غیر ملکی بیویاں

جمعہ 1 فروری 2019

Hussain Jan

حُسین جان

تازہ ترین اطلاع ہے کہ پاکستان کے 120سرکاری افسران نے غیر ملکی خواتین سے شادیاں کر رکھی ہیں۔ ان خواتین میں لگ بھگ تمام ممالک بیویاں شامل ہیں۔ ہمارئے سرکاری افسران بھی بیچارے کیا کریں۔ ملکی بیویاں ان کو ایسے راس نہیں آتی جیسے پاکستانی عوام کو ڈکٹیٹر شپ کی حکومت ۔ ویسے ایک بات ماننی پڑئے گی کہ یہ افسران بڑئے دل گردے والے ہیں کہ سمندر پار سے بیویاں لے آئے ہیں۔

وگرنہ آجکل تو ہر طرف چینی لڑکوں کی خبریں ہی چل رہی ہیں جو ڈھڑا ڈھڑپاکستانی لڑکیوں سے شادیاں کر رہے ہیں۔
جس طرح ثانیہ مرزا کی وجہ سے پورا انڈیا ہمارا سسرال بنا ہوا ہے ایسے ہی ان سرکاری افسران کی بدولت تمام ممالک جن میں ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں ہمارے مشترکہ سسرال ہی ہوئے۔

(جاری ہے)

اور اپنے ہاں تو داماد کی عزت یوں کی جاتی ہے جیسے عید قربان پر قربانی کے جانور کی کی جاتی ہے۔

اس حساب سے تو یہ ٹھیک ہی ہوا کہ امریکہ ،یورپ والے ہمارے احکامات ماننے کے پابند ہوں گے نہیں تو اُن کی بیٹی کو فوراً گھر بھیج دیا جائے گا۔ بالکل ایسے ہی جس طرح ہمارے گاؤں اور شہروں کی ساسیں اپنی بہو کے ساتھ کرتی ہیں۔
اسد عمر بھی بھولے بادشاہ ہے جو مشرقی وسطہ کے ممالک سے قرضہ مانگتے پھرتے ہیں۔ اُن کو چاہیے کہ ڈرایکٹ امریکہ سے رابطہ کریں اور اُن کو حکم صادر کریں کہ بھائی جہیز کی مد میں ہمیں اتنے کروڑ ڈال ادا کیے جائیں ورنہ اپنی کڑی واپس لے جاؤ۔

ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے جس طرح چینی لڑکے پاکستانی لڑکیوں سے شادیاں کررہے ہیں اس طرح تو پاکستانی لڑکے لڑکیوں کو ترس جائیں گے۔ اور بوڑھی عورتیں ساس بننے کی خوائش دل میں لیے ہی عدم پدھار جائیں گی۔ لہذا پاکستانی لڑکوں کو چاہیے کہ بدلہ لینے کے لیے یوں چینی لڑکیوں سے شادی کریں جس طرح وہ کررہے ہیں۔ اور یہاں بھی بس نا کریں بلکہ اس مد میں پورئے پورئے شریعت پر عمل کریں یعنی چار چار اکھٹی ہی کر لیں۔

ویسے بھی چین آبادی کے اعتبار سے دُنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔
چلیں ہم واپس بات کرتیں ہیں سرکاری افسران کی جن کو پاکستان میں کوئی بیوی نہیں ملی۔ ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمارے ہاں یہ نہیں کہا جاتا کہ اسے کوئی دیتا نہیں تھا اُسے کوئی لیتا نہیں تھا کے مصدق ہی ہمارے سرکاری افسران باہر منہ مارنے پر مجبور ہوئے۔ ویسے بھی کرپشن کا پیسہ باہر لے کر جانے میں آسانی رہتی ہے۔

ظاہر ہے اب بیوی کو خرچہ پانی تو دینا ہی پڑتا ہے۔ ایسے سرکاری افسران پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ ان کی بدولت دوسرئے ممالک کو کروڑوں روپیہ خرچ کر کے جاسوس بھرتی کرنے کی ضرورت نہیں کہ یہ صاحبان اس ضرورت کو بخوبی پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور ویسے بھی بیوی اور سسرال کا حکم سر ماتھے پر ہوتا ہے۔
کچھ بدخواہ کہتے پائے جارہے ہیں کہ ان افسران کو فوراً نوکریوں سے نکالا جائے یہ وہی لوگ ہیں جن سے غیر ملکی تو کیا ملکی خواتین بھی شادی نہیں کرتیں ۔

لہذا ان کی باتوں پر دھیان دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بندہ پوچھے جہاں ہم لاکھوں چیزیں غیر ملکی استعمال کر رہے ہیں وہاں ایک عدد بیوی سے کیا قیامت آجائے گی۔ ویسے غیر ملکی بیوی ہونے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ روز روز سسرال جانے کے جھنجھٹ سے جان چھوٹ جاتی ہیں۔ کیونکہ اپنے ہاں کی بیویوں کو تو روس ہی میکے کی یاد ستانے لگتی ہے۔ ان افسران کی تنخواہ میں فورا اضافہ کیا جائے کیونکہ غیر ملکی میک اپ بھی بہت مہنگا ہوتا ہے اور بے چارئے یہ اخراجات کیسے پورے کرتے ہوں گے۔

نہیں تو ان کو اپنی بیگمات کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کرپشن کرنی پڑتی ہے اور اس سے ملک کے تمام ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ یا پھر حکومت کو چاہیے کہ ایسے افسران کا تبادلہ اُسی ملک کردیں جس ملک میں اُن کے سسرال ہیں۔
جب سے پاکستان بنا ہے ہر حکومت میرٹ کی بات کرتی ہے۔ ہمارے خان صاحب بھی اسی نعرئے کو لیے حکومت میں موجود ہیں۔ اب یہ کیا کم میرٹ ہے کہ آپ کے افسران دوسرئے ممالک کی بیویاں لیے بیٹھے ہیں۔

کیا ہوا اگر اس سے اُن کو دوسرئے ممالک کی شہریت کے لیے وہا ں کا بھی حلف بھی اُٹھانا پڑتا ہے۔ شوہر تو شوہر ہی ہوتا ہے چاہے پاکستانی ہو یا دوسرئے کسی ملک کا ۔ یعنی ابا جی کی بات مانے یا نا مانے بیوی کی بات سر آنکھوں پر۔ لہذا میڈیا کی باتوں پر دھیان مت دیں اور یہ جو نمونے ہمارا مطلب نگینے مختلف اداروں میں براجمان ہیں ان کی مراعات میں فوری اضافہ کیا جائے۔ عوام کا کیا ہے وہ تو پہلے بھی زلالت کی عادی ہے۔ مزید ذلالت بھی برداشت کرلے گی۔ مگر ہمارے چہتے افسران کا کوئی نقصان نہیں ہونا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :