے گفت و شنید میں واضح ہوا ڈیم یا تو ایوب خان کے دور میں شروع کیے گئے یا پھر عمران خان صاحب کو کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کے دور میں ڈیم بنائے جارہے ہیں بات تو پہلے بھی راقم کے علم میں تھی لیکن مرے عاقل دوست نے اس علم کا اعادہ فرمایا تو دل پسیج گیا، واقعی خاں صاحب جیسا حکمران عشروں بعد نصیب ہوتا ہے (لیکن اتنی بڑی مہنگائی بھی تو عشروں بعد نصیب ہوئی ہے ) لیکن یہ بات پاکستان کی سادہ اور غریب عوام کیسے سمجھے گی جن کی منزل صرف دو وقت کی روٹی ہے اور پیٹ کا دوزخ بھرے بنا کوئی بات ان کی سمجھ میں آتی نہیں۔

خان صاحب یقین مانیے اسی فیصد عوام نے ڈیم کبھی نہیں دیکھا تو ان کو کیا پتا ڈیم کی افادیت کیا ہوتی ہے (عوام کی بہت بڑی تعداد نے تو کبھی سکول کا منہ بھی نہیں دیکھا) یہ غریب عوام جب شام کو گھر لوٹتی ہے تو انھیں بس چینی ،گھی، اور آٹے کی افادیت پتا ہوتی ہے وہ محض اتنا جانتے ہیں کہ سابقہ دور حکومت میں کچن بڑی آسانی سے چل رہا تھا لیکن اب تو یہ حال ہے کاٹو تو لہو نہیں ۔

مبادہ راقم کا مقصد یہ باور کروانا ہر گز نہیں ہے کہ ڈیمز بنانا کوئی غلط اقدام ہے بلکہ یہ تو انتہائی احسن اقدام ہے لیکن اس احسن اقدام کی خوبصورتی عوام کو تب سمجھ آئے گی جب ان کے پیٹ بھرے ہونگے یہ سوچنے سمجھنے کے قابل ہونگے شائد کہ راقم کی باتیں گراں گزریں لیکن یقین مانئے بھوک سے بڑی کوئی آفت نہیں ہے یہ انسان کو کافر و گمراہ بنادیتی ہے۔


ضمنی الیکشن ہارنے کی بنیادی وجہ صرف ایک ہے کہ آپ غریب عوام کے لیے اشیائے خورد و نوش سستی نہیں کر سکے با الفاظ دیگر ان میں ریکارڈ مہنگائی دیکھنے میں آئی ہے اپوزیشن میں کوئی پارٹی بھی آپ کے ساتھ نہیں آپ اکیلے اور تن تنہا کھڑے ہیں سوائے رب کے آپ کا کوئی پرسان حال نہیں ہے یہ سب کام دیکھ کے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ بندہ سچا ہے یا کھرا ، اہل اعلم مری بات سمجھ گئے ہونگے آپ کی نیت میں کوئی شک نہیں ہے لیکن فرض کریں آپ اپنی فیملی کو دو وقت کی بجائے ایک وقت کی روٹی صرف اس لیے دے رہے ہیں کہ آپ کی فیملی پہ قرضہ چڑھا ہوا ہے اور گھر بھی گروی رکھا ہوا ہے آپ اور فیملی مل کے ناصرف قرض اتارتے ہیں بلکہ مکان بھی واپس مل جاتا ہے لیکن بھوک سے آپ کی فیملی لاغر ہوچکی ہے اور دو کی موت بھی ہوجاتی ہے (یہ ایک فرضی مثال ہے )، تو کیا اس سے بہتر یہ حل نہیں ہے کہ آپ دو وقت کی پیٹ بھر کے روٹی کھائیں اور محنت کرنے میں بھی دشواری نہ ہو بلکہ مکان کی واپسی تک کم از کم بھوک سے تو کسی کی موت نہ ہو ، بے شک مکان کی واپسی تھوڑا تاخیر سے ہوگی لیکن آپ کی فیملی آپ سے نالاں تو نہیں رہے گی۔


معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ کچھ ایسا ہی آپ کے ساتھ ہونے جارہا ہے خان صاحب ، آپ کی پارٹی کچھ بھی کہتی رہے حزب اختلاف جو بھی بیانات دے لیکن اندر کی بات یہی ہے کہ آپ کو ووٹ تبدیلی کے لیے ملا اور غریب عوام کی تبدیلی ریلیف ہی ہوتا ہے اور جو آپ نے ملک و قوم کے لیے ڈھائی سالوں میں کارکردگی دکھائی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن ایک بڑا طبقہ ریلیف نہ ملنے کے باعث آپ سے سخت نالاں ہے گر یہ ایسے ہی نالاں رہا تو پھر اگلے پانچ سال کسی اور کے ہونگے۔


جو ملک کے حالات ہیں بلاشک و شبہ طویل منصوبوں کی ضرورت ہے لیکن گر اگلے پانچ سال اس ناراض طبقے نے آپ کو نہ دیئے تو پھر ۔۔۔۔؟ سوچیئے کہ اس معصوم طبقے کا دل کس طرح جیتنا ہے اور کیسا لائحہ عمل لانے کی ضرورت ہے کہ منصوبے بھی تکمیل کو پہنچیں اور عوام کو بھی ریلیف ملے، ظاہر ہے کہ ایسے اقدامات کے لیے آپ کو سخت احکامات جاری کرنے ہونگے جس کے بدلے میں ممکن ہے کہ بیوروکریسی میں بھی کافی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔جب صاف دکھائی دیتا ہے کہ منصوبے طویل ہیں تو پھر عوام کو ریلیف لازمی دینا چاہئیے کیونکہ وہ عوام ہی ہیں جو آپ کو طویل منصوبوں کے لیے طویل منصب حکمرانی سے بخش سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :