قومی ایکشن پلان اور لا ہو ر پولیس

منگل 5 مئی 2015

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے پچھلے کئی ماہ سے ” قومی ایکشن پلان“ پر جس تندہی ، محنت اور حب الوطنی کے جس جذبے کے ساتھ کام کر رہے ہیں،اس کے نتیجے میں انہیں خاطر خواہ نتائج بھی ملے ہیں۔پھر بڑھتی ہوئی دہشت گردی، قتل، اغواء برائے تاوان اور دیگر جرائم کے گراف میں بھی خاطر خواہ کمی دیکھنے کو ملی ہے۔


ذرائع کے مطابق اس سے قبل ملک کی 30سے زائد انٹیلی جنس اور سیکورٹی ایجنسیاں رابطہ کاری کے فقدان کی وجہ سے ماضی میں دہشت گردی کو کنٹرول کر نے اور منظم جرائم کو روکنے میں ناکام رہیں لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ ان سمیت فوج، رینجرزاور پولیس کی مشترکہ کاروائیوں کے ساتھ آئی۔ایس۔آئی اور آئی۔بی نے بھی ملک کو در پیش سیکورٹی خطرات سے نمٹنے کے لئے زیادہ بہتر انداز میں ہم آہنگی پیدا کر نا شروع کر دی ہے ۔

(جاری ہے)

جس کی وجہ سے دہشت گردوں اور منظم جرائم میں ملوث گروہوں کے خلاف کامیاب مشترکہ آپریشن ممکن ہو پائے اور ہو رہے ہیں ہیں۔
قارئین ! ملک عزیز میں پنجاب ایک ایسا صوبہ اور لاہور ایسا شہرہے جہاں امن و اما ن کی صورتحال قدرے بہتر ہے۔ جس میں یہاں کی پولیس کا بہت اہم کردار ہے ۔پڑھے لکھے اور نوجوان ایس۔ایچ۔او زکی تعیناتی، P.C.Sکے ذریعے محکمے میں بھرتی ہونے والے عملے کو بطور ایڈمن افسرز جنہیں خوف خدا اور خدمت خلق خدا کے جذبے کو مد نظر رکھتے ہوئے تر بیت دی گئی ہے کی تما م تھانوں میں تعیناتی، ہر جمعہ کو افسران کی طرف سے مسجدوں میں کھلی کچہری کے دوران عام لوگوں کے مسائل سن کر موقع پر ہی احکامات جاری کر نے اور ان جیسے کاموں کی وجہ سے عوام کا پولیس پر اعتماد کچھ بحال ہوا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ عوام اور پولیس کے مابین رابطے کی وجہ سے ” قومی ایکشن پلان“ پر عملدرآمد کے نتائج سو فیصد ہیں۔
قارئین ! میں یہاں ڈسپلن اور میرٹ کو اپنے سینے سے لگائے لاہور پولیس کے چیف کیپٹن (ر) امین وینس ،لاہور کے مزاج کو بخوبی جاننے والے ڈی۔آئی ۔جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف اور دبنگ پو لیس افسر اور میرٹ کی پاسداری کر نے والے ڈی۔

آئی۔ جی انوسٹی گیشن رانا ایاز سلیم پر مشتمل ٹیم کا ذکر کر نا چاہوں گا جنہوں نے سابقہ افسران کی تھانہ کلچر کی تبدیلی کے حقیقت سے کوسوں دور ،صرف کھوکھلے بیانات کی روش کوترک کرتے ہوئے حقیقتاََ کچھ کر گذرنے کا عزم کر رکھا ہے کی کا وشوں کی وجہ سے سالوں سے، رشوت زدہ، گالیوں اور فحش گوئی کی آماجگاہ،اپنی گفتگو میں فرعونی لب و لہجے کا زہر سموئے تھانہ کلچرتبدیل اور انصاف کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں اور طاقت کے خمار میں مست ”سیاسی آقاؤں“ کے خوف سے آزاد ہو کر اپنے مقاصد میں کئی حد تک کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔


جس کی تازہ مثال زین قتل کیس ہے ۔ ایوانوں کی اونچی مسندوں پر براجمان ،ملک کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے ہوئے ،سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کر نے کے گُر کے ماہر ، عیاش اور بد معاش لوگوں کے چشم و چراغ نے جب ایک معصوم اور یتیم بچے ،جو اپنے گھر کا واحد سہارا تھا کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ مجھ سمیت بہت سے لوگ اس دفعہ بھی یہی اُمید کر رہے تھے کہ اس کیس کا حال بھی ریمنڈ ڈیوس اور شاہ رخ جتوئی سے مختلف نہ ہو گا جب پولیس والے ”سیاسی آقاؤں“ کا دباؤ بر داشت نہ کرتے ،” سانوں وی کجھ لاؤ“ کی پالیسی پر عمل کرتے ، ملزمان کو وی ۔

آئی۔ پی پروٹوکول دیتے ہوئے عدالتوں سے با عزت رہا کرانے کا ذریعہ بنیں گے۔ اس کیس میں میرا یہ گمان غلط ثابت ہوا وراب تک کی پیشرفت بتاتی ہے کہ ظالم اپنے انجام کے بہت ہی قریب ہے۔
قارئین کرام !جہاں لاہور کے شہریوں کے لئے فوری انصاف کے دعوے کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے تھانوں میں شکایات کے موثر نظام کو رائج کر نے،پولیس سے متعلقہ شکایات اور اس کے فوری ازالہ کے لئے ایس۔

ایم۔ایس سروس اور پھر اس شکایت کا فالو اپ کرنے کے سسٹم کو لگانے کی تیاری کی جارہی ہے وہاں لاہور پولیس نے ،دو لڑنے والوں کے درمیان صلح کر انے والی اللہ کے نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے قیام پاکستان سے قبل دشمنی کی بھینٹ چڑھتے 125،سے زائد افراد کو موت کی وادی کا مسافر بنا نے والے دو خاندانوں کہ جن کے گھر، بیواؤں اور یتیموں سے بھرے پڑے ہیں ، ان خاندانوں کو بغل گیر کرتے ہوئے صلح کرانے کا نیک کام بھی شروع کر دیا ہے۔


میں سمجھتا ہوں اگر ایمانداری اور مخلصانہ طرز نیت کا یہی سلسلہ جا ر ی رہا تو کچھ بعید نہیں جس طرح لاہور ، امن و امان کے حوالے سے پورے ملک میں ایک امتیاز رکھتا ہے وہاں سالوں سے آنکھوں میں سجائے تھانہ کلچر کی تبدیلی کا خواب شر مندہ تعبیر ہو گیا تو پورے ملک میں اس کا بھی کوئی ثانی نہیں ہو گا ۔ اس کے لئے ضرورت ہے کہ فا لو اپ کے ساتھ غفلت میں ملوث افرادکے خلاف گھیرا تنگ کرتے ہوئے ،کسی سفارش کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے احتساب اور سزاکے سخت ترین نظام کو بھی فعال کیا جائے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :