کرونا اور رسومات

جمعرات 26 مارچ 2020

Hussain Jan

حُسین جان

رسومات اور مذہبی روایات و عبادات دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اگر ہم مذہب اسلام کی بات کریں تو اس میں عبادات و روایات بہت سہل اور سیدھی ہیں۔ لیکن اگر ہم مختلف ممالک، علاقوں صوبوں یہاں تک کہ قبیلوں میں دیکھیں تو ان میں بھی ایسی ایسی رسومات ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے لاکھوں روپے کی ضرورت ہے۔ اب شادی بیاہ کو ہی لے لیں۔ پوری دُنیا میں شادیوں کے لیے الگ الگ روسومات ہیں۔

مختلف قبائل اور علاقے کے لوگ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ جتنی رسمیں ان کے قبیلے میں بزرگ ادا کرتے رہے ہیں وہ تمام کی تمام ادا کی جائیں چاہے اس کے لیے لاکھوں روپے قرض ہی کیوں نا اٹھانا پڑے۔
 اگر پاکستان کی بات کریں تو یہاں بھی صورتحال تقریبا ایسی ہی ہے۔ ہر صوبے میں موجود ہر علاقے کی الگ الگ رسومات ہیں۔

(جاری ہے)

لیکن اس کے باوجود بہت سی رسمیں ایسی ہیں جو تقریبا تمام ملک میں ایک جیسی ہی ہیں۔

بات شروع ہوتی ہے رشتہ دیکھنے سے۔ ہمارے بزرگ کہتے ہیں بیٹا ایک وقت ایسا تھا کہ لڑکے والوں کی جوتیاں ٹوٹ جاتی تھیں مگر رشتہ نہیں ملتا تھا۔ وہ بھلے زمانے تھے جب ہر انسان کی کچھ قدر باقی تھی۔ خیر اب زمانہ بدل چکا ہے۔ تو ہم بات کر رہے تھے کہ بات شروع ہوتی ہے رشتہ دیکھنے سے اور آج کل کا رواج ہے کہ لڑکے والے پہلے جاتے ہیں لڑکی کو دیکھنے کے لیے۔

اب لڑکے والوں کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ لڑکی خوبصورت ہو، گوری چٹی ہو، کھاتے پیتے گھر کی ہو، پڑھی لکھی ہو،کھانا بہترین پکانا جانتی ہو، کم عمر ہو، گھر کے سارے کام کرنے والی ہو، ساس ،سسر ،نند اور دیور جیڈھ کی بھی خدمت کرنے والی ہو۔ سینا پرونا بھی جانتی ہو۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی خوبیاں ہونی چاہیے۔
 اب لڑکے والوں کو اس ڈیمانڈ کی لڑکی ڈھونڈنے کے لیے کم از کم ایک ہزار گھروں میں لڑکی دیکھنے جانا پڑتا ہے۔

اب یہاں سے شروع ہوتی ہے بربادی۔ یعنی جب لڑکے والے دیکھنے آئیں تو مختلف انواع اقسام کے کھانے ان کے لیے پیش کیے جائیں۔ یہاں سے اخراجات کا آغاز ہوجاتا ہے۔ ایک فیملی تو ایسی میں خود جانتا ہوں جن کا بیٹا شائد بمشکل بیس پچیس ہزار ماہوار کماتا ہے۔ قد تقریبا ۴ فٹ کے قریب ہے۔ مگر ان کی اماں کو لڑکی وہ چاہے تھی جس میں مندرجہ بالہ تمام خوبیاں موجود ہوں۔

خدا خدا کرکے رشتہ پکا ہوتا ہے۔ پھر منگنی کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ جس میں تمام رشتہ داروں کا شریک ہونا ضروری ہوتا ہے۔ آپ منگنی کوایک طرح سے شادی کی رہرسل کہ سکتے ہیں۔ اس میں بھی تقریبا شادی کے قریب قریب خرچہ ہوجاتا ہے۔ اب منگنی کے بعد، تاریخ طے کرنے کا معاملہ آتا ہے۔ لڑکے والے دس بیس لوگ لے کر لڑکی والوں کی طرف آدھمکتے ہیں اور تاریخ ڈالنے کے ساتھ ساتھ کھانے پر بھی ہاتھ صاف کرجاتے ہیں۔

پھر یہ طے کیا جاتا ہے کہ برات کے ساتھ کتنے لوگ آیں گے اور ولیمے میں لڑکی والے کتنے لوگ لائیں گے۔ اس کے بعد مایوں کی باری آتی ہے ، مایوں بھی ایک طرح کی کرونا وائرس کی ہی رسم ہے۔ کہ لڑکی اپنے گھر میں اور لڑکا اپنے گھر میں علامتی قید ہوجاتا ہے۔ اسکے بعد مہندی پھر بارات اور بارات کے بعد ولیمہ، مکلاوا وغیرہ بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس سارے چکر میں لاکھوں روپیہ خرچ ہوجاتا ہے۔

لڑکی والے لڑکے والوں کے تمام گھر والوں کے سوٹ بناتے ہیں۔ اور پتا نہیں کیا بلا بلا۔ 
کل ایک شادی میں جانا ہوا۔ کرونا وائرس کی وجہ سے چونکہ لاک ڈاون چل رہا ہے اور کسی بھی ایسی تقریب کی اجازت نہیں جس میں لوگوں کے اکٹھے ہونے کا اہتمام کیا جائے۔ اس وجہ سے لڑکے والوں کی طرف سے تقریبا چار سے پانچ لوگ گئے اور نکاح کرکے دولہن کو گھر لے آئے اسی طرح اگلے دن لڑکی کے گھر سے پانچ لوگ آئے ولیمہ کی روٹی کھائی اور لڑکی کو لے گئے۔

نا کوئی شادی ہال کا خرچہ نا کوئی ٹرانسپورٹ کا مسئلہ۔ شادی بھی ہوگئی اور امید کرتے ہیں کہ میاں بیوی سکون سے زندگی بھی گزاریں گے۔ نا پھوپھو کو منانے کا خوف نا ماموں کے پاؤں پکڑو نا کسی سیاست دان کو بلاؤ۔ اس طرح سے دیکھا جائے تو کرونا وائرس تو ہمارے لیے بہتر ہی ہے کہ اس سے فضول قسم کی بہت سی رسمیں ختم ہورہی ہیں۔ گلی کوچوں میں بیٹھے آوارہ قسم کے لوگ بھی ہمیں اب کم کم ہی نظر آتے ہیں۔

یہ جتنی ہم نے پریشانیاں پال رکھی ہیں اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ ہمار ا حال یہ ہے کہ دوسروں کے منہ لال دیکھ کر اپنے منہ تھپڑمار مار کر لال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسروں کے دیکھا دیکھی اپنی ذات کو مشکل میں ڈال لیتے ہیں۔
 اگر کرونا وائرس کی وجہ سے سادگی سے شادیاں ہورہیں تو بھائیوں عام حالات میں بھی ایسے ہی ہوسکتی ہیں۔ اگر آج ایک وائرس کی وجہ سے آپ اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کی مدد کرنے کو تیار ہیں تو اس وائرس کے جانے کے بعد بھی اسے جاری رکھیں۔

ایک قوم بن کر ابھریں۔ ذخیرہ اندوزی مہنگائی اور اس جیسی ہزاروں غلط علتیں جو ہم نے پال رکھی ہیں ان سے چھٹکارے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اگر ہم اپنے زندگی گزارنے کے طریقے کو سادہ کرلیں گے تو بہت سی مشکلات سے چھٹکارا مل جائے گا۔ ہم حکومت سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ شادی بیاہ کی فضول تقریبات پر مستقل بنیادوں پر پابندی لگائی جائے۔ ہماری ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ ہم اس لیے بھی شادی میں بہت سے لوگوں کو بلا لیتے ہیں کہ فلاں کے بچے یا بچی کی شادی میں ہم نے اتنے روپے گفٹ کیے تھے۔ تو اگر ہم نے ان کو نا بلایا توہماری رقم ڈوب جائے گی۔ ابھی بھی وقت ہے اپنے آپ کو سدھار لیں ورنہ اقبال کا کہا ہوا شعر سچ ثابت ہوجائے گا کہ داستان بھی نہ ہوگی تمہاری داستانوں میں۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :