سانپ

پیر 30 نومبر 2020

Hussain Jan

حُسین جان

سیاست، بیوروکریسی اور سیگر کچھ اداروں اور سانپ کا موازنہ کریں تو بہت سی چیزیں مشترک ثابت ہوتی ہیں. لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سیاست کو سانپ سمجھ لیں بلکہ کچھ سانپ سیاست میں گھس آتے ہیں. کچھ کو سیاستدان خود پالتے ہیں. یہ الگ بات ہے کہ کل کو یہی سانپ پلٹ کر ڈس لیتےہیں. سیاست اور سانپ کا چولی دامن کا ساتھ ہے. سیاسی سانپ ضروری نہیں کہ قومی سطح پر موجود ہوں بلکہ یہ گلی محلے میں بھی پائے جاتے ہیں.
ایک بات اور بھی ذہن میں رکھنے والی ہے کہ دیمک اور سانپ دونوں قریبی رشتہ دار ہیں.
سیاسی سانپ ملک کو بار بار ڈستے ہیں یہ تب تک ڈستے رہتے ہیں جب تک ان کا زہر ان میں موجود رہتا ہے.

پاکستان کو ان سانپوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے.

(جاری ہے)

قیام پاکستان کے وقت ہی یہ سیاسی سانپ تشریف لے آئے تھے. اور پھر نسل در نسل یہ اس ملک کو ڈستے رہے. سیاست کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں میں بھی سانپ موجود ہوتے ہیں. یہ دودھ بھی اسی ملک کا پیتے ہیں اور ڈنگ بھی مارتے.
بیوروکریسی میں موجود سانپ بھی بہت زہریلے ہوتے ہیں. بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایسے سانپ زہریلے ترین ہوتے ہیں تو  غلط نا ہوگا.

جتنا اس ملک کو نقصان بیورو کریسی نے پہنچایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی. ملک دولخت ہوا تو اس میں بھی بیوروکریسی نے گہنونا کردار ادا کیا تھا. افسر شاہی شاہانہ زندگی گزارتی ہے. ان کے بچے اس ملک کے مال پر دوسرے ممالک میں رہائش رکھے ہوئے ہیں اور عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں. عوام کی زندگی بیوروکریسی میں موجود سانپوں نے اجیرن کر چھوڑی ہے. کیا کسی کو معلوم ہے کہ یہ جو مہنگائی مافیا ہے اس کو بیوروکریسی کی مکمل حمایت حاصل ہے.
یہ سانپ اس مافیا کی پشت پناہی کرکے مال بٹور رہا ہے.

جس طرح
 سانپ کبھی کسی کا دوست نہیں ہوتا اسی طرح وہ لوگ جو اس ملک کا کھا کر اسے ہی ڈسنے کو تیار بیٹھے ہیں وہ بھی کسی کے دوست نہیں ذاتی مفاد پر یہ لوگ کچھ بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں. ایک کیڑا ہے جس کا نام جونک ہے جو اکثر جانوروں اور کبھی کبھی انسانوں کا خون چوستے بھی دیکھا گیا ہے. کہتے ہیں جب جونک کا پیٹ بھر جاتا ہے تو وہ خون چوسنا بند کردیتی ہے.

مگر سانپ جب ڈستا ہے تو جان لے کر ہی چھوڑتا ہے. پاکستان جو کہ اقبال کا خواب تھا جسے قائد آعظم نے اللہ کی نصرت سے تعبیر میں بدل دیا. شب و روز کی محنت سے اس ملک کو ڈگر پر لانے کی کوشش کی جارہی تھی مگر افسوس آہستہ آہستہ گندی نالی کے کیڑے اس ملک کو بار بارڈسنا شروع ہوگئے. جس کے ہاتھ جو لگا اس نے دبوچ لیا. قائد کا پاکستان ان ظالموں نے ذخمی ذخمی کردیا.

پہلے مشرقی پاکستان کو اس سے الگ کروایا. آج کل بلوچستان اور دیگر صوبوں میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے. ایک بات یاد رکھیں اس کھیل میں تقریبا تمام اداروں کے غدار شامل ہیں جن کا مقصد صرف دولت کمانا ہے وہ اس ملک کو کبھی مظبوط نہیں ہونے دیں گے. کالی بھیڑیں ہر جگہ اور ہر ادارے میں موجود ہیں. جو شخص اس ملک کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کی کردار کسی کرنی شروع کردی جاتی ہے.
لہذا وہ سانپ جو اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں ان کو کچلنا بہت ضروری ہے.

پاکستان کو اگر ترقی کی طرف لے کر آنا ہے تو ایسے سانپوں کی بلوں کو بھی بند کرنا پڑے گا جو ملک دشمنوں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں. پاکستان میں بسنے والے 22 کروڑ عوام ان سانپوں کی بدولت بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں. یہ سرزمین ان لوگوں نے لوٹنے کے لیے رکھی ہوئی ہے. باچا خان نے کہا تھا میں پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کرتا لہذا اس کی اولاد نے اسے افغانستان میں دفن کردیا. لیکن اولاد خود پاکستان ہی رہی کہ یہاں انتشار پھیلا سکے. کچھ لوگ عیاشی باہر کرتے ہیں اور دفنانے کو یہ سرزمین استعمال کرتے ہیں. پتا نہیں میری قوم کو کب شعور آئے گا اور وہ ان سانپوں کو پہچانیں گے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :