پاکستان کا داخلی و خارجی محلِ وقوع اور اہمیت

اتوار 21 فروری 2021

Ghulam Mustafa Haziq

غلام مصطفیٰ حاذق

 بے شک اللہ کریم کے پاکستان پہ بے بہا و انگنت بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ لامتناہی احسانات ہیں ساری دنیا میں ایسا محلِ وقوع ڈھونڈ نے سے نہیں ملتا جو ہماری پاک سرزمین کو عطا ہوا ہے ہمارے کشمیر و شمالی علاقہ جات بلاشبہ یورپین ممالک سے خوبصورتی اور دلکشی میں کسی طور بھی کم نہیں ہیں جہاں یہ علاقے دیکھنے اور سیر کرنے لائق ہیں وہیں کلرکہار اور کھیوڑہ کی کان بھی منفرد و دلکش اور دیکھنے لائق ہے ۔

پوٹھوہاری علاقوں کا بھی اپنا ہی حسن ہے پھر لاہور کی طرف آتے جائیں تو میدانی علاقے شروع ہوتے ہیں جن سے وافر مقدار میں ہمیں غلہ ملتا ہے بلکہ سارا پنجاب ہی ذرخیز ہے ( دنیا کا بہترین نہری نظام بھی پنجاب کا حصہ ہے) اور پنجاب کی آخری حد سے یعنی رحیم یار خاں سے چولستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جو بتدریج آگے بڑھتا ہوا تھر کہلاتا ہے اور صوبہ سندھ کا حصہ ہے اسی ریگستان کو بھارت میں راجھستان کہتے ہیں صوبہ سندھ لمبائی کے رخ مغرب کی جانب ساحلِ سمندر تک پھیل جاتا ہے اور اسی طرح صوبہ بلوچستان بھی صوبہ سندھ کے متوازی لمبائی کے رخ جانبِ مغرب گوادر تک پھیلا ہوا ہے یعنی گوادر اور کراچی ایک ہی ساحلی پٹی پر واقع ہیں ،صو بہ سندھ زرخیز ہے تو صوبہ بلوچستان معدنی دولت سے مالا مال ہے اور بلوچستان کی سوئی گیس و ریکوڈک ذخائر سے کون واقف نہیں (بلوچستان کے بعض علاقوں میں نایاب کوئلہ بھی دریافت ہوچکا ہے) اور بالکل اسی طرح چولستان و تھر کوئلے سے مالا مال ہیں بلوچستان اور سندھ ایک دوسرے کے متوازی چلتے ہوئے ساحل سمندر پر ایک ہی پٹی پر واقع ہونے کے باوجود خشکی کے لحاظ سے بالکل مختلف ماہیت کے حامل ہیں سندھ ذرخیز ہے تو بلوچستان #اور چٹیل پہاڑوں کا مجموعہ ہے۔

(جاری ہے)

کہیں میدانی ،کہیں بارانی،کہیں سنگلاخ پہاڑی سلسلے تو کہیں لق و دق صحرا سے مزین یہ پاک سرزمین ساری دنیا مین منفرد و نایاب مقام کی حامل ہے جس میں ہر سال چار موسم یکے بعد دیگرے اپنے اپنے وقت پہ مادرِوطن کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ پاکستان کا رقبہ چین سے شروع ہوکر بھارت اور افغانستان کو چیرتا ہوا سیدھا جانبِ مغرب سمندر کی طرف بڑھتا ہے جس کے آغاز میں بھی پہاڑ ہیں اور اختتام میں بھی پہاڑ اور سمندر ہے،جہاں شمالی علاقہ جات کے چترال و کاغان ،سیاحوں کے لیے پرکشش ہیں وہیں پسنی ،گوادر اور پاکستانی سمندری حدود کے اکثر جزیرے بھی سیاحوں اور سیلانی طبع کے لوگوں کے لیے بے انتہا پرکشش ہیں گر سیاحوں کے لیے محفوظ رسائی ممکن بنائی جائے تو حکومت پاکستان کے زرمبادلہ میں اضافہ لازمی ہے لیکن کسی بھی حکومت کے دور میں ان سیاحتی مقامات کو اپ گریڈ کرنے یا بہتر حفاظتی اقدامات کرنے کا سوچا نہیں گیا۔


داخلی لحاظ سے تو ہم خوش قسمت ہیں ہی اسی طرح خارجی لحاظ سے بھی ہم دنیا کے جس خطے میں واقع ہیں یہ بھی بڑی ہی سٹریٹجک اور مضبوط لوکیشن ہے بلکہ گر میں کہوں کہ ہمارا خطہ ہی بڑا سٹریٹجک خطہ ہے تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ یہ مختصر سا خطہ ایٹومک پاورز کا سنگم ہے جس میں سارے ہمسایہ ممالک روس ،ایران،چین ،بھارت اور ہمارا پاکستان وقتِ حاضر کی ایٹمی طاقتیں ہیں(ماسوائے افغانستان کے)اور بیک وقت تین ہمسایہ ایٹومک پاورز ایک ہی ساحلی پٹی کا حصہ بھی ہیں(بھارت،پاکستان اور ایران)،ساری دنیا میں ایک ہی خطے میں اتنی تعداد میں کوئی بھی ہمسایہ ممالک اس حد تک طاقتور نہیں ہیں اور دیکھا جائے تو مغرب کی ہمارے خطے کے ہی ہمسایہ ممالک سے بنتی نظر بھی نہیں آتی (ماسوائے بھارت کے) روس ،ایران اور چائنہ کے علاوہ ہمارے ساتھ بھی اکثر امریکہ کی بنتی بگڑتی رہتی ہے بشمول ہمارے ملک کے باقی ہمسایہ ممالک کو بھی یہ اچھی طرح ادراک ہو چکا ہے کہ امریکہ بناء کسی ذاتی مفاد کے کسی بھی ملک سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور آ،جا کے امریکہ اور اس کے حواری ہمارے خطے میں ہی بو سونگھتے دکھائی دیتے ہیں یعنی دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے پہلے پہل انکل سام مشرقِ وسطیٰ کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑا رہا جس کی بدولت مشرق وسطی کی کچھ ریاستیں تباہ ہوگئیں اور جو بچ گئیں ہیں وہ خانہ جنگی کا شکار ہیں اب تو ایسے لگتا ہے جیسے انکل سام مشرق وسطی میں اپنی محنت سے فارغ ہوکر ہمارے خطے کی طرف نیت باندھ چکا ہے امریکہ اپنے ٹرمپ کے بیانات کو ،،جوکر،، سے تعبیر کر کے سارے گھٹیا کام نکال رہا ہے جو شائد وہ کسی شریف صدر (ہیلری کلنٹن) کے دور میں ممکن نہیں ہوسکتا تھایعنی کہ اب بالکل واضح دکھائی دے رہا ہے کہ ٹرمپ کارڈ کھیلا جارہا ہے چونکہ مسلمان فراخ دل اور فراخ ذہنیت کا مالک ہوتا ہے اس لیے وہ گوروں کی چالوں کو سمجھنے میں دیر کردیتا ہے ان کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اسلام کہتا ہے کہ مشرک کبھی اسلام کا دوست نہیں ہوسکتا۔


سپر پاورز کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ ہمارے خطے میں ٹھکانہ بنالیں اور ہمارے درمیان بیٹھ کر ہمارے خلاف گھات لگا سکیں اس لیے خاص کر جنوبی ایشیاء گوری طاقتوں کا فیورٹ رہا ہے اس لیے سپر پاورز نے ہمیشہ ہمارے خطے کے سب سے کمزور ملک افغانستان کو ہی چنا ،جب اپنے وقت کی سپر پاور سوویت یونین افغانستان میں گھسی تو اس کا اصل مقصد افغانستان پر قبضہ نہیں بلکہ افغانستان میں مورچہ بند ہوکے اگلا ٹارگٹ پاکستان تھا تاکہ وہ گرم پانیوں تک رسائی حاصل کرسکے لیکن ہمارے خطے کا معاشی اور دفاعی لحاظ سے کمزور ترین ملک افغانستان بھی سپریم پاور کے لیے فولادی بلاکیج ثابت ہوا اور سوویت یونین کو دنیا نے بکھرتے دیکھا ساری دنیا ورطہ حیرت میں غرق تھی اور یہ بات ڈھکی چھپی نہ رہ سکی کہ پس پردہ قوت پاکستان تھی جس کی بدولت روس کے پر خچے اڑ گئے اب وہی روس دوست بن کے ہمارے سی پیک میں شمولیت اختیار کرنا چاہتا ہے پہلے بھی روس کا مقصد گرم پانیوں تک رسائی تھا اور اب بھی مقصد وہی ہے فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت وہ دشمن تھا لیکن اب وہ ہمارا سڑیٹجک پارٹنر بن رہا ہے دشمن سے پاکستان نے ہمیشہ مصلحت ضرور برتی ہے لیکن مفاہمت نہیں برتی اور یہ اب تک کی پاکستانی تاریخ سے واضح بھی ہے بے شک راقم کا بھی یہ ایمان ہے کہ پاکستان پہ ہمیشہ میرے اللہ پاک کی حفاظت و کرم نوازی رہی ہے۔

اور پھر یہی مقصد لے کر امریکہ افغانستان پر حملے کرتا ہے اور تاحال افغانستان میں ہی بھٹک رہا ہے کوئی راہ فراریت کی اسے سجھائی نہیں دے رہی امریکہ کا تو یہ حال ہے کہ اس کا ٹارگٹ بھی پاکستان ہے اور مدد بھی پاکستان سے لینا چاہتا ہے امریکہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کی سپلائی لائین بھی پاکستان ہے اور افغانستان سے نکلنے کے لیے بھی اسے پاکستان سے ہی مدد درکار ہے ،کیا ہی مضائقہ خیز بات ہے امریکہ کے لیے کہ جو اس کا ٹارگٹ (پاکستان) ہے وہی اس کا مسیحا (پاکستان) بھی ہے۔

اللہ اکبر، جس طرح یکے بعد دیگرے دو سپریم پاورز ہمارے مادرِ وطن کے دھانے پر پسپا ہوئیں ہیں، اسے معجزہ نہ کہیں گے تو اور کیا کہیں گے۔
پاکستان کے محلِ وقوع کی اہمیت اب پہلے سے بھی دوچند ہوچکی ہے سی پیک کی بدولت ساری دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں او رواضح نظر آرہا ہے کہ سی پیک پاکستان کی معیشت میں ایک انقلاب برپا کردے گا معاشی طاقت چین ہمارا سب سے بہترین دوست اور سی پیک کا سب سے بڑا پارٹنر بھی ہے ون بیلٹ ون روڈ کے سی پیک میں شمولیت کی وجہ سے گوادر کی رسائی دور دراز ممالک تک پہنچتی صاف دکھائی دے رہی ہے اب روس بھی ہمارا سٹریٹجک پارٹنر بننے پر مجبور ہے اور اس کے علاوہ مشرق وسطی سے ہمارا دوست ملک سعودی عرب بھی سی پیک میں شامل ہورہا ہے بیشک گوادر جیسی بندرگاہ اور کہیں نہیں ہے اور بلاشبہ یہ اللہ کا پاکستان پہ بہت بڑا کرم و انعام ہے ۔

اللہ پاک ہمارے پاک وطن کو دشمن کے ناپاک عزائم سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :