ذخیرہ اندوزی

جمعہ 16 جنوری 2015

Hussain Jan

حُسین جان

"ایک سے ہزار بوری تک ہم سے سستے چاول خریدیے اور گھر میں رکھیں چند ماہ بعد سیزن میں اس سرمائے کو ڈبل کریں"یہ ایک موبائل میسج ہے جو ہمیں ابھی ابھی موصول ہوا ہے جس میں کھلے عام ذخیرہ اندوزی کی ترغیب دی جارہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص مسلمانوں کا غلہ(کھانے پینے کی چیزیں)روکے رکھے یعنی باوجود ضرورت کے فروخت نہ کرئے تو اللہ تعالیٰ اس پر کوڑھ اور تنگدستی فرما دیتے ہیں (ابن ماجہ)اسلام میں زخیرہ اندوزی کی سخت مذمت کی گئی ہے کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے روپے پیسے کے بل بوتے پر کسی چیز کو اپنے پاس روکے رکھے اور پھر مہنگے داموں آہستہ آہستہ بیچتا رہے۔

اللہ تعالی نے انسانوں کی بھلائی کے لیے کام کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ انسان ہی انسانوں کی زندگی تنگ کر دیں۔

(جاری ہے)

اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اس مکرو دھندے میں حکومت وقت بھی شامل ہے۔ کیونکہ حکومت کی طرف سے بنائے گئے ادارئے جو اس قسم کی وارداتوں کو روکتے ہیں وہ بری طرح فیل ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ہمارا ایک سرکاری ادارا پیمرا بھی ہے جس کی زمے ملک کے تمام میڈیا کو دیکھنا ہے چاہیے وہ موبائل میڈیا ،سوشل میڈیا ،پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا ہو ،لیکن بدقسمتی سے ہمارا یہ ادارا اپنی زمہ داریا ں نبھانے میں بوری طرح فیل ہو چکا ہے۔


12ربیع الاول کوہمارے ایک دوست نے ایک سینما کی تصویر اپنی پوسٹ پرلگائی جس میں جعلی حروف میں لگا ہوا تھا کہ جشن عید ملاد النبیﷺ کی خوشی میں فلم کے چار شو چلائے جائیں گے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی حکومتی ادارئے نے اس بورڈ کا نوٹس نہیں لیا کہ کیاسینما مالکان کو ایسی حرکتیں زیب دیتی ہیں۔ پوری دُنیا میں تو پہلے ہی اسلام کے بارئے میں منفی رویات جنم لے رہی ہیں اوپر سے ہمارے اپنے لوگ بھی کسی قسم کی کسر نہیں چھوڑتے۔


اگر حکومتی ادارئے اپنی زمہ داریاں ایمانداری سے ادا کریں تو عوامی مسائل کافی حد تک کم ہوسکتے ہیں۔ اپنے ہاں تو یہ حال ہے کہ لوگ رمضان سے پہلے بہت ہی کھانے پینے کی چیزیں جمع رکھ چھوڑتے ہیں اور پھر رمضان جیسے مقدس مہنے میں منہ مانگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ زخیرہ اندوزی کی اور بھی بہت سی اقسام ہے۔ مثلا بڑئے بڑئے سٹور فیکٹریوں سے پورا پورا مال خرید لیتے ہیں جس سے مارکیٹ میں کمی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر یہ سٹورز والے اپنی مرضی سے مال کو مارکیٹ میں لا کر بیچتے ہیں اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔

حضرت معاز رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والا بندہ برا ہے ،اگر اللہ تعالیبھاؤ سستا کردے تو غمگین ہوتا اور اگر مہنگا کردے تو خوش ہوتا ہے۔ (مشکوہ شریف) دیکھا جائے تو نیکی کی طرح بدی کی بھی کئی اقسام ہوتی ان میں کچھ تو ایسی ہوتی ہیں جن کا تعلق محض فرد سے ہوتا ہے اور دوسری اپنے اثرات کے لحاظ سے ہمہ گیر،وسیع اور متعدی ہوتی ہیں۔

زخیرہ اندوزی بھی ایک اسی بدی ہے جس کے اثرات فرد واحد پر نہیں پڑتے بلکہ بہت سے لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ہماری حکوتیں اس مد میں سوائے بیانات دینے کے کچھ نہیں کرپاتی۔ اس حوالے سے قانون تو موجود ہیں پر ان پر عمل درامد کرنے والے کوئی نہیں۔ اور جنہوں نے اس پر عمل کروانا ہوتا ہے وہ ہی کچھ پیسوں کے عوض اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں۔
چور بازارایسی دولت کا طالب ہو تا ہے جس کا وہ مستحق نہیں ہے اور اس دولت کے لیے وہ معاشرئے کے ایسے اصولوں کو قربان کرتا ہے جو اجتماعی راحت کے لیے وضع کیے جاتے ہیں۔

ایک بات یہ بھی سمجھنے کی ہے کہ چور بازار کوئی عام یا غریب آدمی نہیں ہوتا یہ بہت بڑئے بڑئے سرمایا کار ہی ہوتے ہیں جنہوں نے اپنا مال چھپانے کے لیے بڑئے بڑئے گودام بنوائے ہوتے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ کچھ سامان ایسا بھی ہوتا ہے جس کی زخیرہ اندوزی کے لیے کولڈ ہاوسز کی بھی ضرورت پڑتی ہے جو کسی چھوٹے سرمایاکار کے بس کی بات نہیں ،بڑئے سرمایا داروں کے پاس تو پہلے سے ہی بہت پیسہ ہوتا ہے مگر مزید پیسے کے لالچ میں یہ لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔

انہیں کبھی احساس نہیں ہوتا کہ جب ان کا مال مہنگے داموں مارکیٹ میں جائے گا تو بہت سے غریب لوگ اس مال کو نہیں خرید پائیں گے جس سے ملک میں انتشار پھیل سکتا ہے۔ لوگوں میں مایوسی پیدا ہوسکتی ہیں اور جس کو دور کرنے کے لیے لوگ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ اسلام ایک فلاحی دین ہے وہ ہمیشہ اپنے لوگوں کی مدد کی تلقین کرتا ہے۔ بھائی چارئے کی فصا ء کو عام کرنے کی دعوت دیتیا ہے۔

ہمارا دین ہمیں بتاتا ہے کہ جب کوئی بھائی مصیبت میں ہو تو اُس کی مددکیجائے نہ کہ اپنے پیسے کے زور پر اُس کی زندگی کو مزید اجیرن بنا دیاجاے۔ اسلام تجارت کو عبادت سمجھتا ہے ہمارے حضورﷺ نے بھی تجارت فرمائی اور ایسی فرمائی کہ آج تک لو گ اُس کی مثالیں دیتے ہیں۔ انہوں نے تجار کے اصول عملی طور پر ہمیں بتائیں کہ تجارت کس طرح کی جاتی ہے۔ اس میں اپنے مفاد کے ساتھ ساتھ دوسروں کے مفادات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔

جس تجارت کی اساس ہی چور بازاری ، ذخیرہ اندوزی اور ہوس زر ہو اُس کو ہمارا دین تجارت نہیں مانتا وہ بلکہ وہ تو انسانیت کے ساتھ دھوکہ ہے۔ اسی طرح مال کم تولنے اور کم ناپنے کی بھی ممانعت کی گئی ہے۔ حلال رزق کمانے والے کو اللہ نے اپنا دوست کہا ہے۔ اگر ہم اپنی روزی کو حلال نہیں بنا سکتے تو اس کا مطلب ہم اللہ سے دشمنی مول لے رہیں ہیں اور اللہ سے کوئی نہیں جیت سکتا وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اللہ کے آخری رسولﷺ کا ارشاد پاک ہے کہ ذخیرہ اندوزی غلط کا ر آدمی ہی کرسکتا ہے۔ ایک اور جگہ پر ارشار نبویﷺ ہے کہ جو شخض (عوام کی ضرورت کے باوجود اشیاء خوردونوش کی)ذخیرہ اندوسی کرئے تو وہ گنہگار ہے(سعی مسلم)
لیکن افسوس ہے اس معاشرئے کے تاجروں اور سرمایا کاروں پر جو اس کے باوجود بھی ذخیرہ اندوزی سے بعض نہیں آتے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی مصیبت میں مبتلا کرتے ہیں۔

ہماری حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے لوگوں کو سخت سے سخت سزا دے تاکہ دوسروں کے لیے بھی عبرت بن سکے۔ اور اس کے لیے ہمیں یہ کام وزیروں مشیروں سے ہی شروع کرنا پڑئے گا۔ ہمارے ہاں ہر موسم میں چیزیں ناپید ہوجاتی ہیں۔ جب پیٹرول کی مانگ بڑھ جاتی ہے تو وہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتا۔ جب گیس کی ضرورت پڑئے تو وہ ختم ہو جاتی ہے۔ جب شادیوں کا سیزن ہوتا ہے تو اُس سے متعلقہ چیزیں مارکیٹ سے غائب ہوجاتی ہیں۔ یہ موسمی قلت ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہی ہے۔ پاکستانی عوام تو بیچارے پہلے ہی بہت سے مسائل کا شکار ہیں اوپر سے یہ ذخیرہ اندوز ں نے اُن کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ پتا نہیں حکومت کا دھیان اس طرف کب آئے گا۔ فی الحال تو ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :