اختلاف رائے

بدھ 9 دسمبر 2020

Hussain Jan

حُسین جان

انسانوں کے درمیان اگر کسی مشترک صفت کو نکالا جائے تو وہ " اختلاف رائے" ہی ہو گا گویا "ہمیں اختلاف رائے بھی محبت سے کرنا چاہیے"۔
پائی ہے تمدن انسانیت کی یہ رمز
ہاں میں اختلاف رائے رکھتا ہوں
کیا اپ لوگ جانتے ہیں نماز میں منہ قبلہ رخ کیوں کیا جاتا ہے. تاکہ آپ لوگ جب ایک مرکز کو اپنا کر کچھ بھی کریں گے تو معاملات سلجھتے چلے جائیں.

اور جب اپنا رخ ایک دوسرے کے سامنے کرلیں گے تو اختلافات بڑھتے چلے جائیں گے.
اگر ہم اختلاف رائے کو سمجھنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہمیں دلوں کو مسخر کرنا آ جائے۔
اگر ایک فرد کو "چمبیلی " کا پھول پسند ہے اور گلاب اچھا نہیں لگتا تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ "گلاب " کی افادیت و اہمیت نہیں ہے بلکہ اسے جان لینا چاہیے کہ گلاب بھی بہت سے لوگوں کی پسند ہے اور اپنا ثانی نہیں رکھتا۔

(جاری ہے)


اگر ایک فرد کو نثر اچھی لگتی ہے اور شاعری سے لگاؤ نہیں ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ شاعری بے معنی ہے یا اس کی تاثیر نہیں ہے۔ شاعری یعنی مختصر الفاظ گویا موتیوں کی لڑی پرونا اور انہیں غسلِ عطر دینا ایک الگ ادراک، محنت، درد و احساس کا متقاضی ہے۔
اگر ایک پرندہ دن کے اجالے میں دیکھ نہیں سکتا تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آفتاب اندھا ہے بلکہ یہ اس کی بصارت کا مسئلہ ہے۔ ہم میں سے ایک فرد اگر کھانے میں ایک چیز پسند کرتا ہے تو دوسرے کو دوسری چیز پسند ہے گویا مسئلہ اشیاء کی لذت میں نہیں ہے ہمارے ٹیسٹ بڈز یا غدود کا ہے کہ ہم نے انہیں خاص ذائقوں کا عادی بنا لیا ہے۔
ہمارے ووکل ساؤنڈز بچپن سے ایک خاص مشق کی وجہ سے ایک ہی لفظ کی ادائیگی کو بول بول کر پختہ ہو جاتے ہیں مگر جب زبان کے ماہرین ان کی درست ادائیگی کی بات کرتے ہیں تو ہم اپنی مشق کی وجہ سے عاجز آ جاتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ لفظ غلط ہے بلکہ اصل مسئلہ ہماری طرف سے صحیح بات کو تسلیم نا کرنا ہے۔
زمین پہ رینگنے والے جانور ہواؤں میں اڑنے والے پرندوں کو رینگنا کیوں کر سکھا سکتے ہیں اور پرندے انہیں کیسے اڑنا سکھا سکتے ہیں ہمیں اس بات کا ادراک جلد یا بدیر کر لینا چاہیے۔
ہم آبی جانوروں کو دوڑنا نہیں سکھا سکتے، مچھلی کو اڑنا نہیں سکھا سکتے اور جنگل میں شکار کرنے والے شیر کو عقاب کے پروں کی پرواز و نظر نہیں سمجھا سکتے۔
ہم میں سے ایک شخص کو ایک آرٹسٹ پسند ہے تو دوسرے کو دوسرا اس سے یہ بات اخذ کرنا کہ دوسرا اس خوبی کا مالک نہیں ہو سکتا ہماری کج فہمی سے بڑھ کر کچھ نا ہے۔
فطرت نے ہر انسان کو الگ حسن عطا کیا ہے گویا جب ہماری شکل و صورت ایک سی نہیں ہے تو ان کے اندر موجود اذہان و عقل کیونکر ایک سے ہو سکتے ہیں۔ہمیں فطرت کی اس اختلافی تقسیم کو جلد سے جلد جان لینا چاہیے اور دوسرے انسان کو ان کی خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کر لینا چاہیے "اختلافِ رائے مگر محبت کے ساتھ"۔
پاکستان کی سیاست میں عدم برداشت عام سی چیز ہے.

یہاں مخالفین کو بالکل بھی برداش نہیں کیاجاتا. مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران سے لے کر کارکنان تک ایک دوسرے سے برسرپیکار دیکھائی دیتے ہیں. گالی گلوچ اور پگڑیاں اچھالنا معمول کی بات ہے. ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر بیٹھ کر ذاتیات پر اتر آنا سیاستدانوں کا وطیرہ بن چکا ہے.
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس معاملے میں خواتین سیاستدان بھی کسی سے پیچے نہیں ہیں ایسی ایسی بہیودہ گفتگو ہوتی ہے کہ فیملی میں بیٹھا شخص شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے.

ضروری نہیں تمام لوگوں کے نظریات اور سوچنے کا انداز ایک سا ہو. ہر انسان کی اپنی اپنی رائے اور پسند ہوتی. لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ آپ دوسروں پر اپنی رائے زبردستی مسلط کریں. سب کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں. اس سے معاشرے میں برداشت اور رواداری کا رواج عام ہوگا.
پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں تو ذاتوں تک کو لے کر عدم برداشت کا زبردست مظاہرہ کیا جاتا ہے.

برادری نظام ایک ایسا ناسور بن چکا ہے جو ہر وقت اس معاشرے میں عدم تحفظ کا  احساس دلائے رکھتا ہے. ہر ذات کا بندہ دوسری ذات کے بندے کو کم تر سمجھتا. دین اسلام میں قبائلی نظام صرف پہچھان کے لیے بنایا گیا تھا. لیکن ہم نے اس قبیلہ داری کو اونچ نیچ کا زریعہ بنا لیا ہے. انڈیا میں تو یہ زات پات مذہب کا حصہ بنی ہوئی ہے. جبکہ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاییے کہ ہمارے مذہب میں زات پات نہیں بلکہ اخلاق اور تقوع دیکھا جاتا ہے.
ہم سب کو چاہیے کہ اختلاف رائے کا احترام کریں ایک دوسرے کی بات سنیں اور اس کو برداشت کریں. اس سے معاشرے میں مثبت ٹھہراؤ آئے گا جس سے ملک میں امن و امان کی صورتحال مزید بہتر ہوگی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :