‏کل کیا ہو گا ؟

ہفتہ 6 مارچ 2021

Imtiaz Cheema

امتیاز چیمہ

‏وفاق سے وزیر اعظم عمران خان کا امیدوار برائے سینٹ حفیظ شیخ مورخہ ۳ مارچ کو “ووٹ کو عزت دو “ مافیا کا شکار ہو گیا۔ ووٹ کے تقدس کوعزت اور وہ بھی سر عام کچھ اس طرح سے ملی کہ “بے حیائی بے شرمی اور بے غیرتی نے بھی مُنہ چھپا لیا نہیں فرق پڑا تو ان بے شرموں کو نہیں پڑا جو ڈوب مرنے کی بجائے ٹی وی سکرینوں پر سینہ پھلائے بتیسی نکالتے فتح کے نشان بنا رہے ہیں اور یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ضمیر نام کی کوئی چیز ان میں موجود نہیں رہی ہے۔


‏گیلانی کے لیئے گھوڑے خریدے گئے اور گیلانی کو جتوا لیا گیا جب کہ دوسرے طرف خاتون سیٹ پر پیسہ نہیں لگا تو نتیجہ وہی آیا جو آنا چاہیے تھا ۔ کوئی غیرت مند ہوتا تو اسطرح جیتنے پر شرم سے ڈوب گیا ہوتا لیکن جنہیں ترک خاتون اوّل کا ہار چوری کرتے موت نہ آئی وہ اس سے کیا مرتے۔

(جاری ہے)


‏اس دوران سب سے گھناؤنا کردار جو سامنے آیا وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ہے جس نے جانبداری کی انتہا کر دی سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور کانوں سے سُنتے ہوئے بھی کچھ نہ کیا بلکہ مجرمانہ خاموشی اختیار کر کے چوروں کا ساتھ دیا۔


‏الیکشن کمیشن کے رویہ کی ایک جھلک اگر آپ نے دیکھنی ہو تو الیکشن والے دن کی وہ تصویر دیکھ لیں جس میں پریزائڈنگ افسر خاقان عباسی اور شہباز شریف کا استقبال کھڑے ہو کر کس تپاک سے کر رہا ہے اور دوسری طرف اس کا رویہ وزیراعظم اور موجودہ اسپیکر کے ساتھ کیسا ہے۔واقعی آپ زبان سے تو جھوٹ بول سکتے ہیں لیکن آپ کی باڈی لینگویج سارا سچ اگل دیتی ہے۔


‏وزیر اعظم عمران خان نے کل بروز ہفتہ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے جو قانونی ضرورت تونہیں تھی لیکن وزیر اعظم کا یہ کہنا ہے کہ اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جانا چاہیے -جنہوں نے اپنی قیمت وصول کی ہے یا بقول مریم صفدر کے ن لیگ کی ٹکٹ کا وعدہ لیا ہے وہ ہمت کریں اور کھل کر سامنے آئیں اور اپنے تاریک اور مسخ شدہ چہرے عوام کو دکھائیں تاکہ زر کی چمک اور وعدہ وصل کی جھلک لوگ بھی دیکھ سکیں ۔


‏کل کیا ہو گا ؟ اگر وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ مل گیا تو وہ شاید کچھ عرصہ آگے چلیں اور اس دوران اپنے پتے دوبارہ سے ترتیب دے کر نئی بازی جمانے کا اعلان کر دیں کیونکہ ایوان بالا میں اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے نظامُ حکومت مفلوج ہی رہے گا بلکہ اس میں شدت آئے گی کیونکہ اب سینٹ براہ راست اپوزیشن کے کنٹرول میں ہو گی تو ایسے میں حکومت کا کاروبار چلانا ممکن نہیں رہے گا اور حکومت مکمل طور پر بانجھ ہو جائے گی- ایسی صورت میں وزیر اعظم کے پاس نئی بساط بچھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا ۔

لیکن کیا تب تک وہ اپنی الجھی ہوئی ڈور کو سلجھا پائیں گے ؟ کیا اپنی جماعت میں تطہیر کا عمل مکمل کر پائیں گے ؟ یہ کام یقیناً کافی مشکل ہو گا ۔
‏دوسری صورت مِیں اگر انہیں اعتماد کا ووٹ نہیں ملتا تو وہ تو اپوزیشن میں بیٹھ جائیں گے لیکن یہاں سے اپوزیشن کی اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ شروع ہو جائے  گا ۔ کون بنے گا وزیر اعظم ؟ اور کون بنے گا اتالیق اعظم ؟
‏ن کب تک پیپلز پارٹی کو برداشت کرے گی ؟
‏کریڈٹ لینے کے دعوے تو کل سے شروع ہو گئے ہیں مریم صفدر کے بقول پیسہ نہیں چلا بلکہ ن لیک کی ٹکٹ چلی ہے اسی سلسلے کی شروعات ہے۔


‏یہ دونوں پارٹیاں کب تک ایک دوسرے کو برداشت کریں گی کب تک یہ ماہ عسل چلے گا آخر کو اماوس کی راتیں آنی ہیں اور انہوں نے دست و گریباں ہونا ہے ۔
‏کیا ملک پھر ایک خوفناک صورت حال کاسا منا کرنے جا رہا ہے کیا پھر بھٹو اور قومی اتحاد والا انجام ہو سکتا ہے ؟ ادارے غیر جانبدار ہیں لیکن آخر کب تک ؟ یہ گندہ کھیل جو کھیلا گیا ہے اور کھیلا جا رہا ہےاور  یہ ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے والے مل کر ملک کا پیٹ پھاڑنے پر تُل گئے ہیں
‏اس کا انجام اچھا نہیں ہو گا ۔ لوگوں کو سوچنا ہو گا اٹھنا ہو گا کہ آخر یہ سارے نامی گرامی اور سزا یافتہ چور اکھٹے کیوں ہو گئے ہیں صرف اس لیئے کہ تھانیدار نیک آ گیا ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :