انتہا پسند قوتیں اور ملک کا مستقبل

جمعہ 16 اپریل 2021

Gul Bakhshalvi

گل بخشالوی

 کھاریاں شہر سیاسی اور مذہبی حوالے سے امن کا گہوارا ہے خدا را اس امن کو قوم دشمن قوتوں کی خواہشات پر قربان نہ کریں کھاریاں اوراسلامی جمہوریہ پاکستان پر رحم کریں۔ کھاریاں کے علماء مذہبی امن کے لئے میدان عمل میں آئیں جانتے ہیں کی کھاریاں میں تحریک ِ لبیک کی کوئی فعال تنظیم نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک ِ لبیک سے ہمدردیاں رکھنے والے سہولت کا موجود ہیں۔

چند سال قبل علامہ قاضی امیر حسین کی وفات کے بعد راقم گل بخشالوی نے کھاریاں شہر میں مذہبی امن کے لئے شہر کے علماءکرام پر مشتمل ” سنی علماءکونسل کھاریاں “ تشکیل دے کر شہر میں بیرونی مداخلت بند کر دی تھی لیکن بدقسمتی سے اس کونسل کو ایک خاص مکتبہ فکر کے علماءنے ہائی جیک کر لیا اور شہر میں مذہبی امن کے لئے تنظیم اصولی مقاصد سے غافل ہو گئی
کاش آج علامہ قاضی امیر حسین حیات ہوتے تو جی ٹی روڈ پر یہ تماشہ نہ ہوتا جو ٹریفک جام کی صورت میں دیکھا گیا۔

(جاری ہے)

جی ٹی روڈ پر ہنگامے کے دوران میں جی ٹی روڈ پر تھا مجھے اس ہنگامے میں شہر کا کوئی مولوی نظر آیا اور نہ کوئی عام شہری گرد ونواح کے دیہات سے آئے ہو ئے تحریک ِ لبیک کے علمبرداروں کے ہاتھوں کھاریاں شہر کے شہری اپنے شہر میں بد ترین ہنگامہ آرائی پر انگشت بدندان تھے اس لئے کہ شہر میں ناموس ِ رسالت کے علمبردار شہری جانتے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں پاکستان کی واحد مذہبی جماعت تحریک ِ لبیک کیوں سرا پا احتجاج ہے قومی مذہبی امن کی بربادی کے لئے کس کے ایجنڈے کو تقویت دی جارہی ہے ۔

اگر مذہبی انتہا پسندجماعت تحریک لبیک کے اصرار پر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کر دیاجائے تو خارجہ پالیسی ماہرین کے مطابق پاکستان کو سنگین سفارتی نتائج کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کی صورت میں پاکستان کو دوسرے ممالک کے ساتھ لین دین میں شدید دباو کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ’فرانس یورپی یونین کا ایک اہم ملک ہے اور یورپ پاکستان کی مصنوعات کی اہم منڈی تو اس فیصلے کے پاکستان کے لیے معاشی نتائج بھی ہو سکتے ہیں جبکہ فرانس پاکستان میں متعدد ترقیاتی منصوبے بھی چلا رہا ہے جو اس فیصلے سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

‘ فرانس میں رہنے والے پاکستانیوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس وقت فرانس میں پاکستان کا کوئی سفیر موجود نہیں ہے اگر سفیر ہوتا توتحریک لبیک کے مطالبے پر اپنے سفیر کو فرانس سے واپس بلا کر فرانس کے سفیر کو واپس بھیجا جا سکتا تھا ۔سفارت کاری کے معاملات میں کسی جماعت کے مطالبے پر اسے خوش کرنے کے لیے نہیں بلکہ وہ فیصلے کیئے جاتے ہیں جو ملک اور قوم کے مفاد میں ہوں یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی مذہبی جماعت کے دباﺅ میں آکر کسی ملک کے سفیر کو ملک بدر کر دیں اور پھر اقوام عالم سے کہیں کہ ہم مجبور تھے۔

اور اگر ایسا کرنا حکومت کی مجبوری ہو بھی جائے تو اس مجبوری کو پارلیمان میں لے جایا جاتا ہے، پارلیمان میں اتفاق رائے سے جو فیصلہ ہو اس کے مطابق اس پر عمل کیا جاتا ہے ‘ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت بزور ِ بازو فیصلہ منوانے والی انتہا پسند جماعت کے رہنماو ں کے خلاف نفرت اور تشدد پر اکسانے جیسے قوانین کے تحت کارروائی کرے تاکہ آئندہ کوئی ایسا گروہ قانون ہاتھ میں لے کر معاشرے میں شدت پسندی کے ارتکاب کی جرات نہ کر سکے
  تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابند ی کا مذہبی، نظریاتی اور انسانی بنیادوں پر حکومتی فیصلے کاہر مکتبہ فکر نے خیر مقدم کیا ہے اس لئے کہ پاکستان میں انتہاپسند قوتوں کو ملک کے مستقبل سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :