گدھے

بدھ 6 نومبر 2019

Hussain Jan

حُسین جان

پاکستان میں گدھا بہت سے مصنفین کے لیے پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اُنہوں نے اس صنف کے ساتھ وہ انصاف نہیں کیا جو ان کو کرنا چاہیے تھا۔ ہر کسی نے گدھے کو زلیل ہی کیا ہے۔ کسی نے اس کے مختلف پہلوں پر کبھی سیر حاصل گفتگو نہیں کی۔ جب ان پہلوووں سے پردہ اُٹھے گاکو تو لوگوں کو اندازہ ہوگا کہ وہ کتنی قیمتی چیز کی بے قدری کرتے رہے ہیں۔

کچھ لوگ تو پاکستان کے مخصوص شہر کے لوگوں پر الزام بھی لگاتے ہیں کہ ان کی وجہ سے گدھے ناپید ہوتے جارہے رہیں۔ جبکہ ایک سیاستدان کم صحافی دوست کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گدھے بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں نکمے، فارغ، جاہل،بدتمیز کو گدھے سے تشبع دی جاتی ہے۔ اس حساب سے دیکھیں تو مطلب ہم واقعی خود کفیل ہیں۔

(جاری ہے)

ترقی یافتہ ممالک میں گدھے واقعی نا ہونے کے برابر کہ ان سب نے کام اور محنت کرنا سیکھ لیا ہے۔

اسی لیے تو چین گدھے اہم سے درآمد کر رہا ہے۔ ہمارے ایک صوبے کی حکومت تو باقاعدہ اس کی افزائش نسل کر رہی اور ان کے خیال میں اس سے کثیر زرمبادلہ اکھٹا ہوگا۔
بہت سے گدھے انسان بن چکے ہیں مگر ہم اپنی روش چھوڑنے کو تیار نہیں۔ آپ جتنے مرضی گدھے چین کو امپورٹ کردیں یہاں پھر بھی ان کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہونی۔ یہ پاکستان کے ہر صوبے کے ہر شہر کے ہر قصبے کے ہر محلے کے ہر گلی میں پائے جاتے ہیں۔

اور تو اور ہمارے لاتعداد ادارے بھی ایسے ہیں جن میں ہم نے ان کو بھرتی کررکھا ہے۔ اور یہ مہنگائی کی طرح دن بدن بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ کہتے ہیں سیاست اور صحافت گدھوں کے بغیر ہی پنپتی ہے مگر افسوس ہمارے ہاں آئی ایم ایف کی شرائط کی طرح ان تعداد ان دونوں شعبوں میں بھی بڑھتی جارہی ہے۔ لوگوں کے نزدیک سیاست میں گدھے زیادہ ہیں جبکہ دوسری طرف سیاستدان بھی عوام کے بارے میں یہی رائے رکھتے ہیں۔

پاکستان میں جس طرح نیوز چینلون کی تعداد بڑھی ہے اس سے گدھے کچھ پریشان ہیں کہ کہیں یہ لوگ ہم سے آگے ہی نا نکل جائیں۔
کہتے ہیں گدھے سست الوجود جانور ہے مگر مزئے کی بات یہ ہے کہ صدیوں سے یہ انسان کے مال برداری کے کام آرہا ہے۔ اور یہ کام وہ آج تک سرانجام دے رہا ہے۔ کچھ لوگ تو کہتے ہیں یہ لاتوں کی زبان سمجھتا ہے اور اس میں وفاداری نام کی کوئی چیز نہیں۔

تو ایک دوست نے کہا بھائی آپ نے کون سا اس سے نکاع کرنا ہے جو اس کی وفاداری مقصود ہے۔ اب تو انسانوں میں بھی وفاداری صرف اتنی ہی راہ گئی ہے جتنا پانی میں دودھ۔ یا کیری میں مرچیں۔ باقی بہت سے ایسے کام ہیں جو گدھے ،گدھے ہوکر بھی نہیں کرسکتے۔ اس کا کریڈٹ بھی انسانوں کو ہی جاتا ہے۔ مثلا ، اشاء خوردونوش میں ملاوٹ گدھے نہیں کرسکتے۔ ان کو جو دیاجائے وہی کھاتے یا وہی آگے پہنچاتے ہیں۔

دودھ میں پانی ملانے جیسا نیک کام بھی گدھے نہیں کرسکتے ۔ گدھے کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا اور نا ہی جھوٹے وعدئے کرتا ہے۔ یہ شرف بھی ہمیں ہی حاصل ہے۔
گدھے بیچارے تو شکر کررہے ہیں کہ کسی بھلے مانس نے تحقیق میں یہ ثابت کردیا کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں گدھوں پر تحقیق ہورہی ہے اور اس کے لیے ان کو دھڑادھڑ پکا کر کھایا جارہا ہے۔

بس اس تحقیق کے بعد حکومت پاکستان جاگی اور اس تحقیق کو بند کروایا ورنہ جیسے پاکستان میں سچائی ختم ہوئی ہے ویسے ہی ان کی نسل بھی ختم ہوجاتی۔ خیر ہمیں اس سے کیا گدھے جانیں اور انہیں کھانے والے جانیں۔ ہم تو بس یہ چاہتے ہیں کہ حکومت چن چن کر مختلف اداروں سے گدھوں کو نکالے۔ جب تک یہ گدھے اداروں میں موجود رہیں گے تب تک عوامی مسائل حل ہونے والے نہیں۔

باقی رہی سیاست میں گدھوں کی بات تو وہ آہستہ آہستہ خود ہی نکل جائیں گے۔
گدھا ایک نام نہیں بلکہ ایک سوچ ہے یہ وہ سوچ ہے جو کسی بھی ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیتی ہے۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب فرما گئے ہیں کہ گدھے کا ڈسا پانی مانگ لیتا ہے پر انسان کا ڈسا اتنی مہلت بھی نہیں پاتا کہ پانی کیا چائے بھی مانگ لے۔ اگر آپ اپنے ملک و قوم کو ترقی دینا جاہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ آپ کا ملک بھی ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہوتو اس کے لیے انسانوں پر کام کریں۔ موجودہ حکومت اپنی پوری کوشش کر رہی ہے کہ بگڑی ہوئی قوم کو سدھارا جائے مگر قوم ہے کہ ماننے کو ہی تیار نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :