بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کا فردِ جرم

ہفتہ 16 مارچ 2019

 Hammad Hassan

حماد حسن

11مارچ کو مرحوم بریگیڈیئر ریٹائرڈاسد منیر نے ٹویٹر پر ناصر کاظمی کا شعر لکھا !
کیا دن تھے جب نظر میں خزاں بھی بہار تھی
یوں اپنا گھر بہار میں ویراں نہ تھا کبھی 
ظاہرہے ایسے شعر کے سحر میں گم ہونے سے کوئی بہت بد ذوق آدمی ہی بچے گا لیکن شعری لطف کے ساتھ میں ایک بار پھر چونکا کیونکہ کچھ عرصے سے اس کے ٹوئیٹس خلافِ معمول اور کسی گہرے دکھ اور بے بسی کی طرف اشارہ کر رہے تھے ۔

میرا اندیشہ صحیح ثابت ہوااور اس کے صرف چار دن بعد چودہ اور پندرہ مارچ کی نصف شب اس نے اپنے آپ پر دوسرا” کامیاب “حملہ کیا اور پنکھے سے لٹک کر خودکشی کرلی۔پہلے حملے میں اپنی بیوی نے اسے تب بچایا جب اس نے اپنے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل سے اپنی پستول نکال کر اپنی کنپٹی پر رکھی تھی لیکن فائر کرنے سے پہلے ہی بیوی نے اس سے پستول چھین لیا اور پھر جانے کس وقت اس کی وفا شعار بیوی کی معمولی سی" غفلت" سے اس نے “فائدہ “ اْٹھایا اور ایک خوفناک فیصلے کو عملی شکل دے دی۔

(جاری ہے)

بریگیڈیئر اسد منیر ان افسروں کی طرح ہرگز نہ تھے جن کا ذہنی بانچھ پن ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں گمنامی کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے بلکہ اس کے اندر چھپی ہوئی دانشورانہ اور صحافیانہ صلاحیتیں اسے میڈیا میں لے آئیں اور یہاں اس نے اپنی خوبصورت تحریروں اور مدلل گفتگو سے اپنے آپ کو منوایا بھی اور اپنی پہچان کو بڑھایا بھی۔اس سلسلے میں ٹی وی ٹاک شوز اور اخبارات کے علاوہ سوشل میڈیا خصوصی طور پر اس کا سب سے بڑا ہتھیار بھی تھا اور مورچہ بھی۔

وہ ایک پروفیشنل اور نڈر فوجی رہا تھا اور بخوبی جانتا تھا کہ میّسرہتھیار اور مورچے کا استعمال کب اور کیسے کیا جاتا ہے سو اس محاذ پر بھی اس کی تیکنیکی مہارت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔
 وہ نواز شریف کے سخت نقاد تھے لیکن تہذیب کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیا بلکہ ہمیشہ دلیل سے وار کرتا اور وار بھی بہت کارگر ،تاہم کچھ عرصے سے اس کے خیالات کی تبدیلی اس کے فرینڈز لسٹ کو چونکاتی بلکہ ڈراتی رہی۔

بریگیڈیئر ریٹائر اسد منیر مرحوم کی اکلوتی بیٹی مینہ گبینہ (محبت و شہد ) کے نام سے ٹوئٹر پر کافی اکٹیو ہے اور حیرت انگیز طور پر اس کا جھکاوٴ باغیانہ جذبے سے لبریز ایک قوم پرست پختون جماعت کی طرف ہی رہا بلکہ ان کا مقدمہ سوشل میڈیا پر لڑتی رہی ہے۔
بریگیڈیئر اسد منیر مرحوم کافی عرصے تک پشاور میں ایک اہم انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ نہ صرف ایک ایماندار بلکہ حد درجہ دلیر افسر تھے۔

دوران ملازمت اس نے نہ صرف اپنی پیشہ ورانہ قابلیت بلکہ جنوں خیز دلیر پن کا لوہا ہر ایک سے منوایا اور وہ بھی ایسے حالات میں جب دہشت گردی کی خون آشام بلائیں کوچہ و بازار میں دندنانے لگی تھی۔بریگیڈیئر اسد منیر کی خودکشی رنج کے ساتھ ساتھ حیرت کے دروازے بھی کھول گئی ہے اور یہ سوال پیہم برس رہا ہے کہ ایک جانباز سپاجی جو سفاک اور وحشی درندوں کے سامنے کبھی نہیں کانپا تھا۔

وہ اپنے ملبے پر گرتی ہوئی کسی مخدوش عمارت کی مانند نیب نامی بدنام ادارے کے سامنے ڈھیر ہوگیا؟ایک سپاہی کے ساتھ ساتھ وہ یقینًا ایک دانشمند آدمی بھی تھا اور ظاہر ہے اس طبقے کے افراد اپنی عزت اور انّا کے معاملے میں کہیں زیادہ حساس ہوتے ہیں لیکن ضروری تو نہیں کہ اس حساسیت کو بزدل خوف ہی لپیٹ میں لے لے۔ اس لئے قبل از وقت رائے سے گریز ہی بہتر ہے۔

 تاہم اس بات کو اسد منیر کے بعض ٹوئیٹس تقویت دے رہے ہیں کہ نیب کی وجہ سے وہ شدید پریشانی میں مبتلا بھی تھے اور نالاں بھی مثلًاکچھ دن پہلے انہوں نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ پابند سلاسل بیمار نواز شریف کو علاج سے محروم رکھنا شدید نا انصافی ہے۔
مریم نواز نے تھوڑی دیر بعدہمدردی کے اس ٹوئیٹ پر بریگیڈیئر اسد منیر کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔

چودہ اور پندرہ مارچ کی درمیانی شب جب وہ ایک خوفناک فیصلہ کر چکا تو اس سے پہلے اس نے چیف جسٹس آف پاکستان کے نام خط میں لکھا کہ !
میرے جانے کے بعد تحقیقات کرالیں اور میرا نام کلیئر کرائیں کیونکہ میرے سارے اثاثے سب کے سامنے ہیں۔ میں اس اْمید پر جان دے رہا ہوں کہ اس نظام میں مثبت تبدیلیاں لائی جائیں گی۔جھاں نا اہل لوگ احتساب کے نام پر لوگوں کی زندگیوں اور عزتوں سے کھیل رہے ہیں ظاہر ہے اپنی موت سے چند لمحوں کے فاصلے پر کھڑا آدمی کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔

اس لئے اس بریگیڈئیر اسد منیر کے اس خط کو فرد جرم بنایا جائے جو ایک نڈر سپاہی کی حیثیت سے کبھی اپنے فرائض سے غافل نہیں رہا تھا ، خواہ وہ بارڈر کی طرف بڑھتے ہوئے دْشمن کے سامنے تھا یا شہروں میں چھپے ہوئے خونخوار قاتلوں کا پیچھا کرتے ہوئے اس نے کبھی شکست تو نہیں کھائی تھی ، کبھی پسپا تو نہیں ہوا تھا۔
پھر وہ بزدل وار کس کا تھا جس نے اس وطن کے ایک جانباز محافظ اوردلیر بیٹے کو گرا دیا۔ لیکن گرتے گرتے بھی اس سپاہی نے بڑا کارگر وار کیا کیونکہ اس کا آخری خط ایک ظالمانہ نظام کے خلاف فردِ جرم بھی ہے اور صبحِ نو کا دیباچہ بھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :