خداحافظ میری بہنا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر ایک نظم

جمعہ 27 دسمبر 2019

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

تصور میں چلی آئی مری بہنا لگی کہنے
اسمبلی میں مری بہنیں ،جو سرخی اور پوڈر سے سبھی چہرے سجا کر بیٹھنے کا لطف لیتی ہیں
یہ اُن کو زیب دیتا ہے
مرے بھائی سبھی چھوٹے بڑے،آکر اسمبلی میں غرض اپنی بتاتے ہیں
یہ سینٹ میں جو سنیٹرہیں میرا نام لے کر زندگی اپنی سجاتے ہیں
سبھی کو جانتی ہوں میں ،سبھی زردارہیں وہ تو
مری تصویر دفتر میں سجا کر وہ مری عظمت ،مرے کردار کو نیلام کرتے ہیں
نہیں ہے فکر جن کو اب جیالوں بے نظیروں کی
مرے شوہر پہ ہے الزام کہ وہ خود غرض نکلا
چلو میں مان لیتی ہوں مگر تم بھی تمہارے ساتھ وہ سب بھی
جو کہتے تھے کہ ہم مزدور ورکر دخترِ مشرق کے بھائی ہیں
بلاول ،آصفہ ،معصوم بختاور ،مرے بچے
تمہارے پھول بھائی بہن اور غمگین بچے ہیں
جو کہتے تھے کہ ہم بھٹوازم سے دیس کو گلزا کردیں گے
جو چلتے تھے ،مرے اطراف میں جیسے جری لشکر،مجھے تو ناز تھا تم پر
یہی اک ناز تو پردیس سے ہی دیس لائی تھی
مجھے آنے سے پہلے مشورے دیتے رہے اپنے
مشرف دور کے مظلوم ،گرچہ تھے پرائے بھی
تمہاری جان کو خطرہ ہے مت آؤ
مگر میں نے کہا اُن سے ،مجھے تو پاک دھرتی نے بلایا ہے
شہیدوں نے جسے اپنے لہو سے گل بنایا ہے
مرے بابا مرے دوبھائیوں کو پاک دھرتی نے
بڑے اعزاز سے گل پوش سینے میں سمایا ہے
مری ہستی یہ میری جاں ،یہ میرے پھول سے بچے
سبھی تو پاک دھرتی کی امانت ہیں
میں آؤں گی چلی آئی مری بہنیں مرے بھائی
چلے تھے ساتھ پہلے سے بھی کچھ دل شاد جذبوں سے
تمہی تو ہو ،تمہی نے ہی ،مرے ایمان جذبوں کا بڑا ہی مان رکھا تھا
مگر یہ کیا ہوا تم کو یہ تم نے رنگ کیوں بدلا
بھلا تم بھول بیٹھے ہو مجھے اور میرے بابا کو
سبھی دلبر جیالوں کو،وہ منظر بھولنے کا ہے
کراچی کا،وہ لیاقت باغ کے پہلو میں پنڈی کا
جیالے گل بدن ،جوساتھ بہنوں بے نظیروں کے
وہ رقصان تھے خوشی سے تال پر کہ آگئی بی بی ،جئے بھٹو
اُڑے گلشن بدن اُن کے
خزاں میں زردپتوں کی طرح اس پاک دھرتی میں
وہ منظر بھول جاؤ گے
مگر میں ساتھ تھی اپنے وطن کی پاک دھرتی پر
جواں جذبوں میں رقصاں بے خبر خود سے
ہتھیلی پر لیے سررکھ کے آئی تھی میں پنڈی میں
جہاں میں نے جھلک دیکھی تمہاری
خبر کیا تھی جھلک یہ آخری ہوگی تمہارے ساتھ میری بھی
لگی گولی مرے سرمیں گری بے جان سی ہوکر
میں اپنی ہمسفر ناہید کی باہوں میں آئی تھی
دھماکے میں سنی آواز بس ،اک آخری میں نے
ہوا یہ کیا مری بی بی
یہ اک آواز تھی ناہید کی جس نے مرا سراپنی جھولی میں لیے مجھ کو سنبھالا تھا
دھماکے سے مرے کانوں کے پردے پھٹ گئے میں سوگئی اُس دم
ہوا پھر کیا نہیں دیکھا
مگر تم نے تو دیکھا تھا وہ منظر خون کا
گرتے بدن ،جلتے بدن ،اُڑتے بدن ،پرزے بدن
میں شاداں ہوں ،ہماری جان تو قومی امانت تھی ،جو دینا تھی
چلو سودئیے گئے لیکن!
مجھے افسوس ہے اس بات پر میں سوچتی ہوں یہ
کہ قاتل اب تلک دھرتی میں پھرتے دند ناتے ہیں
ہوا ایسا تو آخر کیوں
یہ کب تک اور کتنے قوم کے بھٹوکو ماریں گے
مجھے معلوم ہے یہ بھی کہ تم کو ہے گلہ مجھ سے ابھی تک ہے
شریفوں کی شرافت رنگ لائی ہے
انہوں نے ہی تو گیارہ سال تک مجھ کو ستایا تھا
یہی وہ تھا وزیر اعلیٰ ،بڑے پنجاب صوبے کا
اسی نے ہی تو داتا کے نگر میں تیرے سرمیں گولی ماری تھی
نشانہ سرکا لیتے ہیں مگر تو بچ گیا تھا اس لیے بھی گل #
کہ جو کچھ دیس میں ہے اُس کو تونے رنگ دینا تھا
قلم کی نوک پر اہل قلم کیساتھ چلنا تھا
میں ملنے تم سے آئی ہوں میں زندہ ہوں مرابابا بھی زندہ ہے
ترے سینے پہ لکھا تھا جئے بھٹو!
مجھے معلوم ہے گل جی
توبائیس سال کا تھا عمر میں بابا نے وہ تحریر دیکھی تھی
چلو اُٹھو،تقاضے مصلحت کے چھوڑ کر سچ کی زبان لکھو
کہا میں نے یہ بی بی سے اگر تیری یہ منشاہے
میں لکھوں گا مرے دل میں دبی آواز ہے اب اُس میں بولوں گا
مرے گل دیس گلشن کی حسین معصوم سی تتلی
خدا حافظ ،خدا حافظ ،خدا حافظ میری بہنا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :