اُردو زبان ، قومی اثاثہ

جمعہ 26 فروری 2021

Hafiza Ayesha Ahmad

حافظہ عاٸشہ احمد

دنیا کا ہر ملک اپنی قومی زبان کا احترام کرتے ہوۓ اسے سرکاری حیثیت دیتا ہے اور اسکا  سارا تعلیمی نصاب اور سرکاری ریکارڈ بھی ان کی اپنی مادری و قومی زبان میں پرنٹ کیا جاتا ہے تاکہ شہریوں کو پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہو ۔معروف لاٸبریریوں میں آج بھی دنیا کی قدیم ترین زبانوں پر مشتمل مجموعات موجود ہیں جنہیں اس دور کی قوموں نے اپنی شان سمجھتے ہوۓ محفوظ کیا تاہم بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان  میں ایسا نہیں ہے یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔

ہماری قومی زبان اردو اور سرکاری زبان انگریزی ہے جس سے ہماری غلامانہ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے ۔ دوسری طرف ملک میں دیگر کٸ زبانیں بھی بولی جاتی ہیں جنہیں سرکاری سطح پر قبول نہیں کیا جاتا ۔ پاکستان کا تعلیمی نصاب انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں پڑھایا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

سرکاری سطح پر قومی زبان کی پذیراٸ نہ ہونے کے باعث ہماری قوم گو مگوں کا شکار ہے ۔

ایک خاص طبقہ اردو بولنے کو اچھا نہیں سمجھتا اور انگریزی بولنے میں فخر محسوس کرتا ہے ۔ متوسط طبقہ اسے اپنی احساس محرومی سمجھتے ہوۓ خاص طبقے کی پیروی کرتے ہوۓ انگریزی بولنے کو ترجیح دیتا ہے اور دیکھا دیکھی یہ بیماری پھیلتی جا رہی ہے 74 برس گزرنے کے بعد بھی ہماری قومی زبان سرکاری سر پرستی سے محروم ہے جسکی وجہ کوٸ اور نہیں بحیثیت پاکستانی ہم خود ہیں ہم نے انگریزی زبان کو ہی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا ہے ۔

آج اگر کسی کو اردو نہیں آتی تو فخر سے بتاتا ہے جبکہ انگریزی نہ آنا شرمندگی کی بات سمجھی جاتی ہے حالانکہ اردو زبان عالمی زبان ہے اور یہدنیا کی کٸ جامعات میں پڑھاٸ جاتی ہے جن میں چین، ترکی، جرمنی اور بھارت شامل ہیں ۔ اور کٸ دوسرے ممالک میں اس پر کام ہو رہا ہے لیکن ہمارے ہاں اپنی قومی زبان کے فروغ کے لۓ کوٸ کام نہیں ہو رہا یہاں تک کہ ماٸیکرو سوفٹ وٸیر اور اردو ٹاٸپنگ ان پیج پر بھی کسی اور ملک نے کام کیا ہے یہ بھی پاکستان میں نہیں بنایا گیا ۔

اردو ٹاٸپنگ کا ایک سوفٹ وٸیر بھارت میں بنا ہے جو پاکستان کے لۓ اردو میں ہے لیکن اصل میں یہ انکی قومی زبان ہندی میں ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کو فروغ دیں تاکہ یہ زبان زندہ رہے اور ترقی کرے کیونکہ اردو زبان ہمارا فخر ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :