سیاسی دوندے

جمعرات 15 اگست 2019

Hussain Jan

حُسین جان

عید قربان کی ماردھاڑ ہے۔ یار دوست جب جانور خریدنے جاتے تو بار بار اُس کے نر م و نازک ہونٹوں کو اُٹھا کر دانت دیکھنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ بچپن میں ہم سمجھا کرتے تھے شائد یہ لوگ من پسند جانوروں کو برش کروا کر گھر لے جاتے ہیں۔ وہ تو بعد میں پتا چلا کہ جناب معاملہ یہاں صفائی کا نہیں دانت دیکھائی کا ہے بالکل ویسے ہی جیسے منہ دیکھائی ہوتی ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ دانت دیکھائی قربانی سے پہلے اور منہ دیکھائی بعد میں ہوتی ہے۔ جانور کی عمر پھرتی اور طاقت کا اندازہ اُس کے دانتوں سے لگانے کی کوشش کرنے والے اکثر خربوزے پھیکے گھر لے جاتے ہیں اور پھر زوجہ ماجدہ سے خوب تعریفیں کرواتے ہیں۔ قربانی کے جانور کی عید سے پہلے خوب دیکھ بھال کی جاتی ہے وجہ سیدھی سی ہے کہ بھائی آخر گوشت بھی تو ہمی نے کھانا کون سا غریبوں میں تقسیم کرنا ہے۔

(جاری ہے)


یاد آیا شیخ رشید صاحب ہر بکر عید کو قربانی سے پہلے قربانی کی پشین گوئی کیا کرتے تھے۔ موصوف کا مقصد حکومت وقت کی طرف اشارہ ہوتا تھا۔ اس دفعہ شیخ صاحب کی عید کچھ مزیدار نہیں گزرے گی کیوں کے وہ کبھی بھی موجودہ حکومت کی قربانی کی پشین گوئی نہیں کریں گے کیونکہ اگر حکومت کی قربانی ہوتی ہے تو چھری شیخ صاحب کی گردن پر بھی چلے گی۔ یعنی یہ جو لمبی چوڑی وزارت اپنے وزن تلے دبائے بیٹھے ہیں ہاتھ سے نکل جائے گی۔

اور پھر سچ میں شیخ صاحب کسی ڈھابے پر ناشتہ کرتے نظر آیں گے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی دانتوں کی ،قربانی کے جانور میں دو دانتوں کی بہت اہمیت ہے۔ جس جانور کے دو دانت ہوں اُسے جوان اور صحت مند تصور کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح سیاست میں بھی دانتوں کی خاص اہمیت ہے۔ یہ الگ بات ہے یہاں دو نہیں کئی دانت چلتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو دانت نکلوانے بھی پڑتے ہیں یا پھر مخالفین نکال دیتے ہیں۔

سیاست میں دو دانت والے کارکن بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں یہ عموما لونڈے لپاڑئے ہوتے ہیں۔ نوئے نوئے جوان ہوئے یہ لونڈے کسی بھی آگ کا ایندھن بننے کو تیار رہتے ہیں۔ مزے کی بات ان کی ڈیمانڈ بھی کچھ زیادہ نہیں ہوتی ان کو ایک پلیٹ بریانی او ر موٹر سائیکل کے لیے ایک لیٹر پیٹرول بھی مل جائے تو دانت توڑنے اور تڑوانے کو تیار رہتے ہیں۔ ایسے کارکن عموما کام کاج سے بھی تنگ ہوتے ہیں۔

جن کے لیے یہ اپنے سینگ پھنساتے ہیں وہی ان کے کام دھندے کے لیے کچھ نہیں کرپاتے۔ ان کے منہ میں عموما پان اور ہاتھ میں سگریٹ ہوتی ہے۔ کچھ جیالے قسم کے پٹھانی شوق یعنی نسوار سے بھی شغل فرماتے ہیں۔ تعلیم کے معاملے میں بھی دودانت والے کارکن پید ل ہوتے ہیں۔ اینڈرائڈ ہاتھ میں پکڑئے صرف فیس بک کا استعمال کرتے ہیں۔ لکھنے پڑھنے سے ان کی خاص دشمنی ہوتی ہے۔

کتابوں کے صرف اتنے ہی شوقین ہوتے ہیں کہ ردی بک جاتی ہے۔ گھر وں میں ان کا خاص مقام ہوتا ہے۔ سب گھر والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ جب کوئی اہم گفتگو کرنی ہو ان کو گھر سے باہر بھیج دیا جائے تاکہ یہ کوئی بونگی نا مارسکیں۔ محلے کے کونسلر کے اردگرد یہ ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں۔ گٹر کھلواتے ہوئے سیلفی لینا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ہر کام میں ٹانگ اڑانا اپنا ابائی حق سمجھتے ہیں۔


اب آتے ہیں چار دانت والے سیاسی کارکنوں کی طرف یہ چار دانت کے جانور کی طرح بھلے ہی سمجھدار نا ہوں مگر ہر وقت خود کو ارسطو ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی اکثریت ادھیڑ عمر کی ہوتی ہے۔ چار دانت واے عموما کونسلر کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیات ہوجاتے ہیں۔ بجلی ،گیس کا میٹر لگوانا ہوتو یہ مناسب کمشین پر کام کردیتے ہیں۔ ان کی سب سے اچھی عادت خوامخواہ ہر جنازے میں شامل ہونا اور پھر خود ہی فخر کرنا کہ مرنے والے کی خوش قسمتی ہے کہ میں اس کے جنازے میں آگیا ہوں۔

تعلیم میں یہ دو دانت والوں سے کچھ بہتر ہوتے ہیں میٹرک تک سکو ل کی شکل سے واقف ہوتے ہیں۔ ہر گلی میں دوسرئے تیسرے دن چکر لگانا معمول ہوتا ہے ۔ گٹرکھلوانے کے لیے تو دو دانت والے کام آتے لیکن گٹر کا ڈھکن وغیرہ بنوانے کے لیے یہ چار دانت کے کارکن بڑئے متحرک ہوتے ہیں۔ یہ خود کو چوہدری، جٹ، رانا، شیخ اور ملک کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ ہر وقت سنجیدہ رہنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

ان کی اپروچ علاقے کے ایم این اے اور ایم پی تک ہوتی ہے۔ ہر ایک کو جوش و خروش سے بتائیں گے کہ آج ہم ایم این اے صاحب سے ملے اور کل ایم پی اے صاحب سے ملنے جانا ہے۔ ان کی سیاسی ساخ کی یہ حالت ہوتی ہے کہ گھر میں موجود بہو ہمیشہ میاں سے گلہ کرتی کہ دیکھیں آپ کے ابو کو سو روپیہ دیا تھا کچھ سامان لانے کو مگر انہوں نے باقی پیسے واپس نہیں کرے۔ مگر موصوف پھر بھی بڑی ڈھٹائی سے اپنی سیاسی بصیرت پر ناز کرتے نظر آتے ہیں۔

ان کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کے ہاتھ میں ہر وقت کوئی نا کوئی فائل دھری رہتی ہے تاکہ لوگوں کو امپریس کر سکیں۔
اب دیکھتے ہیں چھ دانت والے سیاسی کارکن۔ویسے ایک بات بتا دیں چھ دانت والے جانور کو بھی قربانی کے لیے موضوع تصور نہیں کیا جاتا ۔ کیونکہ جناب اپنی طبی عمر پوری کر چکے ہوتے ہیں اور ان کے پاس سوائے نصیحتوں کے کچھ نہیں ہوتا۔

بالکل اسی طرح چھ دانت سیاسی کارکن بھی بیکار ہوچکے ہوتے ہیں۔ وہ کیا کہتے ہیں ٹانگیں قبر میں ۔ ویسے یہ خود کو سینئر ترین بندہ سمجھتے ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن سے کارکن بار با پوچھتے ہیں بابا جی روٹی کدوں کھلنی اے۔ یہ بے ضر قسم کی مخلوق ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو اتنی معصومیت کا مظاہر ہ کرتے ہیں کہ جب گھر سے کافی دور نکل آیں تب پتا چلتا ہے کہ دھوتی تو گھر ہی راہ گئی۔


آٹھ دانتوں کے جانور کا تصور کم ہی ہے کیونکہ آٹھ دانت تک کچھ تو اپنی طبی عمر پوری کر چکے ہوتے ہیں یا پھر عید پر قربان ہوجاتے ہیں۔ لیکن سیاسی لوگ آٹھ تو کیا دس دانت کر بھی جانے کو تیار رہتے ہیں۔ یہ تب تک سیاسی زندگی سے تائب نہیں ہوتے جب تک مٹی سے بلاوا نا آجائے۔ یہ ہمیشہ جمہوریت کی طرح کمزور ہی ہوتے ہیں لیکن ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اب تمام معاملات انہی کی مشاورت سے پایہ تکمیل تک پہنچیں۔

اپنے تجربے کے نام پر یہ ہر کام کو غلط طریقے سے حل کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو عموم کندھوں پر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے۔ اثر و رسوخ کے معاملے میں بھی یہ کافی حساس ہوتے ہیں۔ سفارش تو یوں تواتر سے کرتے ہیں جیسے لوڈ شیڈنگ کہ حکومت کوئی بھی یہ ہونی ہی ہونی۔
بات بڑی سیدھی سی ہے کہ اوپر بیان کیے گئے سیاسی دوندے ہمیشہ ملک و قوم کی بربادی اور نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ ان کے نزدیک قومی مفاد سے مقدم زاتی مفاد ہوتا ہے۔ عالمی و قومی سطح پر ملکی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں بھی ان کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ جب تک قوم ایسے سیاسی شعبدہ بازوں سے ہشار نہیں رہتی قومی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :