محکمہ پولیس میں تبدیلی کا نعرہ! سچ یا جھوٹ؟

پیر 15 مئی 2017

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

پچھلے کچھ سالوں میں محکمہ پولیس کے ذمہ دارا ن نے تھانہ کلچر اور پولیس ریفارمز کی تبدیلی کے بڑے لمبے چوڑے دعوے کئے ہیں ۔یہ بھی سچ ہے کہ لاہور میں بالخصوص پولیس کے آپریشن ونگ میں کافی حد تک تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے ۔ لیکن بڑے افسوس کہ ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ یہ تبدیلی ملازمین نے اندر سے قبول نہیں کی، بلکہ افسران کے پریشر اور اپنی نوکریوں کو بچانے کے لئے وقتی طور پر تو رویئے میں مثبت تبدیلی دکھائی د یتی ہے لیکن جہاں اپنے مفادات آڑے آتے ہیں، تو نہ پھر افسروں کا پریشر باقی رہتا ہے اور نہ کوئی اور چیز، پھر صرف اپنی جیب گرم رکھنے کے لئے جو کچھ کر نا پڑتا ہے اس سے گریز نہیں کیا جاتا۔

سپاہی سے لیکر بڑے تھانیدار تک، بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا کوئی موقع خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے۔

(جاری ہے)

جس کے نتیجے میں چھوٹے چھوٹے ملازمین ،بڑے بڑے پلازوں، شادی ہالوں اور پلاٹوں کے ما لک بنے بیٹھے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ افسران بالا کی شدید محنت اور خلوص نیت کے باوجود اب بھی تھانوں میں لوگ شدید اذیت اور خواری کا شکار ہوتے ہیں ۔ جس کی تازہ مثال پچھلے دنوں رونما ہونے والے دو ایسے دلسوز واقعات ہیں جس پرمظلوم خاندان انصاف کی خاطر تھانوں کے چکر لگاتے رہے اور جب انہیں انصاف نہ ملاتو میڈیا کے توسط سے بالآخر خادم اعلیٰ کے نوٹس پر انصاف حرکت میں آیااور ملزمان کے خلاف کاروائی شروع ہوئی ۔


لاہور کے علاقے سندر میں غیرت کے نام پر بااثر ملزمان نے ظلم و بربریت کی تمام حدیں پار کر تے ہو ئے ظلم کی ایسی داستان رقم کی جسے سن کر ہر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ درندہ صفت ملزموں نے نویں جماعت کے طالب علم عیش محمد کی آنکھیں چھری اور سوئے سے نکال دیں۔ پتھر دل ملزموں کی تسلی نہ ہوئی تو سوئے سے جسم پر وار بھی کئے اور مردہ سمجھ کر اسے ویران جگہ پر پھینک گئے ۔

غمزدہ والد نے پولیس کی بے حسی کا شکوہ بھی کیا۔لیکن اس موقع پرلاہور پولیس کے آپریشن ونگ جس کی قیادت درد دل رکھنے والے، نیک اور جذبہ ء خدمت خلق سے سر شار ڈاکٹر حیدر اشرف کر رہے ہیں ، کے متعلقہ تھانے کے اے۔ایس۔آئی نے تو فوری طور پر مقدمہ درج کروا دیا لیکن قبضہ گروپ اور جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کر نے والے مافیا کے افراد، جو اس وقت پولیس کے انو سٹی گیشن ونگ میں جگہ جگہ دکھائی دیتے ہیں،کے سر غنہ کی بے حسی اور حرام کھانے والی بد ترین عادت کی وجہ سے ،عیش محمد کے کیس کو کمزور کرتے ہوئے ،سفاک ظالموں کو بچا کر مظلوم طالبعلم کو ہی مجرم بنا نے کی بھر پور کوشش کی گئی۔

بھلا ہو خا دم اعلیٰ کا جنہوں نے ایکشن لیا اور یوں کیس سی۔آئی۔اے کے ایماندار افسر خالد فاروقی کے پاس آیا جنہوں نے اپنی تما م توانائیاں استعمال کرتے ہوئے حقیقی ملزمان کو گرفتار کیا۔
ایک ایسا ہی واقعہ کچھ روز قبل شیخوپورہ کے علاقے صفدرآباد کے گاؤں میں پیش آیا جہاں مبینہ طور پر کمسن محنت کش کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔تیرہ سالہ عرفان کے غریب ماں باپ نے انصاف کے لیے زمیندار کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ڈنڈے مار کر نکال دیا گیا۔

بے بسی، لاچاری اور مجبوری اگر مجسم ہوجائے عرفان کا چہرہ بن جاتی ہے،شیخو پورہ کے گاؤں وائیاں وانا کے اس معصوم کی حیثیت ایک مزارع اور غلام سے زیادہ نہیں، جسے طاقت کے نشے میں مست یک چوہدارنی نے اپنا زر خرید غلام سمجھا ہوا تھا۔ بھیڑ بکریوں کو چارہ دینے سے پہلے دو نوالے کھانے کی اجازت مانگنا اس کا وہ جرم بن گیا، جس کی سزا چارہ کاٹنے والی مشین سے ہاتھ کاٹ کر دی گئی۔

غریب ماں باپ نے شکایت کے لیے زمیندار کا دروازہ کھٹکھٹایا تو جواب میں دھکے اور ڈنڈے ملے، اسپتال والوں نے پولیس کیس کی وجہ سے واپس بھیج دیا، پولیس نے بھی آنکھیں بند کرلیں۔عرفان زندگی بھر کے لیے ایک ہاتھ کھوبیٹھا، 10روز در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد سیشن کورٹ شیخوپورہ میں انصاف کی دہائی دی تو پولیس نے مقدمہ درج کرلیالیکن یہاں بھی انوسٹی گیش ونگ میں بیٹھے حرام خوروں کے گروپ نے معصوم بچے کے ملزمان کو کھلی چھٹی دے دی ۔

یہاں بھی میڈیا کے ذریعے معاملہ خادم اعلیٰ تک پہنچا تو پولیس کے ذمہ داروں کو ہوش آیا اور عیش محمد کی طرح عرفان اور اس کے گھر والوں کو کچھ تسلی ہوئی ۔
قارئین کرام !یہ دونوں واقعات، اربوں روپے خرچ کر کے محکمہ پولیس میں تبدیلی کے دعووں کی قلعی کھول چکے ہیں۔ اور چیخ چیخ کر پولیس کے افسروں کو اپنی جانب متوجہ کر رہے ہیں کہ جب تک آپ، پولیس میں موجود کالی بھیڑوں جو حرام کھا کھا کر انسانیت کے درجے سے گر چکے ہیں اور جس کے نتیجے میں کسی مظلوم انسان کی آہ وبکا سننے سے یہ قاصر ہوتے ہیں کے خلاف و،قتی طور پر معطل کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میں ایکشن لیتے ہوئے، محکمے سے ایسے لوگوں کا قلع قمع نہیں کریں گے جب تک محکمہ میں تبدیلی کا دعویٰ صرف سفید جھوٹ سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔

میں سمجھتا ہوں کہ محکمہ پولیس میں اُس دن واقعی حقیقی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی جس دن عیش محمد اور عرفان جیسے مظلوموں کو انصاف کی خاطر میڈیا اور خادم اعلیٰ کے نوٹس کا انتظار نہ کر نا پڑے۔ اللہ کرے ایسا جلد ہو جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :