کورونا ویکسین۔پاک چین کاوشوں میں اہم پیش رفت

جمعہ 21 اگست 2020

Hammad Asghar Ali

حماد اصغر علی

جب سے دنیا وجود میں آئی ہے تب سے مختلف بیماریاں اور ان کے علاج کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری رہا ہے مگر کورونا نام کی حالیہ آفت شائد اپنی نوعیت کے اعتبار سے کچھ الگ ہی ہے ۔ما ہر ین کے مطابق کورونا وائرس کی وبا نے دنیا کو اس مرحلے پر لا کھڑا کیا ہے کہ جہاں کسی کو اندازہ نہیں ہے کہ کب کیا ہونا ہے ،کس سمت جانا ہے، منزل کونسی ہے او رقیام کہاں کرنا ہے
 ایک جانب کئی ماہ تک لاک ڈاؤن جار ی رہنے کے نتیجے میں معاشی بدحالی ،بھوک اور بے روزگاری کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے چوں کہ اتنے طویل عرصے تک معاشرتی طور پر دنیا سے کٹ کر رہنا انسان کی بنیادی فطرت کے خلاف ہے جس سے وہ اکتا جاتا ہے اور آخرکار سرکشی پر آمادہ ہو جاتا ہے تاہم اس خطرے کے بادل بھی سر پر منڈلا رہے ہیں کہ بندش مکمل طور پر ختم کرنے کی صورت میں یہ وبا ایک بار پھر زور پکڑ سکتی ہے اور ویسے بھی طبی ماہرین کا ایک حلقہ امر پر متفق ہے کہ اس وبا کی ایک او ر لہر آئے گی جو پہلے سے کئی زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے سبھی جانتے ہیں کہ اس وبا کی کوئی موثر دوا یا ویکسین کی ایجاد اگر برسوں نہیں تو خود ماہرین کے بقول مہینوں ضرور دورہے
دوسری جانب یہ امر بھی کسی حد تک تقویت بخش ہے کہ دنیا بھر میں اس موذی وائرس کے خاتمے کیلئے اجتماعی اور انفرادی ہر سطح پر انسداد کورونا ویکسین کی تیاری جاری ہے ۔

(جاری ہے)

روسی صدر پیوٹن نے تو یہ اعلان تک کر دیا ہے کہ مذکورہ ویکسین لگ بھگ ایجاد کر لی گئی ہے اور اس کا تجربہ انہوں نے خود اپنی بیٹی پر کیا البتہ امریکہ اورڈبلیو ایچ اونے اس بابت محتاط ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
 ایسے میں یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ پاکستان نے کووڈ 19 کی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کی منظوری دے دی ہے اور چین کی دو کمپنیاں حکومت پاکستان کے اشتراک سے اس ویکسین کی تیاری پر کام کر رہی ہیں۔

واضح رہے کہ ڈرگ ریگیولیٹری اتھارٹی نے اس ویکسین کی انسانی آزمائش کی اجازت دی ہے اور نیشنل انسٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز، اسلام آباد اور کراچی یونیورسٹی میں قائم انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولاجیکل سائنس میں ان آزمائشی مرحلوں کی نگرانی کی جا رہی ہے۔
آغا خان یونیورسٹی ہسپتال، شوکت خانم اور انڈس ہسپتال بھی اس آزمائشی تجربے کا حصہ ہیں۔

انڈس ہسپتال کراچی کے ڈاکٹر باری کے مطابق کلینیکل ٹرائل سے پہلے اس ویکیسن کا لیبارٹری میں ٹرائل کیا گیا اور دوسرے مرحلے میں جانوروں پر آزمائش کی گئی اور اب تیسرے مرحلے میں اس کی انسانوں پر آزمائش ہوگی۔ واضح ہو کہ ا س ویکسین کی آزمائش کے لیے صحت مند رضاکاروں کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کے لیے تشہیر ہوتی ہے اور اس کے بعد ان میں سے رضاکار منتخب کر کے انھیں آزمائشی ویکیسن لگائی جاتی ہے
آغا خان ہسپتال کراچی کے متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹروں کے مطابق سب سے پہلے چند لوگوں پر آزمائش ہوتی ہے جس کے بعد کچھ سو اور اس کے بعد ہزاروں پر تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس ویکسین کے نتائج کیا آ رہے ہیں اور آیا اس کا کوئی سائیڈ افیکٹ تو نہیں۔

دوسری جانب نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی ویکیسن کا پاکستان میں یہ پہلا کلینیکل ٹرائل ہوگا اور adveno virus type 5 vector کی تیاری میں چینی کمپنیاں کین سینو باؤلوجکس (CanSino Biologics) اور بیجنگ انسٹیٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی شامل ہیں۔
اسی تناظر میں این آئی ایچ اسلام آباد کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر میجر جنرل عامر اکرام نے کہا ہے کہ یہ کثیر الملکی اور ملٹی سینٹر ٹرائل ہے اور مذکورہ چینی کمپنی اس سے قبل چین، روس اور سعودی عرب میں ایسے تجربے کر چکی ہے۔

یاد رہے کہ ایک ویکسین کی آزمائش میں تعاون کے لیے اے جے ایم فارما این آئی ایچ سے گذشتہ ماہ معاہدہ کرچکی ہے اور اس سے پہلے آکسفورڈ یونیورسٹی کی طرف سے بنائی گئی کورونا وائرس کی ویکسین کے بھی انسانی ٹرائل کیے گئے جن کے ابتدائی نتائج کو بظاہر محفوظ اور مدافعت کے نظام کو بیماری کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانے والا پایا گیا۔
اسی ضمن میں آکسفورڈ یونیورسٹی کا تجربہ 1077 افراد پر کیا گیا اور انھیں انجیکشن لگائے گئے تاکہ وہ اپنے جسم میں اینٹی باڈیز اور وائٹ بلڈ سیل بنائیں جو کورونا وائرس کا مقابلہ کر سکیں۔

اس ویکسین کو جنیاتی طور پر تبدیل کیے گئے ایسے وائرس سے بنایا جا رہا ہے جو بندروں کو نزلہ زکام میں مبتلا کرتا ہے۔اس وائرس کو بہت زیادہ تبدیل کیا گیا ہے تا کہ یہ انسانوں کو بیمار نہ کر سکے اور یہ دیکھنے میں کورونا وائرس جیسا ہو جائے۔سائنسدانوں نے ایسا کرنے کے لیے کورونا وائرس کے جسم میں نوکوں کی طرح نکلے ہوئے پروٹین کی جننیاتی خصوصیات کو اس ویکسین میں منتقل کیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ویکسین کورونا وائرس سے ملتی جلتی ہوگی اور انسانوں کا مدافعتی نظام یہ سیکھ لے گا کہ کورونا وائرس پر کیسے حملہ کرنا ہے۔
 بہر کیف حرف آخر کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ ویکسین آنے والے دنوں میں کامیابی سے ہمکنار ہو تی ہے (جس کے واضح امکانات بھی ہیں )تو اس کے نتیجے میں نہ صرف پاک چین دوستی کو مزید فروغ ملے گا بلکہ دنیا بھر میں پھیلے اس موذی وبا کے خاتمے میں موثر اور اہم پیش رفت ہوگی ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :