انوسٹی گیشن پولیس لاہور، خوشگوار تبدیلی کی جانب گامزن

پیر 3 فروری 2020

Hafiz Zohaib Tayyab

حافظ ذوہیب طیب

ایک دور تھا جب محکمہ پولیس کا آپریشن ونگ انتہائی مستعد ، متحرک اور توانا تھا۔ شہر میں کرائم کی روک تھام کے لئے کی جانے والی کوششوں میں کوئی ان کا ثانی نہیں ہوتا تھا جبکہ دوسری جانب پولیس کا انوسٹی گیشن ونگ ایک ”ڈمی“ کے طور پر موجود تھا اور جہاں کرپشن، رشوت خوری اور ٹھنڈ ماحول کے علاو اور کوئی چوتھا کام نہیں ہوتا تھا ۔

یہی وجہ تھی کہ قتل، ڈکیتی اور چوری جیسے بڑے بڑے کرائم میں ملوث ملزمان بھی سکون بغیر کسی پریشانی کے اپنے کالے دھندوں کو جاری رکھے ہوئے تھے اور جس کی وجہ سے کرائم میں خاطر خواہ اضافہ ہو رہا تھا۔ انوسٹی گیشن ونگ میں تعینات تھانیداروں کی موجیں تھی کہ پولیس کی تنخواہ کے علاوہ باقی تمام عیاشیوں کے اخراجات بدمعاش اور چور اچکے پورے کرتے تھے اور شہر کے اکثر تھانوں کے انچارج انوسٹی گیشن کے کمروں میں تو ان بڑے بڑے بدمعاشوں کو پورا پروٹوکول دیا جاتا تھا ۔

(جاری ہے)

یہی وہ وجوہات تھیں جس کی وجہ سے عوام النا س کا پولیس کے اوپر سے اعتبار ختم ہوتا جا رہا تھا اور افسران کی جانب سے کئے گئے بڑے بڑے دعووں اور کاموں کے باوجود بھی نفرتوں کا رشتہ طول پکڑتا جا رہا تھا۔
بھلا ہو ڈی۔آئی۔جی انوسٹی گیشن ڈاکٹر انعام وحید اور ایس۔ ایس۔پی انوسٹی گیشن ذیشان اصغر جیسے نیک دل، عبادت گذار اور خدمت خلق میں ہر دم مصروف رہنے والے افسران کا جنہوں نے آتے ہی تباہ حال انوسٹی گیشن ونگ میں انقلابی تبدیلیوں کا آغاز کیا اور یوں کچھ ہی دنوں کی سخت محنت کے بعد لاہور پولیس کا انوسٹی گیشن ونگ جہاں ملزمان کو پروٹوکول دیا جاتا تھا ، حرام خوری اور رشوت ستانی کا بازار گرم تھا، وہاں پہلے تو اس گھناؤنے دھندے میں ملوث افسران و ملازمین کو تبدیل کیا گیا، سزائیں دی گئیں اور بعدازاں نوجوان اور پڑھے لکھے افراد پر ایک خصوصی ٹیم بناتے ہوئے انہیں تھانوں میں تعینات کیا گیا ۔

بالخصوص انوسٹی گیشن ونگ کے خاص شعبے سی۔آر میں حسین فاروق جیسے قابل، ایماندار اور ادب سے دلی لگاؤ رکھنے والے افسر کو تعینات کر کے یہاں پہلے سے موجود اسٹیٹ آف دی آرٹ معاملات کو مزید بہتر بنایا جس کی بدولت انوسٹی گیشن ونگ کی قابلیت اور صلاحیتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حسین فاروق کو اپنی صلاحیتوں اور بہترین پرفارمننس کی بدولت پہلے ڈی۔

آئی۔جی انوسٹی گیشن اور اب ایس۔ایس۔پی انوسٹی گیشن کی جانب سے انعام ملا ہے۔ ان تما م اقدامات کی وجہ سے کچھ ہی دنوں میں انوسٹی گیشن ونگ میں خوشگوار تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔
ان تبدیلیوں کے پیچھے جہاں سب سے بڑی قوت کار فرما ہے وہ کھلی کچہریوں کا انعقاد اور یہاں آئے مفلوک الحال لوگوں سے شفقت اور محبت سے پیش آناہے جبکہ انعام وحید اور ذیشان اصغر کا اپنے رب کے ساتھ تعلق اور اسی تعلق کی بنا پر رب کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک ہے ۔

مجھے ایک مصدقہ ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ ذیشان اصغر کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو پابندی کے ساتھ شب بیداری کرتے ہیں اور تہجد میں اپنے رب کے حضور کھڑے ہوتے ہیں ۔ڈاکٹر انعام وحید بھی کچھ ایسی ہی روحانی شخصیت کے حامل انسان ہیں جس کا ثبوت ان کے وہ قول زریں ہیں جو اکثر و بیشتر ان کی طرف سے شئیر ہوتے ہیں اور نئی بات کے قارئین کے لئے اس میں سے چند پیش خدمت ہیں ۔


”ہر انسان کو خدا نے منفرد پیدا کیا ہے اور الگ صلاحیتوں سے نوازا ہے اسی طرح ہر انسان کی اپنی الگ رفتار ہے اور اپنا الگ انداز جو کہ رب کی دین ہے۔ لہذا کسی کا کسی سے مقابلہ نہیں ہے نہ ہی کچھ ثابت کرنا مقصود ہے۔“”جب طلب گار کے قلب پر“دستک”ہوتی ہے تو وہ لمحہ پوچھ کر نہیں آتا۔ اس لمحے کی ضرورت طلبگار کو ہے اس لیے شناخت بھی اسی کو کرنا ہے اور جواب بھی اسی کو دینا ہے۔

مانگتے رہا کرو شاید قسمت سے دستک ہو ہی جائے۔ شکوہ نہ کرو نہ در در کی ٹھوکریں کھاؤ۔ جب وقت آئے گا تب ہی کُن ہو گا۔“”انسان کی شخصیت کے کئی پہلو ہوتے ہیں جن میں اچھائی اور برائی شامل ہوتی ہے۔ جب تک لوگوں کو ان کی اچھائیوں سے دیکھنا نہیں شروع کریں گے آپ کو صرف برائی ہی نظر آئے گی۔ اور جو شخص اپنے آپ کو بہتر بنانے میں لگ جاتا ہے تواس کے لیے دوسروں کی غلطیاں نکالنا بے مصرف ہو جاتا ہے۔


بلاشبہ پولیس کا انوسٹی گیشن ونگ پوری تندہی کے ساتھ فعال اور منظم ہے ۔لیکن اب یہ بڑے بڑے کیسز کو ٹریس کرنے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے کیسز کو نظر انداز کر رہا ہے جس کا ثبوت اوباشوں کی طرف سے لاہور کی ایک ادبی شخصیت کے ساتھ رونما ہونے والا ایک واقعہ ہے جس کی ایف۔آئی۔آر جس کا نمبر4/20 تھانہ کوٹ لکھپت میں درج ہوئے ایک مہینے سے زائد کا عرصہ بیت گیا لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہ ہو سکی ہے ۔ میری انوسٹی گیشن ونگ کے حکام بالا سے درخواست ہے کہ ان چھوٹے چھوٹے معاملات کو بھی حل کروانے میں ذاتی دلچسپی لیں کیونکہ کل کو یہی چھوٹے واقعات بڑے واقعات میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :