
یمن کی صورتِ حال !
اتوار 12 اپریل 2015

حافظ محمد فیصل خالد
اب اس ساری صورتِ حال میں اگر تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو عراق میں امریکی افواج نے فرقہ واریت کو ہوا دیکر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جو حکمتِ عملیاں وضع کیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور ان کے نتائج آج بھی سارا خطہ بھگت رہا ہے۔
(جاری ہے)
اس لئے امتِ مسلمہ میں فرقہ ورانہ کشیدگی اور خونی جنگ انتہائی مفید ثابت ہو سکتی ہے اور تا حال یہی ایک بنیادی وجہ ہے کہ مسلم مما لک کو آپس میں لڑا کر اپنے مشترکہ مفاداد کے حصول کو ممکن بنانے کی کششیں کی جا رہی ہیں ۔ اس کے علاوہ اسلحہ کے بیوپاری ممالک جن میں امریکہ سرِ فہرست ہے انکے لئے بھی ایک انتہائی طویل جنگ منافع بخش اور مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ جسکی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ سعودی عرب اور یمن کے درمیان چھڑی جنگ میں ایک طرف تو امریکہ سعودی عرب کو بلا ترسیل اسلحہ فرہم کئے جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب ایران جو کہ یمنی باغیوں کا حامی اور سپورٹر ہے کے ساتھ بھی معاہدات کئے جا رہا ہے۔
اس ساری صورتِ حال میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حوثی قبائل جیسے پسماندہ اقلیت یمن کے دار الحکومت اور کئے اہم شہروں پر قابض ہو چکے ہیں جبکہ دوسری جانب یہی لوگ حرمین شریفین پر حملے کی دھمکیوں کے بھی مرتکب ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب اگر یہ بات اس بنیاد پر آگے بڑہی تو پھر ہونے والے نقصان کی تلافی ممکن نہ رہے گی۔کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فروعی مسائل کی بنیاد پر ہونے والا اختلاف کسی نہ کسی مرحلے پر جاکے حل ہو جاتا ہے لیکن بنیادی عقائد کے اختلافات کی بنیاد پر چھڑنے والی جنگ کی انتہاء کا اندازہ لگا نا ممکن نہیں۔
لہذا اب اس اری صورتِ حٓل کے پیشِ نظر وقت کااہم تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم آپس میں لڑنے کی بجائے اپنی تما م تر توانائیاں ان طاقتوں کے خلاف استعمال کی جائیں جو ہمیں آپس میں لڑانے اور تباہ کرنے کے عزائم لئے سرگرمِ عمل ہیں۔ورنہ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ عوام کے پیسے سے بنائی جانے والے ٹیکنالوجی دشمن کے خلاف استعمال ہونے کی بجائے آپس کی جنگ میں صرف ہو جائے۔اس لئے تمام تر عرب اور ایشیائی مسلم ممالک کو چاہئے کہ وقت کی نذاقت کو سمجھتے ہوئے ہمیں مسلک کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے جار حانہ کاروائیوں سے گریز کریں۔ کیونکہ اس نازک دور میں ہم آپس میں کسی بھی قسم کی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
دوسری جانب ان سارے ممکنہ خدشات کے باوجود خوش آئین بات یہ ہے کہ عرب ممالک امریکی افواج کی امداد پر انحصار کر نے کی بجائے اپنی اجتماعی افواج کے قیام کی طرف بڑھ رہے ہیں جو کہ ایک قابلِ تحسین عمل ہے۔ اور امید کی جا رہی ہے کہ مشترکہ افواج کے اس قدم کو بھی نے ٹو افواج کی طرح اہمیت دی جائے گی۔اور او۔آئی۔ سی۔ ممالک کو بھی عسکری قوت کے پیشِ نظر سیاسی اہمیت حاصل ہو جائے گی جس کے نتیجے میں اسرائیل جیسا درندہ فلسطینیوں جیسے مظلوموں پر مظالم ڈھانے سے پہلے کئی بار سوچے گا ۔
اور جہاں تک پاکستان اور سعودی عرب کی امداد کا تعلق ہے اور حرمین شریفین کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بات ہے تواس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں کہ امتِ مسلمہ کا ہر ہر فرد سرزمینِ مقدس پر مر مٹنے کو تیار ہے۔ لہذا موجودہ صورتِ حال میں قوت کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم مذہب اور مسلک کی بنیادوں پر ہر قسم کی گروہ بندی سے گریزاں رہیں اور بحثیتِ قوم ابھر کر سامنے آئیں تاکہ ضرورت پیش آنے پر اپنے مقاماتِ مقدسہ اور امتِ مسلہ کی بھر پور انداز میں حفاظت کر سکیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
حافظ محمد فیصل خالد کے کالمز
-
حزب اختلاف سے حزب اقتدار تک
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
ریاستِ مدینہ سے سانحہ ساہیوال تک
پیر 21 جنوری 2019
-
مذہب کارڈ!
پیر 19 نومبر 2018
-
اے قائد ہم شرمندہ ہیں!
بدھ 27 دسمبر 2017
-
وزیرِ اعظم کا استعفی
اتوار 28 مئی 2017
-
اِک زرداری سب پہ بھاری!
پیر 26 دسمبر 2016
-
آخر مذہبی جماعتیں کیوں نہیں؟
منگل 1 نومبر 2016
-
جمہوری حکومت اور سائبر کرائم بِل2016
اتوار 21 اگست 2016
حافظ محمد فیصل خالد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.