سفید وردی،کالا کوٹ اور کالی سوچ

ہفتہ 14 دسمبر 2019

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

وکلاء اور ڈاکٹرز کی لڑائی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی لیکن اب حقیقت تو سامنے آ چکی ہے یہ محض انا کی جنگ ہے اور اس انا کی جنگ میں نقصان صرف ریاست کا ہو رہا ہے ۔ دو وکیلوں اور ڈاکٹروں کی ذاتی لڑائی تھی جسے دو اداروں اور دو طبقوں کی جنگ بنا دیا گیا ۔ بات ایک سوشل میڈیا وڈیو کی تھی جس سے متعلق بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ پرانی ہے اس پر ڈاکٹرز نے پہلے ہی معذرت کر رکھی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ وڈیو پہلے کی تھی تو پھر اسے صلح کے بعد وائرل کس نے اور کیوں کیا ؟ اس کی تحقیقات کر کے اصل ذمہ دارکو قانون کی گرفت میں لانا چاہئے اور سب سے زیادہ قصور وار وہ ڈاکٹر ہے جو اس وڈیو میں توہین آمیز اور حقارت انگیز جملے بول کر وکلاء کا مذاق اڑا رہا ہے۔

 
ڈاکٹروں کی لڑائی ہوئی تو وکلاء نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی بقول وڈیو والے ڈاکٹر کے ان کی کہیں بھی دال نہیں گلی یہ تو ڈاکٹروں کی جیت تھی اور ڈاکٹروں کو چاہئے تھا کہ اس جیت کو عاجزی سے ہضم کر تے مگر انہوں نے وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال کر وکلاء کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے یہ سارا تماشہ ہوا ۔

(جاری ہے)

مگر اس سارے تماشے سے بھی ڈاکٹروں کا جی نہیں بھرا تو پورے پنجاب میں ہڑتال کا اعلان کر کے اپنی کالی سوچ کا اظہار کیا اسپتالوں میں ہڑتال مریضوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے وہ داکٹر جسے خدا کے بعد انسانیت کا سب سے بڑا محسن سمجھا جاتا ہے وہ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے انکاری ہو جائے تو اس کی کالی سوچ شعبہ ڈاکٹری پر کالے دھبے کا نشان ہے ۔

اب محض ایک وڈیو پر ادھم مچانے والے کالے کوٹ والوں کی بات کرتے ہیں ساری زندگی قانون کی باریکیاں پڑھنے والے اور سب سے زیادہ پڑھے لکھے کہلوانے والے صرف ایک وڈیو دیکھ کر ہی آپے سے باہر ہو گئے ۔ شاید وکلاء کو اپنے نظام عدل کا اندازہ تھا اس لیے وہ مشتعل ہو کر خود ہی انصاف اپنے ہاتھوں میں لیے اسپتال پر چڑھ دوڑے مگر اس بات کا پتہ نہیں چل سکا کہ وکلاء کا ملزم ، مجرم اور ٹارگٹ کون تھا ۔

 وکلاء کا ٹارگٹ اسپتال کے ڈاکٹر تھے اسپتال کا عملہ تھا،وہاں پڑے مریض یا پھر اسپتال کے باہر سے گزرنے والے راہگیر تھے ؟کالے کوٹ والوں کی کالی سوچ کا اندازہ ان حملہ آوروں سے لگایا جا سکتا ہے جو اسپتال پر اینٹیں ، پتھرمار رہے تھے اور اندر دل کے مریض پڑے ہوئے تھے ، مہذب معاشروں کا قانون ہے کہ جنگ میں بھی اسپتالوں پر حملہ نہ کیا جائے مگر یہاں تو ذاتی انا کی خاطر مریضوں کا بھی خیال نہ کیا گیا۔

ساری وکلاء برادری سے ایک معصومانہ سوال ہے کوئی بھی ماہر قانون ہماری صلاح فرما دے کہ کیا کسی وکیل کی ذاتی لڑائی بھی کالے کوٹ پر حملہ ہوتی ہے ؟
 سفید وردی اور کالا کوٹ ہمارے لیے انتہائی قابل احترام ہے مگر کالے کوٹ کی حدود و قیود کیا ہیں اس پر قوم کی راہنمائی فرما دیں ۔ کوئی وکیل سڑک پر راستہ نہ ملنے پر جھگڑا کرے تو وہ بھی کالے کوٹ پر حملہ ہوتا ہے کسی وکیل کا اسپتال میں ڈاکٹر سے ذاتی جھگڑا ہو جائے تو وہ بھی کالے کوٹ پر حملہ تصور کیا جاتا ہے ۔

کالے کوٹ پر حملہ تو تب ہو جب کسی وکیل کی آئینی و قانونی صلاحیتوں کو جبراًدبانے کی کوشش کی جا رہی ہے یا وکلاء کی حق تلفی کی جا رہی ہو ، یا وکلاء کے کسی کیس کو لے کر ڈرایا دھمکایا جا رہا ہو تو یہ یقیناً کالے کوٹ پر حملہ ہوتا ہے ۔لیکن کسی وکیل کا کسی فرد سے کوئی ذاتی جھگڑا کالے کوٹ پر حملہ کیسے ہو گیا ؟ڈاکٹرز اور وکلاء کی ذاتی لڑائی میں سرکار کا ساڑھے سات کروڑ کا نقصان ہوا اور جو جانی نقصان ہوا وہ الگ ہے لاہور ہائی کورٹ نے اسپتال میں گلدستے بھجوا کر وکیلوں اور ڈاکٹروں کو صلح کا مشورہ دے کر دونوں فریقین کا انصاف تو کر دیا مگر سوال یہ ہے کہ جو لوگ ان دونوں کی لڑائی میں مارے گئے اُن کو عدلیہ کیا انصاف دیتی ہے ؟ مگر اس سارے معاملے میں حکومت کہیں بھی نظر نہیں آ رہی پہلے یہ واقعہ ہو گیا وکلاء سلطان راہی کی طرح سرعام آئے اور مار دھاڑ کر دی انکے خلاف کوئی قابل ذکر کاروائی عمل میں نہیں لائی اور اب ڈاکٹروں نے اسپتالوں میں ہڑتالیں شروع کر دی ہیں اس پر بھی حکومت ابھی تک خاموش نظر آرہی ہے ۔

 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :