محبتوں کے پیاسے رشتے !

پیر 8 اپریل 2019

Hayat Abdullah

حیات عبداللہ

ر شتہ نا تا کو ئی بھی ہو ۔ا نتہا ئی د ل نشیں ا ور محبت آ فر یں ہو تا ہے ،آ پ ا پنے د ل کی تا ر و ں کو چھو کر د یکھیں تو ہر ر شتہ منفر د محبتو ں کا ا مین د کھا ئی د ے گا ، ا پنے ا رد گر د ا ورا پنے ما حو ل پر طا ئر ا نہ نظر ہی ڈ ا لیں تو آ پ کو ا پنے گر د ا جلے ر شتو ں کا ا یک ا نتہا ئی تا بنا ک ست ر نگا حصا ر ضر و ر د کھا ئی د ے گا ، وا لد ین کی نکھر ی نکھر ی محبتیں ، ا و لا د کی ا جلی اجلی چا ہتیں ،بیو ی بچو ں کا د ھنک ر نگ پیا ر ا وربہن بھا ئیوں کی تا بند ہ الفتیں ہر سمت آپ کے لیے دا من واکیے کھڑ ی د کھا ئی د یں گی مگر یہ د نیا کو کیا ہو چلا ؟کہ ان تما م ر شتو ں نا تو ں میں درا ڑ یں پڑ چکیں ، ہر طر ف ا یک کھلبلی سی مچی ہے ا ور ہرکو ئی ا پنی د ھن میں مست ہے ، لو گ ا ن ر شتو ں کے تقا ضو ں سے بے پر و اہو کر معلو م نہیں کن را ہو ں پر دو ڑ ے جا ر ہے ہیں ، وا لد ین ہو ں یا ا و لا د ایک دو سر ے کی محبتو ں کی پیاس سے نڈ ھا ل د کھا ئی د یتے ہیں ،بہن بھائی ا ور خا و ند بیو ی میں ا تنی خلیج حا ئل ہو چکی ہے کہ ا سے پا ٹنا مشکل ہو تا جا ر ہا ہے ، لو گ ا س قد ر ر وکھے ا ور پھیکے ہو چکے ہیں کہ ا ن رشتو ں کی قر بت ، ان کی نز ا کت ا ور تقا ضو ں کا ذ را ا حسا س تک نہیں ،بے حسی ا ور بے ر خی کا د یمک ہر تعلق کو چا ٹ کر ا ند ر سے کھو کھلا کر تا جا ر ہا ہے ، کتنے ہی گھر و ں میں تو یہ تعلق ا ور ر شتے مستقل بنیا د و ں پر ا یک خا ر ا ور آ ز ا ر بن کر ز ند گی بھر کا ر وگ بن گئے ہیں ۔

(جاری ہے)

یہ گھر ا نے لو لے لنگڑ ے تعلقا ت کے سا تھ ز ند گی کے ا س سفر پر گر تے پڑ تے ، سسکتے ا ور لا ٹھیا ں ٹیکتے چلے جا ر ہے ہیں ، یہ لو گ ا پنی بے پر و ا ئی ، بے ا عتنا ئی ا ور بے ر غبتی پر ا تنے ڈ ھیٹ بن چکے ہیں کہ ا پنے د لو ں میں نر ما ہٹ کا کو ئی گو شہ پید ا کر کے تعلقا ت بحا ل کر نے پر آ ما د ہ ہی نظر نہیں آ تے،ا گر ہم ا پنے د لو ں میں محبتو ں کے لیے تھو ڑ ی سی گنجا ئش پیدا کر لیں تو یقین کر یں کہ یہ چاہتیں آپ کے دروازہ ٴ دل پر دستک دے کر آپ کے تن من میں سماجائیں گی ۔

بوڑھی و الد ہ گھر کے کسی کو نے میں پڑ ی سسک ر ہی ہے مگر محبتو ں کا رخ ا س طر ف مڑ تا ہی نہیں،قبر میں پا و ں لٹکا ئے بو ڑ ھا وا لد کسی کو ٹھڑ ی میں پڑ ا کھا نس کھا نس کر ا د ھ مو ا ہو چکا ہے مگر مر و ت ا ور مودت ا دھر جھانکنے کے لیے تیا ر ہی نہیں ، بیوی را ت گئے تک گھر میں منتظربیٹھی ہے ، گھر سے با ہر دو ستو ں کے سا تھ خو ش گپیو ں میں مصر و ف خا و ند کو ذ را ا حسا س ہی نہیں کہ کو ئی ا س کے لیے پلکیں بچھا کر بیٹھا ہے ا ور کتنی ہی بیگمات ا یسی ہیں کہ جن کی میک ا پ کٹ میں مو جو د کو ئی ا یک چیز بھی ا پنے خا و ند کے لیے نہیں ،گھر سے با ہر جا تے و قت وہ میک ا پ سے لد جا تی ہیں مگر گھر میں ان کے ا ند ر پھو ہڑ پن کو ٹ کو ٹ کر بھر ا ہو تا ہے ،شا د ی کو بر سو ں بیت چکے مگر یہ خا و ند ا ور بیو ی ا یک دو سر ے کے ہو کر بھی ا یک دو سرے کے نہ ہو سکے۔


سائنس دان اب تمام جذبات اور احساسات پر تحقیقات میں لگے ہوئے ہیں اور ہر روز نئی بات کھوج نکالتے ہیں، سائنس آج نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات بگاڑ نے سے انسان کی عمر کم ہوتی ہے، ڈنمارک کے محققین کہتے ہیں کہ بیوی، دوستوں یا رشتوں داروں کے ساتھ اکثر ہونے والی بحث اور جھگڑوں سے درمیانی عمرمیں موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے،کمیونٹی ہیلتھ کے ایک میگزین میں ایک محقق کاکہنا ہے کہ مسلسل ہونے والی بحث سے مردوں اوربے روزگار لوگوں کو زیادہ خطرات ہوتے ہیں، کوپن ہیگن یو نیورسٹی کے محققین کہتے ہیں مسلسل بحث اور جھگڑے سے موت کی شرح میں اضافہ ہوسکتاہے ، اس سے قبل یہ تحقیق بھی ہوچکی ہے کہ جو انسان اپنی بیوی ، بچوں اور خاندان کے قریبی افراد کے ساتھ اکثربحث میں الجھتاہے اسے دل کے امراض کا حد سے زیادہ امکان ہوتا ہے، اس کے علاوہ ایساشخص بلڈ پریشر کا مریض بن سکتا ہے۔

جدید تحقیق کے مطابق بحث اور جھگڑے سے پیدا ہونیوالے دباؤ کا اثر سب سے زیادہ مردوں پر پڑتاہے ،اس سے کولیسٹرول کی مقدار بڑھ جاتی ہے ، جو دل کے امراض کا سبب بنتی ہے۔اس مطالعہ میں36 سے52 سال کے 9857 مرد او خواتین کو شامل کیا گیا ، ان کی معلومات سے اس بات کے امکانات کو تلاش کر نے کی کوشش کی گئی کہ کشیدہ معاشرتی تعلقات اور جلد موت کے درمیان کیا تعلق ہے؟اس مطالعے کے دوران یہ انکشاف ہو اکہ شریک حیات اور بچوں کی طرف سے کیے جانے والے مسلسل اور روزروزکے جھگڑوں سے موت کے خطرات میں 50سے100 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔

کوپن ہیگن یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ ویسے تو تشویش او ر جھگڑے روزہ مرہ زندگی کا حصہ ہیں لیکن جن لوگوں کی اپنے نزدیکی رشتہ داروں یاپارٹنر سے کھٹ پٹ رہتی ہے، انہیں دل کے دورے کا خطرہ زیادہ ہوتاہے۔
 جدید دنیا کے سائنس دانوں کو اس حیرت انگیز انکشاف پر اچنبھا کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ، اس لیے کہ مسلمانوں کے نبی حضرت محمد ﷺ آج سے قریباً چودہ سو سال قبل ساری انسانیت کو یہی بات و اشگاف الفاظ میں بتا چکے ہیں جسے آج یورپ اور امریکاکے سائنسدان لیبارٹریز میں کھوجنے کے لیے خون پسینہ ایک کر چکے ہیں، حدیث کی سب سے زیادہ معروف کتاب صحیح بخاری شریف کو اٹھا لیجیے اور حدیث نمبر5986 کا مطالعہ کیجیے۔

نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جسے یہ پسند ہو کہ اس کی روزی میں کشادگی اور اس کی عمر میں اضافہ ہوتو اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے ، سائنس کے محققین کو سائنس کے میدان میں تجربات کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے کہ وہ حقائق جنھیں آج کی سائنس درست ثابت کر چکی ہے، ان کے متعلق قرآن اور احادیث کیا کہتی ہیں؟ سائنس آج دنیا کو باور کر وا رہی ہے کہ کشیدہ خاطر تعلقات سے انسان کی عمر گھٹتی ہے جبکہ آج سے چودہ سوسال قبل حضرت محمد ﷺ یہی بات بیان فرما چکے ہیں کہ صلہ رحمی کرنے سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔

میں کہتا ہوں ابھی سائنس کی یہ تحقیق ادھوری ہے اس لیے کہ نبی ﷺ نے صلہ رحمی کو صرف عمر میں اضافے کا سبب بیان نہیں فرمایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ رزق میں اضافے کا باعث بھی بتلایا ہے ، قطع رحمی ایسا فعل ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث نمبر5984 کے مطابق قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا، محبتیں بانٹنے اور صلہ رحمی تقسیم کرنے کے متعلق متعدد احادیث موجود ہیں ۔

جامع ترمذی حدیث نمبر2511 میں ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ، ظلم و زیادتی اور قطع رحمی دو ایسے جرائم ہیں کہ اللہ تعالیٰ آخرت کی سزا کے ساتھ ساتھ دنیا میں ہی ان کو فوری سزا بھی دے دیتا ہے ان دو جرائم کے علاوہ کوئی جرم ایسا نہیں کہ جس کی سزا کا اللہ اس طرح اہتمام کرتا ہو، صلہ رحمی کے متعلق یہ انتہائی لطیف اور حساس بات بھی نبی ﷺ نے ارشاد فرمائی کہ بدلے میں صلہ رحمی کرنے والا حقیقت میں صلہ رحمی کرنے والا نہیں بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب قطع رحمی کی جائے تب وہ صلہ رحمی کرے۔

(صحیح بخاری ، حدیث نمبر5991 )
اپنوں کی بے اعتنائی ، بے وفائی اور بے رحمی کی خراشیں انسان کے دل پر اتنی گراں گزرتی ہیں کہ یہ بھلائے نہیں بھولتیں ،ا س لیے کہ وہ اپنے ہوتے ہوئے بھی اپنے نہیں بنتے، اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ان کا بننے کی کوشش کی ہے؟
اس زخم کو بھرنے میں بہت دیر لگتی ہے
 جس زخم میں شامل ہوں اپنوں کی عنایات
 معلوم نہیں ہم لوگ کن سانچوں میں ڈھل گئے ہیں کہ جو لوگ زندہ ہوتے ہیں ہم ان کو اہمیت نہیں دیتے اور جب ان میں کوئی دنیا سے رخصت ہو جائے تو پھر ان کی خوبیوں کو یاد کرکے روتے ہیں کیا یہ بات عجیب نہیں کہ ہمیں زندہ لوگوں میں خامیاں ہی خامیاں دکھائی دیتی ہیں جبکہ مرنے والوں میں خوبیاں ہی خوبیاں؟ کتنے ہی رشتے اب بھی ہماری محبتوں کی پیاس سے نڈھال ہیں، بوڑھے والدین اپنی اولاد کی محبت کی آس لگائے بیٹھے ہیں ، مگر دوستوں پر سب کچھ وار دینے والوں کے منہ میں والدین کے لیے دو محبت بھرے بول تک نہیں، یہ چاند کی سی ٹھنڈک کا احساس رکھنے والے رشتے ، تپنے کیوں لگے ہیں؟ ان میں وہ رنگارنگی ، وہ تنوع اور وہ بانکپن کیوں باقی نہیں رہا جو ہمارے اسلاف کا شعار تھا، رشتوں کی یہ کھٹاس ، مٹھاس میں کیوں نہیں بدل رہی، اسلام سے دوری کے بعد سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم خودان جھلستے اور آگ برساتے موسموں میں بارش کا پہلا قطرہ بننے پر آمادہ نہیں، ہم ان گرم ہوا کے جھکڑوں میں بادنسیم کا پہلا جھونکا بننے کے لیے تیار نہیں، یہ ماحول اور معاشرہ اسی وقت بہار افروز ہوگا جب ہم سب مل کر رشتوں ناتوں میں وہی رنگ بھردیں گے جس کی تعلیم اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ہمیں دی اور اب جدید سائنس بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے۔


چلو اب مل کے ہجرو حبس کا موسم بدلتے ہیں
ذراسا تم بدل جاوٴ ، ذرا سا ہم بدلتے ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :