تصویر کے قیدی

جمعرات 22 اگست 2019

Hussain Jan

حُسین جان

کیا وقت تھا جب لوگ ایک تصویر کے لیے ترسا کرتے تھے۔ شادی بیاہ پر بھی تصاویر بنوانے پر اچھا خاصہ خرچہ آجایا کرتا تھا۔ اچھے بھلے مڈل کلاسیے بھی اس عیاشی کو افورڈ نہیں کرپاتے تھے۔ چند ایک تصاویر زندگی کا اثاثہ ہوا کرتی تھیں جہیں بار بار دیکھ کر پرانی یادوں کو تازہ کیا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے ہمارے گھر میں دادا کی صرف ایک تصویر موجود تھی وہ بھی بیچارے نے پتا نہیں کیسے بنوالی۔

پردادا کی تو خیر کیا ہی ہوتی کہ ابا بتاتے ہیں اُن کے پاس اتنے روپے ہی نہیں تھے کہ ایک عاد تصویر ہی بنوا لیتے۔ پہلے کیمرے چلے پھر ڈجٹیل کیمرے آئے اور اب چل رہا ہے سمارٹ فون کا دور ۔ یعنی ہر گھر کے ہر فرد کے پاس اپنا اپنا کیمرہ۔
ایک کہاوت ہے کہ آوئے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

یہی صورتحا ل اس وقت پوری دُنیا کی ہے۔ جب تک کوئی تصویر نا بنالیں چین نہیں آتا۔

شادی سے لے کر مرگ تک یعنی میت کے ساتھ بھی سیلفی تو ضرور بنتی ہے۔ مرنے واالا مر گیا اُس نے تو واپس نہیں آجانا مگر ایک تصویر تو یادگار کے تور پر بنا لیں۔ ایکٹر ہو ،گلوکار ہویا کوئی سیاستدان سیلفی کے شیدائی ان کے پیچھے پیچھے نظر آیں گے۔ یہ سیلفی بہت سے لوگوں کی جان بھی لے چکی ہے۔ مگر جنون ہے کہ کسی صورت کم ہونے میں نہیں آتا۔
چلیں تصاویر بنانے سے کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔

آپ فیملی یا دوستوں کے ساتھ کسی پارک گئے وہاں ضرور فوٹوگرافری کا شوق پورا کریں۔ پھر سینما میں موئی دیکھنے جارہے ہیں۔ چلو بنا لو چند تصاویر۔ آپ نے پیزا آرڈر کیا تو پیزے کو بھی سمارٹ فون میں قید کر لیں۔ واش روم میں حالات بہت نہیں یعنی زور و فکر کافی ہورہا ہو تو پھر بھی چہرے کے امپریشن بھی ششے کی مدد سے قید کیے جاسکتے ہیں۔ کیمرے کا استعمال بری چیز نہیں مگر وقت بے وقت استعمال کرنا ضرور بری بات ہے۔


اکثر ہم دیکھنے ہیں لوگ مر رہے ہوتے ہیں، ڈوب رہے ہوتے ہیں، زخمی ہوتے ہیں تکلیف سے چلا رہے ہوتے۔ عورت اپنے بھائی ، خاوند یا بیٹے کی موت پر بین ڈال رہی ہو۔ تو ایسی صورتحا ل میں انسانیت کیا درس دیتی ہے۔ انسانیت کہتی کہ پہلے لوگوں کی مدد کریں ۔ لیکن پوری دُنیا کے لوگ سب سے پہلے مناظر اپنے کیمرے میں محفوظ کرنا چاہتے ہیں اور پھر وہاں سے کھسک لیتے ہیں۔

تو پھر ہم ہوئے نا تصویر کے قیدی۔ اس تصویر نے ہمیں کہیں کا نا چھوڑا۔ بے حس بنا دیا ہے۔ اپنے سے دور کردیاہے۔ سنگدل ہوگئے ہیں۔ بزرگوں کی عزت نہیں کرتے بڑوں سے پیار نہیں رہا۔ بس ایک چیز ضروری ہے اور وہ ہے تصویر جب تک تصویر نا بنایں کھانا ہضم نہیں ہوتا۔
اب گوروں کا بتائیں وہ تو ترقی یافتہ اقواام سے تعلق رکھتے ہیں۔ ساری ایجادات اُنہی کی ہیں ۔

اُن کی معیشت بہتر ہے۔ امن و امان بہتر ہے۔ روزگار موجود۔ تعلیم موجود۔ لیکن یہ جو غریب ملکوں کے لونڈے لونڈیاں ہیں یہ کس چکر میں سارا دن ویلے تصاویر کے پیچھے پھرتے رہتے ہیں۔ یہ جو موبائل سے تصاویر اور ویڈیو بنانے کا رواج چل نکلا ہے یہ پوری دُنیا کو بے حسی کی طرف لے جارہا ہے۔ کسی خاص پروگرام کے لیے تصاویر بنوانا کوئی بات نہیں مگر یوں اس طرح انسانیت سوز منظروں کی تصویر کشی کرنا جس میں انسان تکلیف سے بلبلا رہے ہیں کہاں کا انصاف ہے۔


پاکستان میں چونکہ شرع خواندگی بہت کم ہے اسی لیے ہمارے پاس جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے ہم اس کے ہمیشہ منفی استعمال کرتے ہیں۔ کسی بھی چیز کا بے ڈھنگا استعمال کوئی ہم سے سیکھے۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہمارے ہاں جب کوئی شادی بیاہ کا پروگرام ہوتا ہے تو بہت سے ایسے لوگ جنہیں ہم جانتے بھی نہیں وہ بھی اپنے موبائل سے تصاویر اور ویڈیوز بنا رہے ہیں ۔

پھر ان تصاویر کا سوشل میڈیا پر غلط استعمال ہوتا ہے۔ جس سے ابھی تک کافی گھر بھی ٹوٹ چکے ہیں۔
سیاست میں تو تصویر بازی خیر شروع سے ہی چلی آرہی ہے لیکن اب اس میں مزید تیزی آگئی ہے۔ لیڈران سے لے کر کارکنان تک سب کی کوشش ہوتی ہے کسی نا کسی کام کے ہوتے میں ہماری ایک عاد تصویر بن جائے اور پھر اس تصویر کو پورے سوشل میڈیا میں پھیلا کر شاباشی حاصل کی جائے۔

اور تو اور سیاسی لفنگے میتوں تک کو نہیں چھوڑتے کسی کے بھی جنازے میں جائیں گے وہاں فوٹوگرافی ضرور کریں گے۔ گھر والوں کو چاہے جتنا مرضی دکھ ہو یہ اُس کی پروا ہ نہیں کرتے۔
بات پھر وہی ہے کہ تصویر ضرور بنایں لیکن خدارا موقع محل ضرور دیکھ لیا کریں۔ آپ کی اور دوسرے لوگوں کی زندگی بہت قیمتی ہے اس کو تصویر کی نظر مت کریں۔ کچھ بیوقوف تو آتی ٹرین کے سامنے بھی سیلفی لینے بیٹھ جاتے ہیں اور پھر ان میں سے اکثر اپنی جان بھی گنوا بیٹھے ہیں۔

یہ کہاں کی عقلمندی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی کی خبر ہے کہ سیر کے لیے جانے والوں میں سے ایک لڑکا سیلفی بنانے کے دوران پہاڑ سے گر گیا۔ اُس کی لاش تک نہیں ملی۔ ہمیں ایک اچھی قوم بننا ہے۔ ا بھی تو ہم اپنے حقوق ہی ٹھیک طرح سے حاصل نہیں کر پائے۔ تو ایسے میں ان چھوٹی موٹی چیزوں میں پڑ کر اپنا مستقبل تباہ مت کریں۔ پڑھائی ، کاروبار اور نوکری پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔ اسی میں ملک و قوم کی بہتری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :