مرد غالب معاشرہ یا عورت غالب معاشرہ

بدھ 29 جنوری 2014

Hussain Jan

حُسین جان

پاکستان کو اُن ممالک کی فہرست میں نمایاں مقام حاصل ہے جن ممالک میں خواتین پر گھریلو تشدد عام بات ہے۔ پاکستان کو مرد غالب معاشرہ(Male Dominant Society)ہونے کا بھی عزاز ہے۔ خواتین کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات پورے عالم کا مسئلہ ہے اگر خواتین کی عصمت دری کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی جائے تو اس جرم پر کافی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔ ہمارا موضوع خواتین پر گھریلو تشدد یا جنسی تشدد نہیں ہے۔

بلکہ وہ "مقام "ہے جو ہماری سوسائٹی کے بڑئے بڑئے لوگ خواتین کو دیتے ہیں۔ ان بڑئے بڑئے لوگوں میں تمام طبقہ زندگی کے لوگ شامل ہیں۔
تو سب سے پہلے بات کرتے ہیں آجکل کے اساتذہ اکرام کی، دُنیا کے تمام ممالک میں اساتذہ اکرام کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ قوم کا مستقبل انہی کے ہاتھوں پروان چڑھتا ہے۔

(جاری ہے)

لیکن ہمارے آجکل کے ٹیچرز فی میل سٹوڈینٹ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

اُس کی ایک مثال تو ہم خود ہیں قصہ کچھ یوں ہے کہ جامع پنجاب میں ہمارے ایک کلاس فیلو کو ٹیچر صاحب ااسائنمنٹ کے لیے اصافی وقت دینے پر تیار نہیں تھے جس کی وجہ سے وہ کافی پریشان تھاپھر ایک دم ہماری ایک کلاس فیلو نے آکر کے ہمیں بتایا کہ انہوں نے سر سے مزید وقت لے لیا ہے،ہمیں خوشی کے ساتھ ساتھ حیرت بھی ہوئی کہ جب ہمارا دوست سر کی منت سماجت کر رہا تھا تو سر بار بار اصول پرستی کی باتیں کر رہے تھے مگر ایک لڑکی کے کہنے پر فوراً راضی ہو گئے۔

اس طرح کی مثالیں آپ کو پورے پاکستان کے کالجز اور یونیورسٹیوں میں ملیں گی۔
اب آتے ہیں صحافیوں کی طرف جیسا کہ ہم نے بھی صحافت کی تعلیم حاصل کر رکھی ہے یہ الگ بات ہے کہ ہمارا شمار بھی نااہل ڈگری ہولڈرز میں آتا ہے۔ ہمیں ملک کے نامور صحافی اساتذہ سے تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہے اور ہمارے بہت سے اساتذہ اکرام ہم سے وعدہ بھی کر چکے تھے کے ہم اپنی پوری کوشش کریں گے کہ آپکی ڈگری ختم ہونے کے فوراً بعد ہی کسی نہ کسی میڈیا گروپ میں چھوٹی موٹی نوکری دلوا دیں۔

مگر یہاں بھی عورت غالب معاشرہ آڑے آگیا ہم بڑئے چاہ سے ایک استاد محترم کوجو ایک بڑئے میڈیا گروپ میں کافی اثرو رسوخ رکھتے ہیں اپنا بائیوڈیٹا دے کر آئے مگر دو سال ہونے کو ہیں آج تک اُن کے جواب کے منتظر ہیں۔ لیکن سننے میں آرہا ہے کہ جناب کافی فی میل سٹوڈینٹز کو نوکری دلوا چکے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک خاتون کالم نگار نے لکھا تھا کہ لڑکیاں بہت جلدی ترقی کرتی ہے لیکن تفصیل لکھنے کی ہمت اُن میں بھی نہیں تھی۔

آپ کسی بھی ادارے میں چلے جائیں آپ کو مرد حصرات مصعومیت کی تصویر بنے بیٹھے نظر آئیں گے۔ اقتصادیات کے معاملات جو کہ زیادہ تر بینکوں میں ہوتے ہیں وہاں بھی مخالف جنس براجمان ہے۔ ہاں ٹی بوائے اور چوکی داری کے لیے مرد حضرات کی ہی ضرورت پڑتی ہے۔
ہمارے سیاستدان بھی کسی سے پیچھے نہیں خواتین کہ عزت دینے میں یہ بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔

سرکاری نوکری کے لیے آپ ان کے پاس چلے جائیں تو مہہنہوں ان سے ملاقات ہی نہیں ہو پائے گی، لیکن جیسے ہی کوئی خاتون چلی جائے تو کسی پکے بندے کو کیوں نہ نکالنا پڑئے جاب حاضر کر دیں گے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے بہت سے میل دوست حضرات ماسٹرز کرنے کے بعد بھی 12000ہزار کی نوکری کر رہے ہیں مگر جب کسی پرانی کلاس میٹ سے تنخواہ کے بارے پوچھا جائے تو جواب ملتا ہے 35000ہزار کیا یہ مرد غالب معاشرہ ہے۔


اسی طرح گھروں میں بھی عورتوں کی اجاراہ داری ہے کس سے ملنا ہے کس کے گھر جانا ہے کہاں پیسے خرچ کرنے ہیں یہ سب فیصلے خواتین کے ہاتھ میں ہیں۔ موجودہ دور میں خواتین کی سب سے بڑی دشمن خود خواتین ہی ہیں۔ اگر یہ بیوی ہے تو شوہر کوساس کے خلاف بھڑکاتی رہے گی، ساس ہے تو بہو کے خلاف بیٹے کے کان بھرتی رہے گی، نند ہے تو بھابھی کے خلاف،بھابھی ہے تو نند کے خلاف، اس ساری لڑائی میں مرد بیچارا قربانی کا بکرا بنتا ہے۔

خواتین پر گھریلوں تشدد کی سب سے بڑی وجہ بھی خواتین ہی ہیں جو مرد حضرات کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔ ان کی آپسی چکلس سے گھریلومعاملات خراب ہوتے ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ اکثر یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ موجودہ دور میں پاکستان میں خاندانی نظام کو جتنا نقصان آجکل کی خواتین سے پہنچا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ سنا ہے پہلے تعلیمی اداروں میں خواتین کا کوٹہ ہوا کرتا تھا کہ وہ تعلیم کی طرف کم آتی تھیں لیکن اب تو سوچا جا رہا ہے کہ لڑکوں کا کوٹہ مختص کر دیا جائے کیونکہ ان کو تعلیم سے کوئی شغل نہیں رہا۔


سرکاری محکموں میں تو ابھی بھی کہیں کہیں مرد حضرات نظر آجاتے ہیں مگر نجی دفاتر میں تمام کام خواتین نے ہی سنبھال رکھے ہیں۔ اس کالم کے بعد ہوسکتا ہے کافی اختلافی بیانات سامنے آئیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو جو ترجہی دی جا رہی ہے وہ ٹیلنٹ کی بنا پر نہیں ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بہت سی خواتین اپنے علم و فراست کی بنا پر اپنا فیوچر بناتی ہے لیکن بہت سی اسی نہیں بھی ہیں۔

خوبصورتی اچھی چیز ہے لیکن ایک دن اُسے ڈھلنا ہوتاہے اور اُس وقت آپ کے کام صرف اور صرف نالج ہی آتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود دُنیا ہمارے معاشرے کو مرد غالب معاشرہ گردانتی ہے۔ جبکہ حقیقت میں ہمارا معاشرہ عورت غالب معاشرہ بن چکا ہے۔ جہاں عورتیں خود کو مردوں کے برابر ثابت کرنے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار رہتی ہیں۔ ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہو گی اپنی اپنی زمہ داری پوری کرنا پڑئے گی تاکہ معاشرے میں جڑ پکڑتے فساد کو کم کیا جاسکے۔ اور خاندانی نظام کو اُس کی اصل حالت میں بہال کیا جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :